"SUC" (space) message & send to 7575

قصہ روزہ اچھلنے کا

' ' سعود! اُٹھ جاؤ۔سحری کرلو۔ وقت تھوڑا رہ گیا ہے‘ ‘ ۔
واقعہ کافی پرانا ہے لیکن رمضان میں اکثر یاد آتا ہے اور ہر بار ہنسی چھوٹ جاتی ہے ۔
ہمارے ایک بزرگ عزیز اپنے کاہل اور من موجی جوان بیٹے سے کافی نالاں رہتے تھے۔گھر کا کام ہو یا باہر کا۔صاحبزادے ہر چیز سے فارغ تھے۔سودا سلف بھی والد صاحب ہی لایا کرتے تھے۔ رمضان میں بیٹا اکثر تو روزہ ہی نہ رکھتا۔کبھی رکھ بھی لیتا تو چارپائی پر اینڈتا رہتا ۔اور دن چڑھے ہی شکایت کرنے لگتا کہ آج تو روزہ بہت لگ رہا ہے ۔ایک دن اس نے روزہ رکھا اور ساتھ ہی نیند کی گولی بھی لے لی۔ سارا دن سوتا رہا۔گوشت سبزی وغیرہ سب بزرگوار کرتے رہے۔مغرب سے دس منٹ پہلے بیٹااُٹھا تو خوش خوش والد کے پاس آیا ۔بولا: ابا جی ! کمال ہوگیا۔آج تو روزہ بالکل لگا ہی نہیں ۔
راوی یہاں تک قصہ سنا کر خاموش ہوجاتا ہے ۔ آگے نہیں بتاتا کہ تھکے ماندے نڈھال ابا جی پر‘جنہیں روزہ لگ رہا تھا‘فرزند کی زبان سے اس خوشخبری کا کیا اثر ہوا۔افطار سے پہلے کے دس منٹ میں کیا واقعات ظہور پذیر ہوئے۔ابا جی کا جوتا کیا بدستور پاؤں کے ساتھ رہا یا دونوں میں کچھ دیر کی جدائی ہوئی اور اس دورانیے میں بیٹے کو اچھی طرح روزہ لگا یا نہیں ۔قیاس کہتا ہے کہ جو روزہ صاحبزادے کو سارا دن نہیں لگا تھا ‘وہ اس خوشخبری کے بعد خوب زور سے لگا ہوگا۔میں بزرگوار کی جگہ ہوتا تو نقاہت بھول کر سر سے پاؤں تک دھما دھم روزہ لگواتا۔
آج کل لاہور کا معاملہ یہ ہے کہ روزے ٹھنڈے ٹھار گزر رہے ہیں ۔روز جھماجھم کے ساتھ رات ‘علی الصبح یا دن بھر مینہ برستا ہے۔وہ سردی جو رخصت ہو کر گھر سے باہر نکل چکی تھی‘ بلا دستک دیے پھر واپس آ بیٹھی ہے ۔ کبھی کبھی تو گرم کپڑوں کی ضرورت لگنے لگتی ہے ۔ بارش‘بادل ‘ہوا فراوانی سے ہیں۔پنکھے کی ضرورت نہیں اور اپریل کا آغاز ہوگیا ہے۔دن خیر سے گزر جاتا ہے ۔بھوک پیاس نہیں لگتی ۔ اس لیے اگر کسی کی زبان سے یہ سننے کو ملے کہ روزہ لگ رہا ہے تو ذرا عجیب لگتا ہے۔ لیکن اس کے باجود یہ معاملہ تو مشترک ہے نا!کہ روزہ کبھی کبھی بہت لگتا ہے۔اور یہ معاملہ تحقیق طلب ہے کہ روزہ لگتا کیسے ہے؟مجھے تجسس ہوا کہ یہ جو ہم اردو او رپنجاب میں (بظاہر دیگر زبانوں میں بھی )اکثر بولتے ہیں کہ روزہ لگ رہا ہے‘تو یہ کون سا محاورہ ہے؟اور اس کا مطلب تو خیر بچے بچے کو معلوم ہے لیکن اگر اس کی تشریح کرنے بیٹھیں تو کن الفاظ میں اور کیسے ہوگی کہ روزہ لگنے سے مراد کیا ہے؟کیا بھوک پیاس لگنا؟ چائے یا سگریٹ کی شدید طلب ہونا؟‘ سر درد ہونا؟‘بیزاری ہونا؟‘کسی کام میں دل نہ لگنا؟یا ان سب کا مجموعہ؟ تجسس نے کہا کہ تم فارغ تو بیٹھے ہو اور روزہ لگ بھی نہیں رہا ہے ۔ تو ذرا زبان دانوں سے پوچھو تو سہی وہ کیا کہتے ہیں ۔فرہنگِ آصفیہ کھولی۔ روزے کے ذیل میں کئی محاورات موجود ہیں لیکن روزہ لگنا نہیں ۔آصفیہ بند کی اور نور اللغات کھول لی ۔کئی محاورات موجود لیکن مطلوبہ غائب۔ وارث سرہندی کی علمی اردو لغت نکالی ۔اردو ڈکشنری بورڈ کی ضخیم لغات سے رجوع کیا لیکن نتیجہ وہی ۔دستیاب لغات میں روزہ لگنا کا محاورہ کسی جگہ موجود نہیں ۔ممکن ہے کسی اور لغت میں موجود ہو لیکن اتنی مفصل تلاش کون کرے بھیا ! کہیں روزہ نہ لگنے لگے ۔
تو جب روزہ لگنے کا محاورہ موجود ہی نہیں تو پھر استعمال کریں یا نا کریں؟ یا اس کی جگہ کوئی اور مستند محاورہ اختیار کرلیں۔انہی لغات میں تلاش کرتے ہوئے اسی بہانے روزہ چڑھنا‘روزہ اُچھلنا ‘روزہ بہلانا وغیرہ کے کئی محاورات سے ایک بار پھر نظریں چار ہوگئیں۔روزہ بہلنا تو سب کو علم ہو گا۔ یعنی روزے میں دل بہلانے کے لیے کسی مشغلے میں وقت گزارنا۔ اور روزہ اچھلنا۔یہ دلی کی زبان کا مزیدار محاورہ ہے ۔یعنی روزے میں جھنجلاہٹ سوار ہوجانا۔کوئی آدمی چڑ چڑاہٹ میں باتیں کرے تو کہتے ہیں‘ میاں ! تمہارا توروزہ اچھل رہا ہے۔لکھنؤ والے اسی کیفیت کے لیے روزہ چڑھنا کہتے ہیں۔بھیا ! کیسی باتیں کرتے ہو۔تمہیں روزہ چڑھ رہا ہے ۔یہ محاورے پڑھ کر مجھے کئی رمضان ‘ اپنے کئی بزرگ اور ان کی یادگار ڈانٹیں یاد آنے لگیں۔اب پتہ چلا کہ انہیں روزہ لگتا نہیں تھا۔ ان کا روزہ اچھلتا تھا۔ہر روز اچھلتا تھا۔اور معمولی طریقے سے اچھلتا بھی نہیں تھا۔کئی کئی گز کی اونچی اونچی چھلانگیں لگاتا تھا۔
لیکن روزہ لگنا کہا ں گیا؟ خدایا! کیا ان زبان دانوں کو کبھی روزہ لگا نہیں؟یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انسان نہ جھنجھلائے نہ غصہ کرے لیکن بھوک پیاس سے نڈھال ہو۔ٹھیک ہو لیکن ٹھیک نہ ہو۔ حالات و واقعات اور اعضا قابو سے باہر ہورہے ہوں۔سوال یہ ہے کہ یہ جو ہم لوگوں کی زبان پر روزہ لگنا چڑھا ہوا ہے ۔وہ آخرکہاں سے آیا؟آخر اتنے لوگ بولتے ہیں اور اتنی زبانوں میں موجود ہے تولغات میں کیوں نہیں؟ اب کیا یہ میرا فرض ہے کہ میں اس محاورے کو کسی لغت میں داخل کروں؟آخر اتنے بڑے بڑے ادارے اور اُردو لغت بورڈکسی مرض کی دوا تھے؟ یہ جو محققین سال ہا سال وہاں بیٹھے روٹیاں توڑتے رہے ۔انہیں ایک سامنے کا محاورہ نظر نہیں آیا ؟
یہاں تک لکھ کر احساس ہورہا ہے کہ ہاتھ اور زبان قابو سے باہر ہورہے ہیں ۔ میرا روزہ اچھل رہا ہے ۔خیراچھلتا رہے۔ایک کالم ان نکمے زبان دانوں کے لیے لکھنا تو بنتا ہے۔آپ دیکھیے نا! حالات کیا ہیں‘ روزہ ہے اورانسان عدلیہ پر غصہ نہیں کر سکتا۔ حکومت پر غضبناک نہیں ہوسکتا۔ سیاستدانوں پر نہیں جھنجھلا سکتا ۔ اور دونوں کانوں کو ہاتھ لگا کر کہتا ہوں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف تو اشارہ بھی نہیں کرسکتا ۔ جواب میں ان کا روزہ اچھل گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔ تو جھنجھلاہٹ اور غصے کے لیے مناسب جگہ اور مناسب طبقہ ڈھونڈنابہت ضروری ہے ۔ اور اہلِ علم سے بہتر ‘ بے ضرر اوربھلا مانس طبقہ بھلا کون سا ہوسکتا ہے۔سو انہی پر روزہ اچھلنا بہتر ہے۔
ویسے یہ باتیں تو ان لوگوں کی ہورہی ہیں جو روزہ رکھتے ہیں اور روزہ رکھ کر ان پر جن کیفیات کا ورود اورنزول ہوتا ہے‘وہ قریبی لوگوں پر نازل ہوجاتی ہیں۔لیکن وہ لوگ جو روزے بھی نہیں رکھتے اور ان کا روزہ ہرن اور کنگرو کی طرح اچھلتا پھرتا ہے۔ان کے پا س کیا جواز ہے؟ گمان تو یہی رکھنا چاہئے کہ جن کا روزہ اچھلتا ہے وہ روزہ رکھتے بھی ہوں گے۔یہ جو ہمارے منصفیں اعلیٰ کبھی بینچ پر بیٹھ جاتے ہیں ‘کبھی اٹھ کر کھڑے ہوتے ہیں ۔مجھے غالب گمان ہے کہ ان کا روزہ اچھلتا ہے۔ یہ جو الیکشن کمیشن نے اپریل کی تاریخ دینے کے بعد اچانک اکتوبر کی بشارتیں دے دیں ‘یقین ہے کہ ان کا روزہ بہت زور سے اچھلا ہو گا۔یہ جو عمران خان صاحب کے ہر روز سحری سے پہلے‘ظہر کے بعد‘عصر سے متصل‘ افطار سے قبل اور تراویح کے وقت شعلہ زبان بیانات ہیں ‘یقینا روزے کے اچھال کا نتیجہ ہیں ۔میں سمجھتا ہوںخان صاحب کو کسی مفرح اور سکون آور شربت اور خمیرے کی شدید ضرورت ہے تاکہ قوم بھی پر سکون اور مفرح زندگی گزار سکے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ روزہ رکھتے ہیں یا نہیں لیکن پچھلے دنوں ان پر حالتِ جذب سی کچھ طاری ہوگئی۔ اسی حالت بے اختیاری میں کہا کہ اب یا تو وہ رہے گا یا ہم۔ اندر کی بات یہ ہے کہ رانا صاحب کا روزہ بہت زور سے اچھلا تھا۔اتنی اونچائی سے جب نیچے گرا تو اپنے ہی ساتھیوں پر ۔جو پہلے ہی بے حال لیٹے تھے ۔اتنی چوٹ لگی کہ کئی کو یقین ہوگیا کہ وہ تو رہے گا‘ہم ہی نہیں بچیں گے۔
لیکن چلیں ہم لوگ روزے تو جیسے تیسے روزہ لگتے ہوئے ‘اچھلتے ہوئے‘چڑھتے ہوئے‘بہلتے ہوئے کسی طرح گزار ہی لیں گے۔ ان لوگوں کا کیا ہوگا جن کا روزہ سارا سال اچھلا ہی رہتا ہے۔انہیں رمضان غیر رمضان سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔
بار الٰہا ! ان کا روزہ کسی طرح بٹھا دے ۔بار الٰہا ! ان کا روزہ پورے سال کے لیے نیند کی گولی دے کر سلا دے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں