غالب نے تو کالم نہیں عالم کا لفظ استعمال کیا تھا۔ عالم تمام حلقۂ دام خیال ہے لیکن سچ یہ ہے کہ کالم بھی ایک جال جیسا ہے جس میں سب سے پہلے کالم نگار ہی پھنستا ہے۔ بہت دن پہلے کی بات ہے‘ جب میں نے کالم نگاری کی دنیا میں قدم رکھا تو یہ دنیا جانی پہچانی ہونے کے باوجود قدرے نئی تھی۔ اس کے تقاضے‘ طور طریقے اور اثرات‘ سب کا ذائقہ مختلف سا تھا۔ بطور ادیب یا شاعر چھپے ہوئے لفظوں کا اثر اور ان پر تعریف و تنقید اگرچہ میر ے لیے نئی بات نہیں تھی لیکن پھر بھی کافی کچھ الگ سا تھا۔ کالم ایک اعزاز بھی ہے‘ امتحان بھی۔ یہ آسمان پرواز کے لیے محدود وسعتوں تک کھلا ہوتا ہے۔ اقبالؔ کا شعر حسبِ حال لگتا ہے۔
نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشۂ فراغت
یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ
بڑا کرم مالک کا اور بڑی مہربانی پڑھنے والوں کی کہ وہ ابتدا سے مجھے سراہتے رہے ہیں۔ بہت سی ای میلز‘ واٹس ایپ‘ فون کالز اور پیغامات ملتے ہیں۔ بہت سے دوست یہ مہربانی کرتے ہیں کہ کالم پڑھ کر فون کرتے اور زبانی داد سے نوازتے ہیں۔ ان میں بہت سے باکمال لوگ بھی ہیں جن کی داد بہت قیمتی ہے لیکن یہ بھی ہے کہ قارئین کی بہت بڑی تعداد وہ ہوتی ہے جن کی عادت اگرچہ بے تاثر اور بے اظہار خاموشی ہوتی ہے لیکن ان سے کبھی بات ہو تو وہ اندر سے تحریروں کے بڑے مداح نکلتے ہیں۔ کسی لکھنے والے کے لیے یہ انتہائی حوصلہ افزا بات ہے کہ ایک ایسا شخص‘ جسے وہ جانتا تک نہیں‘ اس کے شعر یا کالم پسند کرتا ہے۔اس کا دوسرا رخ بھی نظر انداز نہ کیجیے گا۔ میرے کالم کا مستقل عنوان 'دل سے دل تک‘ ہے اور میں اس میں اپنے دل کی بات ہی کہتا ہوں‘ خواہ وہ کسی سیاسی جماعت یا گروہ کے خلاف ہو یا حق میں ہو۔ اس سے لیکن اگر کسی سیاسی کارکن کو اشتعال آگیا تو پھر وہ اپنے دل کی ایسی بات کرے گا کہ آپ کو لگ پتا جائے گا۔ ایسا کوئی کالم لکھ دیجیے اور مصرعٔ غالب کا مشاہدۂ حق کرتے جائیے۔
تب دیکھیے اندازِ گل افشانیٔ گفتار
چنانچہ دل کی بات کہہ کر جو کراری چوٹیں لگتی ہیں‘ وہ ہر کالم نگار کی طرح میری بھی تقدیر ہے۔ اس پر تو انسان صبر بھی کر لیتا ہے کہ ٹھیک ہے‘ اپنے مخالف کی تعریف پر لوگ مشتعل ہو جاتے ہیں لیکن ان کا کیا کریں جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا ہے ہی نہیں لیکن دخل ہر ایک چیز میں ہے۔ ایک گروہ خدائی فوجداروں کا بھی ہے جن کا اس بات پر کامل ایمان ہے کہ اگر انہوں نے کالم نگار کی فوری سرکوبی نہ کی تو مخلوق کی گمراہی پکی ہے اور اس کا حساب ان خدائی فوجداروں سے لیا جائے گا۔ پھر ایک پوری مخلوق اس دنیا میں پائی جاتی ہے اور باقاعدگی سے کالم پڑھتی ہے جنہیں ہر ایک سے خدا واسطے کا بیر ہے۔ اس خیال پر میرا پکا یقین ہے کہ کسی ہنس مکھ بیوقوف کے ساتھ وقت گزارنا آسان ہے لیکن چڑچڑے ذہین کے ساتھ ناممکن۔ یقین نہ آئے تو کسی چڑچڑے نابغے کے ساتھ ایک دن گزار دیکھیں۔
کالموں کے یہ فوائد لیکن بہت ہیں کہ ان کے ذریعے غیرمتوقع طور پر بچھڑے ہوئے لوگوں سے بھی ملاقات ہو جاتی ہے اور نئے ہم خیالوں سے بھی۔ میں نے بچپن کی یادوں میں اپنی ایک ہمسائی خالہ اقبال کا ذکر کیا تو یہ کالم ان کے گھرانے تک پہنچا اور انہوں نے مجھ سے رابطہ کیا جو تیس سال سے ٹوٹا ہوا تھا۔ سمن آباد موڑ پر میرے آبائی گھر کے ذکر پر کئی احباب نے رابطہ کیا جو وہیں رہا کرتے تھے لیکن اسی کا حصہ وہ عجیب و غریب تجربات بھی ہیں جو مجھے ہر روز یا اکثر پیش آتے رہتے ہیں۔ بھئی! ایسے ویسے تجربات؟ کچھ دن پہلے میں نے ایک کالم میں موجودہ سیاسی جماعتوں میں سے جماعت اسلامی کے ارکان کی تعریف کی۔ اس لیے کہ ان پر نہ عام طور پر بددیانتی کے داغ ہیں‘ نہ توشہ خانہ کے‘ نہ بطور وزیر سفیر ناجائز مراعات کے۔ کراچی کی سطح پر انہوں نے بہت کام کیا ہے اور فلاحی ادارے بنانے میں بھی یہ لوگ پیش پیش ہیں۔ یہ ایک درست بات تھی لیکن جماعت سے نفرت کی حد تک بیزار ایک صاحب نے مجھے ایک ای میل بھیجی جس میں شدید غم و غصے کا اظہار کیا گیا تھا۔ اس ای میل کا اختتام ان الفاظ پر ہوتا ہے کہ آپ نے جماعت اسلامی کی تعریفیں کیں‘ کیا عرشِ الٰہی کانپ نہیں گیا ہوگا۔ فی الفور الفاظ واپس لیں اور اس طبقے کی مذمت پر مضمون لکھ کر توبہ کریں۔
پڑھ لیا آپ نے؟ بس اس سے اندازہ لگا لیں کہ کالم نگار کی سرکوبی کے لیے کیسے کیسے دماغ اور کیسے کیسے جملے موجود ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے میں نے 1973ء کے آئین بننے کے موقع پر اپنی کچھ بچپن کی یادیں کالم میں ذکر کی تھیں۔ ایک صاحب نے ای میل میں میرا واٹس ایپ نمبر مانگا اور کہا کہ مجھے کالم کے بارے میں کچھ بات کرنی ہے۔ پھر انہوں نے ایک صوتی پیغام بھیجا جس میں کالم پر تو خیر کوئی بات تھی ہی نہیں؛ البتہ آئین پر عمل نہ ہونے کے بارے میں ان کے اپنے خیالات کی بھرمار موجود تھی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ ان سب بے عملیوں کا ذمے دار سعود عثمانی ہے۔ کئی لوگوں کا پُرزور اصرار ہوتا ہے کہ انہوں نے جو بیش قیمت خیالات مجھے بھیجے ہیں‘ انہیں بلا ترمیم و تحریف کالم میں فوری طور پر چھاپا جائے کہ یہ وقت کا بہت اہم تقاضا ہے۔
ایک ادھیڑ عمر افسر قسم کے صاحب ہانپتے کانپتے میرے دفتر کی سیڑھیاں چڑھے اور سلام دعا سے پیشتر ہی باآواز بلند کہا کہ میں بہت دور سے آیا ہوں اور بڑی مشکل سے آپ کا پتا حاصل کیا ہے۔ میرا نام فلاں ہے اور میں چاہتا ہوں کہ آپ کو بہت سی ایسی باتوں سے آگاہ کروں جو آپ کو کالم میں بہت فائدہ دیں گی۔ اس تمہید کے بعد انہوں سے کم و بیش ایک گھنٹے کی تقریر کی۔ بالآخر جب مسلسل بولنے سے نڈھال سے ہونے لگے اور سانسوں کے اتار چڑھاؤ کے باعث مزید کلام سے عاجز ہوگئے تو میں نے انہیں پانی پیش کیا‘ اگرچہ اس میں خطرہ تھا کہ وہ پھر تازہ دم ہو جائیں گے۔ بالآخر وہ رخصت ہوئے تو میرے ذہن سے وہ کالم بھی کھرچ کر لے گئے جو ان کے آنے سے پہلے لکھ رہا تھا۔ اندازہ ہوا کہ انہیں بہت زور سے یہ خیالات آئے ہوئے تھے اور کوئی ایسا آدمی درکار تھا جو ان سے پہلے واقف نہ ہو۔ میری شامت کہ وہ آدمی میں ہی تھا۔
ایک اور صاحب ہیں جنہیں شاعری کا شوق چین سے بیٹھنے نہیں دیتا۔ حالات یہ ہیں کہ نہ وزن‘ بحر‘ قافیہ‘ ردیف کا کچھ پتا ہے‘ نہ اس کے اصولوں ضابطوں کا علم ہے لیکن ہر روز اخبار کی ویب سائٹ پر‘ جہاں کالم چھپتے ہیں اور قارئین کی آراء کی سہولت ہے‘ پہنچے ہوتے ہیں اور اپنے بے سروپا‘ بے تکے مصرعے ہر کالم نگار کے کالم کے نیچے ایسے جڑ دیتے ہیں جیسے صاف دیوار پر اُپلا تھوپ دیا جاتا ہے۔ سالہا سال سے ان کا یہ معمول ہے۔ یہ تحقیق کا بڑا میدان ہوگا کہ ان کی اس مبینہ شاعری میں سے کوئی مصرع وزن میں برآمد کیا جا سکے۔
ایک اور حضرت ہیں۔ ایک زمانے میں ان کے بہت فون آیا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے آپ کے وہ کالم بہت پسند ہیں جو آپ نے ہندوستان کے سفر کے بارے میں لکھے ہیں۔ اب آپ نے کبھی ہندوستان کا سفر کرنا ہے تو میرے بغیر نہیں کرنا۔ مجھے ہر صورت ساتھ لے کر جانا ہے۔ میری مجال نہیں کہ اس حکم سے سرتابی کروں‘ اس لیے اے حکومتِ ہند! فوری طور پر دو افراد کے سفری انتظامات کیے جائیں۔ البتہ اس کے ساتھ ایک اور درخواست بھی لازمی ہے۔ واپسی میں ایک ہی آدمی کو واپس بھیجئے گا اور وہ میں ہوں گا۔