سچ بتائیے کیا آپ نے ایسی پرسکون ‘بے ہنگامہ ‘بے شور شغب قومی اسمبلی پہلے کبھی دیکھی ہے؟دیکھنا تو چھوڑ ہی دیجیے کبھی تصور بھی کیا تھا ایسے غل غپاڑے سے پاک ایوان کا ؟ 11اپریل 2022ء کو وزیر اعظم تبدیل ہوا اور جناب شہباز شریف نے نئے وزیر اعظم کا حلف اٹھایا۔اب اس انقلاب کو پورے بارہ ماہ اور انیس دن ہوچکے ہیں۔ قومی اسمبلی سے باہر ‘سڑکوں پر اور سیاسی میدانوں میں جو بھی ہنگامے ہوں ‘ قومی اسمبلی کے اندر راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔کیا آپ نے ان تیرہ مہینوں میں ایوان میں کوئی دھینگا مشتی دیکھی ؟کبھی اوئے فلاں کے آوازے سننے میں آئے؟کبھی کوئی گالی سنی؟کسی رکن کو کسی دستاویز کے پرزے پھاڑ کر ہوا میں اچھالتے دیکھا؟کبھی سپیکر کا گھیراؤ کیے ہوئے اراکینِ اسمبلی نظر آئے؟کسی خاتون نے کسی مخالف رکن کو دھکا دیا ؟بجٹ کی کاپیاں ایک دوسر ے پر کھینچ کر ماری گئیں؟ کبھی سپیکر نے ہال کا نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کیا؟ تحریک انصاف کے نکل جانے کے باوجود اس ایوان میں اراکین کی وہ تعداد تو اپنی جگہ موجود ہے جو2018ء میں دیگر جماعتوں اور آزادامیدواروں کی حیثیت میں ایوان میں پہنچی تھی اور جنہیں ہم 2018ء سے اپریل 2022ء تک ہر روز سر پھٹول کرتے دیکھتے تھے۔کون اس سوال کا جواب دے گا کہ اپریل کے بعد اس ایوان میں اچانک کیسے سکون اور شائستگی کی وہ روح حلول کر گئی جو پونے چار سال ایوان کے باہرکہیں مقید تھی ؟
بھٹو صاحب کے دورِ اقتدار کی بات ہے‘ جب سپیکر کے حکم پرمفتی محمود‘ ولی خان اور بھٹو صاحب کے دیگر مخالفوں کو سارجنٹ ایٹ آرمز نے ڈندا ڈولی کرکے ایوان سے باہر پھینکا تھا۔میرے خیال میں یہ مخالفوں کو باہر پھنکوانے کا پہلا واقعہ تھا‘ اس سے پہلے اسمبلیوں میں کبھی یہ واقعہ نہیں ہوا تھا۔بھٹو صاحب کو تنقید اور مخالفت برداشت نہیں تھی اور وہ اپنے ہر مخالف کو فکس اپ کرنے کی دھمکیاں انتخابی مہموں کے درمیان بھی دیتے تھے۔اور اقتدار ملنے پر انہیں واقعی فکس اپ کر تے بھی تھے۔ان کے اندر کا آمرمخالف تو مخالف ‘ساتھیوں کو بھی نہیں بخشتا تھا۔جیسے گورنر پنجاب غلام مصطفی کھر کو شیر پنجاب بنتا دیکھ کر بھٹو صاحب سے رہا نہ گیا ۔ انہیں دبانے کے لیے جو کام کیے گئے ان میں یہ بھی تھا کہ ممبر صوبائی اسمبلی افتخار تاری کو تیس ساتھیوں سمیت اغوا کرکے آزاد کشمیر میں دلائی کیمپ میں رکھا گیا اور ضیا الحق کے دور میں جب وہ اس کیمپ سے برآمد ہوئے تو ان کے گھر والوں کو پتہ چلا کہ وہ زندہ ہیں ۔ یہ لاپتہ لوگوں کی بھی شاید پاکستان میں اولین مثال تھی ۔ جے اے رحیم اورشیخ رشید جیسے پیپلز پارٹی کے بانیوں کا جو حشر کیا گیا‘ سب کو معلوم ہے ۔سعد رفیق کے والد خواجہ رفیق اور درویش رکن اسمبلی ڈاکٹر نذیر احمدکا قتل بھی وہ خون ہیں جن کی سزا بالآخر مکافاتِ عمل نے متعین کردی ۔
بات یہ ہورہی تھی کہ پہلی بار اسمبلی میں شور ہنگامہ ‘گالی گلوچ اور چیخ پکار اُس دور میں سنی گئی ۔ بعد میں تو یہ معمول ہوگیا۔پھرہم نے نواز شریف کی (ن )لیگ اور بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کے وہ ایوان دیکھے جن میں گھٹیاجملے ایک دوسرے پر اچھالنے اور ملک دشمن قرار دینے کے واقعات عام تھے۔یہ عام ہوگیا کہ مخالف صدراسمبلی سے خطاب کرے تو اس کی ایک نہ سنی جائے ۔ اسی طوفان میں تقریر شروع ہو اور اسی میں ختم ہوجائے ۔پرویز مشرف کا اس طوفان پر بس نہ چلا تو اسمبلی کو بدتمیز قرار دے دیا۔مجھے تو ہمیشہ تمیز اور بد تمیزی کی اصطلاحات اسی بنیاد پر دیکھنی پڑیں کہ کون شخص کس کرسی پر بیٹھا ہے اور اس کے نزدیک تمیز اس وقت کس چیز کا نام ہے۔ پھر ہم نے چوہدری اعتزاز احسن اور چوہدری نثار علی خان کے بیچ وہ گرما گرمی دیکھی جس میں چوہدی نثار بار بار اٹھنے کی کوشش کرتے تھے اور پکڑ پکڑ کر بٹھائے جاتے تھے۔پھر مشاہد اللہ خان مرحوم اور فواد چودھری کے بیچ وہ لفظی جنگ دیکھی جس میں کوئی سرخ لکیر تھی ہی نہیں ۔سلیکٹڈ کا نام لے کر وزیر اعظم کا طعنہ تو روز کا معمول تھا۔ہم نے عمران خان کا بطو روزیر اعظم وہ دور دیکھا جب وہ اپوزیشن لیڈر سے ہاتھ ملانا بھی پسند نہیں کرتے تھے۔ ان کا ہر مخالف چور ڈاکو اور ملک کے لیے خطرہ تھا اور ان کا ہر حامی ان کی مزعومہ ریاستِ مدینہ کا بہترین شہری ۔ہمیں قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے ان منہ پھٹ لوگوں کو بار بار سننا پڑا جن کی باتیں محلے کے لوگ بھی برداشت نہ کریں ۔اور ان سب پر مزید یہ کہ ہمیں انہیں لوگوں کے منہ سے بار بار سننا پڑا کہ جمہوریت کا حسن کیا ہوتا ہے؟یہ سب لوگ اس حسن کے دیوانے تھے اور قوم کو عملًاـ یہی باور کرواتے رہتے تھے کہ اخلاقیات کو گولی مارو‘جمہوریت کا حسن دیکھو ۔
جمہوریت کا یہ حسن دیکھتے دیکھتے قوم کی کمریں جھکنے اور بینائیاں جواب دینے لگیں ‘لیکن یہ حسن ختم نہیں ہوا۔اسی حسن کے ساتھ 2018ء کی اسمبلی طلوع ہوئی اور پونے چار سال اپنی خوبصورتی کی چکاچوند سے آنکھیں خیرہ کیے رکھیں ۔ کیا کیا ہنگامہ اس دور میں نہیں ہوا ۔ہر روز نیا تماشا اور نیا چسکا ملتا تھا۔اور اب اپریل 2023ء میں شہباز شریف بھی اسی طرح موجودہ ہیں ‘ بلاول بھٹو زرداری بھی ‘خواجہ آ ٓصف بھی ‘خواجہ سعد رفیق بھی ‘مولانا اسد محمود بھی ۔وہ ارکان بدستور موجود ہیں جن کے ذخیرے میں تند وتیز ناقابل اشاعت الفاظ بڑی تعداد میں موجود ہوتے ہیں۔پیپلز پارٹی بھی ہے لیکن کوئی مسٹر ٹین پرسنٹ کا نعرہ نہیں لگا رہانہ کسی کوسڑکوں پر گھسیٹنے کا کوئی تذکرہ ہے ۔(ن )لیگ بھی ہے لیکن لندن فلیٹس کا ذکر نہیں ۔ جے یو آئی ہے لیکن کشمیر کمیٹی کی کارکردگی پر کوئی سوال نہیں ۔ ایم کیو ایم ہے لیکن بھتہ خوری کا نام بھی سننے میں نہیں آرہا ۔کوئی بل پیش کیا جاتا ہے تو بے چون و چرا ‘اسی دن کیا اسی گھنٹے منظورہوجاتا ہے ۔اتنی تیزی سے قانون سازی کبھی پہلے دیکھی تھی ؟ایسا لگتا ہے کہ اسمبلی قانون سازی کے سوا کوئی کام نہیں کرتی اور قانون سازی بھی ہر ایک کے مطلب کی ۔ایسے لگتا ہے کہ سب کو اپنا ازبر کلام بھول چکا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ کسی نے اتنے سارے جسموں میں ایک ہی روح بھردی ہے ۔ انتہائی تمیزدار‘ شائستہ‘ شریف اور ہنس مکھ روح۔ کیسی بے رنگ‘بے مزہ اسمبلی ہے یہ جس میں خاک مزہ نہیں آرہا ۔مہینے میں ایک آدھ بار جوتا نہ چلے تو خاک جمہوریت کا حسن ہوا۔ضمیر جعفری کی ایک نظم کا ٹیپ کا مصرع ہے
یہ کھیل بھی کوئی کھیل ہوا‘ یہ میچ بھی کوئی میچ ہوا
میں نے اپنے اس دکھ کا اظہار ایک دوست سے کیا تو اس نے امید افزا بات کی ۔ بولا کہ وقتی طور پر تمہیں مایوسی کا سامنا ہے ۔ حوصلہ رکھو۔ ذرا یہ نئی اسمبلی آنے دوپھرروز اسمبلی میں آتش بازی کا تماشا دیکھنا ۔اس بار کا جوتاچپل کباب ہوگا۔ چپل کباب۔ لیکن یہ تو جب ہوگا سو ہوگا‘ فی الحال ہم کیا کریں؟ تب تک کیا دنیا کی دوسری اسمبلیوں کا تماشا دیکھیں؟ایسا کربھی لیں لیکن دیسی گالم گلوچ اور تو تکار کا لطف کہاں سے لائیں ۔یہی میرا اور میرے ہم مزاجوںکا دکھ ہے ۔ اس لیے اس الم انگیز کالم پر تعجب نہ کیجیے کہ ہم جو جمہوریت کے حسن کے عادی اورآنکھوں ‘کانوں کے نشئی ہیں ‘ہمیں ایسی پھیکی ‘بے مزہ ‘بد صورت اسمبلی اچھی نہیں لگتی جس میں گالی گلو چ اور جوتم پیزار نہ ہو۔شہباز شریف جو قائد ایوان ہیں‘راجہ پرویز اشرف جو سپیکر اسمبلی ہیں‘ ان سے ایک معمولی سی درخواست ہے اور وہ یہ کہ جب تک کسی اگلے تماشے کا بندوبست نہیں ہوتا‘وہ جمہوریت کے حسن کا بندوبست کریں۔ کس کے خلاف؟ ارے ہیں نا قائد ِحزب اختلاف راجہ ریاض ۔