بند کمروں کی ملاقاتوں میں ہم بچوں کو جانے کی اجازت نہیں تھی ۔ جانے کی کیا ‘جھانکنے کی بھی نہیں ۔لہٰذا ہم تجسس کے مارے ہوئے بچے دروازوں کی جھریوں میں سے جھانک کر ان بڑی شخصیا ت کو دیکھنے کی کوشش کیا کرتے جن کا پورے ملک میں روز و شب ڈنکا بجتا تھا۔ ممانعت کی اس فصیل میں شگاف اس وقت پڑتا ‘جب پانی ‘چائے یا کھانے کی چیزیں اندر لے جائی جاتیں۔ یہ واحد موقع ہوتا جب ہم بچے یہ دیکھ سکتے تھے کہ کون نامور شخصیت کس جگہ بیٹھی ہے ۔یہ کاشانۂ زکی ‘سمن آباد موڑ کے ہمارے آبائی گھر کی بات ہے اوریہ 1973ء کے دن تھے ۔ان دنوں یہ ملاقاتیں جنہیں ہم بچے اس وقت نہایت پراسرار سمجھتے تھے ‘بہت تیزی سے ہورہی تھیں ۔ ویسے تو ہم 1969 کے انتخابات کے زمانے سے اس طرح کی میٹنگز کے عادی ہوچکے تھے اور ان دنوں بھی مختلف جماعتوں کے سرکردہ رہنما ہمارے گھر پر ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ میرے کشادہ دل ‘ مہمان نواز والد جناب زکی کیفی میزبان ہوا کرتے اور اکثر ملاقاتیں انہی کے مشورے اور تجویزپر منعقد ہوا کرتی تھیں۔ ان ملاقاتوں میں میرے دادا مفتیٔ اعظم پاکستان ‘مفتی محمد شفیع ‘مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی ‘نواب زادہ نصر اللہ خان‘میاں طفیل محمد‘مولانا ظفر احمد انصاری بڑی مذہبی ‘سیاسی شخصیات میں سے چند نام ہوا کرتے تھے۔ میں ایک دو بار ذکر کرچکا ہوں کہ مولاناظفر احمد انصاری (رکن قومی اسمبلی ) اکثرہمارے گھر ہی طویل مدت قیام کیا کرتے اور گھر کے ایک فرد سمجھے جاتے تھے۔لیکن اب 1973ء میں معاملات اور تھے۔ 1969 ء کے انتخابی نتائج ‘ سقوطِ مشرقی پاکستان ‘نئی قومی اسمبلی‘پیپلز پارٹی کی مرکز ‘پنجاب‘سندھ میں حکومت وغیرہ سب واقعات رونما ہوچکے تھے اور اب نئے آئین ‘نئی دستور سازی کا مرحلہ تھا۔سب ملاقاتیں اسی محور کے گرد گھومتی تھیں ۔میرے والد اور مولانا ظفر احمد انصاری تو میزبانوں میں ہی تھے ۔آنے والوں میں کبھی کبھی مودودی صاحب ‘ اکثرنواب زادہ نصر اللہ خان ‘میاں طفیل محمد‘وغیرہ وغیرہ ۔کبھی کبھار سردار فاروق لغاری بھی ‘جو پیپلز پارٹی کے بڑے رہنما تھے لیکن زیادہ لوگوں نے ان کا نام اُس وقت سنا جب وہ صدرِ پاکستان مقرر ہوئے۔
پھر ان ملاقاتوں میں بڑی تعداد میں پہلی دوسری تیسری صفوں کے سیاسی‘ مذہبی ‘صحافتی ‘علمی افراد تھے جو بعد ازاں خود نامور ترین شخصیات میں شمار ہوئے۔اسی زمانے میں ملک کے بائیس امیر ترین خاندانوں میں سے ایک‘ نامورصنعتکار باوانی گروپ کے سیٹھ ابراہیم باوانی ‘جو ہمارے بزرگوں اور انصاری صاحب سے محبت رکھتے تھے اور ملکی حالات پر مضطرب رہتے تھے‘کئی بار ہمارے گھر کی ملاقاتوں اور دعوتوں میں شریک ہوتے رہے۔ انصاری صاحب سے بات چیت کے لیے کبھی وزیر اعظم بھٹو‘کبھی وزیر قانون عبد الحفیظ پیرزادہ ‘ کبھی کوثر نیازی‘ کبھی غلام مصطفی کھر اور دیگر کے فون آیا کرتے تھے ۔ ہم بچے اسی بات پر خوش ہوجایا کرتے تھے کہ وزیر اعظم کا فون ہمارے گھر آتا رہتا ہے ۔کیوں آتا ہے؟ اس سے غرض نہیں تھی۔بس ایک بات پتہ تھی اور وہ یہ کہ کوئی بہت خاص معاملہ ہے‘ اہم کاغذ تیار ہورہے ہیں ۔
اب جبکہ 1973 ء پچاس سال پیچھے رہ گیا ہے ‘وہ بچے جو دروازے کی جھریوں سے جھانکا کرتے تھے‘ اس تصویر کو بہتر دیکھ سکتے ہیں جو اُس وقت بالکل قریب ہونے اور کم شعور ہونے کی وجہ سے ٹھیک نظر نہ آتی تھی ۔اب اندازہ ہوتا ہے کہ معاملات کتنے نازک تھے۔ملک کے لیے مضطرب بے شمار لوگوں کی (اور بھٹو صاحب کی بھی )شدید خواہش تھی کہ اس پر سب جماعتوں اور طبقات کے دستخط ہوں ۔یہ اس دستاویز کی از سرِ نو تیاری کا مرحلہ تھا‘ جو ملک کی سمت متعین کرے اور بنیادی اصول طے کرے ۔ سب سے بڑامسئلہ یہ کہ مختلف الخیال جماعتوں میں ‘ ایک دوسرے سے بات بات پر اختلاف کرنیوالوں کو ایک دستاویز پر متفق کیسے کیا جائے ۔شدید خواہش کے باوجود اصل مسئلہ یہ تھا کہ یہ دستاویز نظریاتی لحاظ سے منقسم حلقوں‘ جماعتوں میں کیسے متفقہ بنائی جائے؟کیسے اس پر سب کے دستخط ہوں؟ انصاری صاحب خاصی حد تک غیر متنازع شخصیت تھے اور سب کے لیے قابلِ احترام۔وہ اس آئین کی اہمیت کو پہچانتے تھے ‘اس لیے وہ ان ملاقاتوں اور رابطوں میں پیش پیش تھے۔
معاملات گمبھیر تھے لیکن صرف ایک طرف گمبھیر نہیں تھے۔ میرے والد زکی کیفی ان سب کوششوں میں پس پردہ رہ کر نہایت تندہی سے شریک تھے۔وہ پاکستان سے شدید محبت کرنیوالوں میں تھے اور اس کیلئے ان کی جان بھی حاضر تھی ۔ اس نازک مرحلے پر انہیں اس کام کی اہمیت کا اندازہ تھا لہٰذا وہ مسلسل اس کام میں لگے ہوئے تھے۔اور کن حالات میں ؟ہمیں کچھ کچھ اس وقت بھی اندازہ تھا اور اب تو سب کچھ واضح ہے کہ ان کے معاشی حالات ان دنوں کتنے دگرگوں تھے۔انہی دنوں گھر بنانے میں ان پر کتنا قرض چڑھ چکا تھا۔ان کی صحت خراب ہورہی تھی اور بچے اتنے چھوٹے تھے کہ کاموں میں ہاتھ نہیں بٹا سکتے تھے۔ کیسے وہ یہ سب کرتے تھے۔ یہ مہمان داری ‘ یہ خاطر تواضع ۔وہ کیسے کرتے تھے یہ سب کچھ ان حالات میں ؟ اور ہماری امی ۔کیسی ضرورتوں کیساتھ کیسی تنگی ترشی کے دن گزارتی تھیں اورکیسے کمال صبر کیساتھ۔ اور پھر بھی کیسا خوشیوں بھرا گھر تھا۔سوچتا ہوں تو آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔
آنسو بھری آنکھوں کووہ دن یاد آگیا جس دن آئین متفقہ طور پر منظور ہوا تھا۔ سب ارکانِ اسمبلی کے دستخط ا س دستاویز پر ہوئے تھے۔ 10اپریل 1973ء کو قومی اسمبلی نے اسے منظور کیا تھا۔میرے والد جناب زکی کیفی اس خبر اورخوشی سے دمکتے چہرے کیساتھ گھر آئے تھے۔یہ دن یادگار تھا‘ان کیلئے بھی ‘ ان کو دیکھنے والوں کیلئے بھی ۔چند دن بعد ظفر احمد انصاری صاحب اسلام آباد سے لاہور آئے تو خوشی سے تمتمائے چہرے کیساتھ۔ مبارک بادوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ایسا لگتا تھا کہ ہمارے گھر میں خوشی کی کوئی بڑی بات ہوئی ہے اور یہ سچ بھی تو تھا ۔ ہمارے ہی گھر میں توخوشی کی بڑی بات ہوئی تھی۔ہمارے ملک میں‘ہمارے بڑے گھر میں ۔اصل پتھر بنیادوں کے ہوتے ہیں ‘ انہی پر عمارت مضبو ط طریقے سے استوار ہوتی ہے۔ یہ پتھر تہِ خاک چھپ جاتے ہیں ۔عمار ت میں کہیں نظر نہیں آتے ۔ پھرنسلیں اور صدیاں گزر جاتی ہیں‘ لوگ عمارت کے صرف زیبائشی پتھر دیکھتے اور سراہتے ہیں۔اوریہ بات بنیاد کے پتھروں کو پتہ ہوتی ہے کہ وہ آئندہ کل لوگوں کی نظر میں کہیں نہیں ہوں گے لیکن وہ جان لڑا دیتے ہیں اور اپنے کاندھوں پر عمارت بلند کردیتے ہیں ۔لیکن عمارت جانتی ہے‘ اسے یاد رہتا ہے کہ میں کیسے استوار ہوئی تھی ‘میرا بوجھ کن مضبوط پتھروں نے اٹھایا تھا۔وہ جب تک رہتی ہے‘ہمیشہ احسان مند رہتی ہے۔
سواے میرے محبوب والد ! جناب محمد زکی کیفی !10 اپریل کا دن پھر آیا ہے۔ آئین کو منظور ہوئے پچاس سال گزرے ۔ قومی اسمبلی نے آئین کا جشن منایا۔راہداریوں میں سیاسی زعما کی تصاویر آویزاں کی گئیں ۔ اس قیمتی دستاویز کی اہمیت بیان کی گئی اور انہیں خراج تحسین پیش کیا گیا جنہوں نے یہ بنیادی کام کیا تھا۔میرے بھائی جی !آپ نے کیسی پریشانی اور مالی مشکل میں وہ دن بھی ہنستے بستے گزارے تھے۔یہ ہمارے لیے سبق تھاکہ ہر معاشی پریشانی خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ‘چھوٹے گھر کی ہو یا بڑے گھر کی ‘ بالآخر گزر جاتی ہے ۔ کام یہ ہے کہ اصل منزل پر نظر رکھی جائے ۔ اصل مقصدکیلئے کام کرتے رہا جائے ۔ میری آنکھوں میں آنسو ‘ اور میرے دل میں آپ کی دمکتی صورت ہے۔آپ تحریک پاکستان کے نڈر سپاہیوں میں بھی تھے اور آپ آئین سازی کی بنیاد کے پتھروں میں بھی تھے ۔آپ کے کاندھوں پر عمارت ہمیشہ بلند رہے گی ۔احسان مند رہے گی ۔