اس سلسلے کے پہلے کالم میں ترکیہ کے چند دن بعد ہونے والے انتخابات پر کچھ بات ہو چکی ہے ۔یہ ایک سخت مقابلہ ہے جس میں طیب اردوان کو اپنی سیاسی زندگی کے سخت ترین انتخابات کا سامنا ہے۔جہاں مختلف سروے اردوان مخالف انتخابی اتحادنیشنل الائنس کے متفقہ امیدوار کمال قلیچ داروغلوکی معمولی برتری بتاتے ہیں وہیں کچھ سرویز ایسے بھی ہیں جن میں اردوان کی معمولی برتری ثابت ہوتی ہے۔ 24 اپریل کے ایک سروے میں اردوان کی جیت45.2فیصدجبکہ کمال قلیچ کی کامیابی 44.9 فیصدظاہر ہوتی ہے۔یہ بہت قریبی اعداد و شمار ہیں جن میں کوئی ایک بات بھی کسی کی جیت اور ہار کا فیصلہ کرسکتی ہے۔ اسی سے ایک اور خوفناک سوال جنم لے رہا ہے کہ اس مقابلے میں کوئی بھی فریق انتخابی نتائج ماننے سے انکار کرسکتا ہے۔کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ اردوان جو اس وقت اقتدار میں ہیں‘ شکست ماننے سے انکار کردیں؟ ایسا ہوا تو ملک خوفناک بحران میں پھنس سکتا ہے۔ایک بڑی تعداد سمجھتی ہے کہ اردوان اپنی شکست ماننے سے انکار کردیں گے اور اس کے نتیجے میں عوامی غم و غصے کی ایک لہر حامیوں اور مخالفوں کا ٹکراؤ اور انارکی جنم لے سکتی ہے۔ایک اور سوال منصفانہ انتخابات کا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ الیکشن چرانے کے کئی طریقے ہیں اور برسر اقتدار جماعت ان پر بھی عمل کرسکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ طیب اردوان کو بہت سے مسائل کا سامنا ہے۔ایک چیلنج ان 60 لاکھ نوجوان ووٹرز کا ہے جو پہلی بار ووٹ ڈالیں گے۔اس نسل نے ہوش سنبھالا تو طیب اردوان کو سربراہ مملکت دیکھااور و ہ ان حالات سے پوری طرح واقف نہیں جو ترکیہ کو ان کی پیدائش سے پہلے لاحق تھے۔یہ عام آدمی خصوصا ًنوجوانوں کا نفسیاتی مسئلہ ہے کہ وہ تبدیلی چاہتے ہیں اور مسائل کا سامنا ہو تو اس کا ذمہ دار موجودہ حکومت کو سمجھتے ہیں۔اردوان کا دوسرا مسئلہ فروری میں دو زلزلوں سے ہونے والا وہ ہولناک نقصان ہے جس میں50500 ہلاکتیں ہوئیں اور کم و بیش ساٹھ لاکھ افراد بے گھر ہوگئے۔ اردوان حکومت پر یہ شدید اعتراض ہے کہ اس نے فوری امدادی کاموں میں تاخیرکی جبکہ مسمارشدہ گھروں کے بنانے والوں نے ان معیار ات کا خیال نہیں رکھا تھا جو طے کے گئے تھے۔اگرچہ یہ ٹھیکے دار گرفتار بھی ہوئے اور سخت اقدامات بھی کیے گئے لیکن تاثر یہی ہے کہ کرپشن کی وجہ سے یہ ناقص تعمیرات ہوئیں۔
ترکیہ کو خوفناک معاشی بحران کا بھی سامنا ہے ۔ افراطِ زر اکتوبر 2022 ء میں85فیصدتک پہنچ گیا تھااور ترکی کرنسی لیرا اپنی تاریخ کے نچلے ترین درجے تک گر چکی ہے۔اس نے عام آدمی کے لیے زندگی نہایت مشکل بنادی ہے۔یوں سمجھ لیجئے کہ اگر مہنگائی سو فیصد سے بھی زیادہ بڑھی ہے تو تنخواہیں تیس فیصد سے زیادہ نہیں بڑھیں۔میں گزشتہ سال کئی بار ترکیہ گیا اور مجھے ناقابلِ برداشت حد تک گرانی محسوس ہوئی۔اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک ترک دوست کے حالیہ سٹیٹس کے مطابق پیاز جیسی بنیادی سبزی 30 لیرا فی کلو ہوچکی ہے‘یعنی پاکستانی روپے میں 440 روپے فی کلو۔تو وہاں کا ایک عام شہری جسے مستقل وہیں رہنا ہے‘ کس طرح اپنے اخراجات پورے کرتا ہوگا‘تصور کیا جاسکتا ہے۔ایک بڑا مسئلہ دس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کا ہے جنہوں نے ترک معاشرے پر بہت اثرات ڈالے ہیں۔ جرائم میں اضافے کے ساتھ ساتھ ہر شہر میں بھکاریوں کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔اسی طرح طیب اردوان کی اس پالیسی پر بھی نکتہ چینی کی جارہی ہے جس میں غیر ملکیوں کو ترکیہ میں مخصوص شرائط کے ساتھ شہریت‘کاروباراور جائیداد کی ملکیت کا حق دیا جارہا ہے۔عام آدمی سمجھ رہا ہے کہ ان کے معاشرے کی بنیادی ساخت پر فرق پڑ رہا ہے۔ایک بڑا تنقیدی نکتہ اردوان کی طاقت کی مرکزیت اور تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنے کی مسلسل کوشش ہے۔ ترکیہ میں اختیارات اس وقت صدر کی ذات میں مرتکز ہیں اور یہ اردوان کی اسی پالیسی کا نتیجہ ہے جو ترکیہ کو پارلیمانی سے صدارتی نظا م کی طرف لے گئی ہے۔ایک اور الزام سیاسی مخالفوں کو مقدمات اور قید و بند میں الجھانا ہے۔
جو غیر ملکی قوتیں طیب اردوان سے ناخوش ہیں اور جنہوں نے مبینہ طور پر 2016ء کی فوجی بغاوت میںحصہ لیا تھاان کی پوری کوشش ہے کہ اردوان دوبارہ طاقت میں نہ آئیں۔ایک بہت اہم معاملہ یہ ہے کہ مقامی اور غیر ملکی ذہن کو ایک اسلامی ترکیہ قبول نہیں‘وہ مغربی معیارات کے مطابق ایک لبرل معاشرہ چاہتے ہیں‘لہٰذا اردوان کے نظریات انہیں کسی طرح ہضم نہیں ہورہے۔دوسری طرف اردوان کی طاقت میں بھی کوئی شبہ نہیں۔یہ پولز بتاتے ہیں کہ اردوان کے حامی کتنی بڑی تعداد میں ہیں۔ وہ لوگ موجودہ مسائل کو بھی سمجھتے ہیں لیکن انہوں نے بیس سال پہلے اور اس سے پہلے کے ادوار اور واقعات بھی دیکھے ہیں اورجانتے ہیں کہ اردوان نے ترکی کو کن مشکل حالات سے نکالا تھا۔اردوان کے حامی سمجھتے ہیں کہ ان انتخابات میں بھی اردوان ہی جیتیں گے اور انہیں جیتنا بھی چاہیے ۔ایک بہت بڑی تعداد جرمنی‘فرانس میں موجود ترکوں کی بھی ہے جنہوں نے حال ہی میں ووٹ کے ذریعے اپنا حق استعمال کرلیا ہے‘ان کی اکثریت اردوان کی حامی ہے ۔یہ اگرچہ اردوان کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہیں لیکن ایک اور بار اردوان کو موقع دینے کے حق میں ہیں۔ان کے پاس بھی اپنی دلیلیں ہیں جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مخالف اتحاد جو مختلف الخیال ہے‘اس وقت صرف ایک نکتے پر متفق ہے اور وہ ہے اردوان کو شکست دینا۔لیکن ممکنہ جیت کے بعد ان میں موجود دراڑیں بہت نمایاں ہوں گی اور ایک مستحکم حکومت بنانے میں بہت سے مسائل کا سامنا ہوگا۔اس طرح کامل قلیچ داروغلو ایک کمزور صدر ثابت ہوں گے اور ان کا سیاسی اتحاد جو اِن کی بظاہر طاقت ہے‘یہی ان کی بڑی کمزوری ثابت ہوگی۔ اردوان کے معاملے میں ایسا نہیں ہے۔ اردوان کی جیت ہی موجودہ حالات میں ترکی کو استحکام کی طرف لے جاسکتی ہے۔
طیب اردوان کے اقتدار کے ادوار کا دو حصوں میں تجزیہ کیا جائے تو پہلے دور میں اردوان کی وہ کاوشیں نظر آتی ہیں جن کے سبب ترکیہ معاشی استحکام‘ فوجی طاقت کو اس کی حدود میں پابند کردینے اور انتظامی بہتری کی طرف تیزی سے گامزن ہوا۔دوسرے دور میں اردوان نے ثقافت‘ قومی شناخت‘ اسلام ازم‘عثمانیوں کی وراثت اور ترکی کو ایک عظیم طاقت بنادینے کے عزم کا اظہار کیا۔ مغربی طاقتوں پر کڑی تنقیدکی اور وہ بیانات دیے جن سے ایک عام ترک کی عزتِ نفس اور برابری کے تحفظ کو بہت بڑا حوصلہ ملتا تھا۔بہت بڑی تعداد اردوان کو وہ شخصیت سمجھتی ہے جو ترکیہ کو بالآخر تاریخ کی وہ عظیم سلطنت بناسکتی ہے جو اب ماضی کے دھندلکوں میں چھپ گئی ہے۔ترکوں کی ایک بڑی تعداد حالیہ سروے کے مطابق امریکہ کو ترکیہ کا دشمن سمجھتی ہے جبکہ روس کے بارے میں یہ تاثر کم کم ہے۔طیب اردوان کے دور میں روس سے ترکیہ کی قربت ہوئی ہے‘حال ہی میں روس کے تعاون سے ایٹمی بجلی گھر کا افتتاح کیا گیا ہے۔روس سے یہ بڑھتی قربت بھی امریکہ اور مغربی طاقتوں کیلئے باعث تشویش ہے۔پاکستان خاص طور پر اور مسلم دنیا عام طور پر ترکیہ سے محبت کرتے ہیں۔اس کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہیں اور صدیوں سے یہ دو طرفہ محبت کا رشتہ استوار ہے۔ ایسے میں پاکستانیوں کی شدید خواہش ہے کہ ترکیہ اس وقت جن معاشی‘قدرتی اورسیاسی بحرانوں سے گزر رہا ہے اس سے جلد نکل آئے۔یہ صاف نظر آتا ہے کہ ترکیہ اس وقت سیاسی اورنظریاتی طور پر شدید منقسم ہے۔ خود پاکستان بھی اسی آشوب سے گزر رہاہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ کیا ترکیہ موجودہ انتخاب کے بعد‘نتائج سے قطع نظر‘تقسیم کی اس خلیج کو کم کرسکے گا؟نیا دور ترکیہ بلکہ پاکستان کے لیے بھی کیا پیغامات لائے گا‘کچھ کہنا قبل از وقت ہے۔ہم سب ٹکٹکی باندھ کر ترکیہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔اس دعا کے ساتھ کہ یہ انتخابات ترکیہ کوایک ایسے دور کی طرف لے جائیں جو معاشی اور سیاسی استحکام کا دور ہو۔