14مئی کی پولنگ میں رجب طیب اردوان کی برتری کی ایک بڑی وجہ غیر ملکی ووٹ بھی بتائی جاتی ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ طیب اردوان نے اپنی سیاسی حمایت کی غرض سے ترکیہ کے دروازے ان غیر ملکیوں پر کھولے تھے۔ ایک انداز ے کے مطابق اس وقت لگ بھگ چالیس لاکھ شامی مہاجرین ترکیہ میں رہ رہے ہیں۔وہ غیر ملکی الگ ہیں جو شہریت کے حصول کے لیے ترکیہ میں مقیم ہوئے تھے اور یہاں اب ان کی جائیدادیں بھی ہیں ۔سب سے زیادہ تعداد میں عرب ہیں ‘جو شام اور لبنان سمیت مختلف عرب ملکوں سے یہاں آکر آباد ہوئے ہیں ۔ شہریت کھلنے اور سہولتیں ملنے پر پاکستانی بھی اچھی خاصی تعداد میں گئے تھے اور اب بھی ہیں لیکن ترکیہ میں ہوش ربا گرانی نے ان میں بہت سے خاندانوں کے ہوش ٹھکانے لگا دئیے؛ چنانچہ اچھی خاصی تعداد پاکستان ہی کو بہتردیکھ کر واپس آگئی ۔عربوں کے مسائل مختلف ہیں ۔ شام اور لبنان میں خانہ جنگی کے باعث وہاں کے لوگوں کے لیے ترکیہ ہی جائے عافیت معلوم ہوتی ہے ۔فطری طو رپر وہ اے کے پارٹی اور طیب اردوان کو اپنا محسن اور ہم درد سمجھتے ہیں لہٰذا طیب اردوان کے لیے انتخابات میں زور شور سے حمایت مانگتے رہے ہیں اور خود ان کا ووٹ بھی اردوان کو پڑا ہے ۔ لیکن مجھے اس میں شبہ ہے کہ یہ ووٹ اتنی بڑی تعداد میں تھے کہ ترکیہ کے الیکشن کو فیصلہ کن بنا سکتے ۔تمام غیر ملکی ووٹ کے حقدار نہیں ہیں۔ جن غیر ترکوں کے ووٹ ہیں ‘ان کی مجموعی تعداد ڈالے جانے والے تمام ووٹوں کا شاید آدھ فیصد بھی نہ بن سکے ‘اس لیے یہ کوئی فیصلہ کن کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہوں گے۔ایک اہم عنصر یہ رہا ہے کہ بڑے شہروں میں ووٹنگ کے نتائج طیب اردوان کے خلاف ہیں۔ استنبول ‘ انقرہ ‘ ازمیر وغیرہ میں کمال قلیچ کی جیت ہوئی ہے ۔میں ایک سابقہ کالم میں یہ لکھ چکا ہوں کہ ان غیر ملکیوں کی مستقل رہائش اور حقِ شہریت سے ترکیہ کے ماحول میں تبدیلی واقع ہورہے اور ترکیہ میں ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ ان کے معاشرے کی بُنت پر غلط اثرات پڑ رہے ہیں۔ بہرحال یہ ایک الگ موضوع ہے ۔
میں سمجھتا ہوں کہ دو بڑے عوامل نے اردوان کی سبقت میں بہت اہم کردار ادا کیا ‘ ایک تو وہ ترک جو بیرونی ممالک میں مقیم ہیں ‘خواہ ان کی ان ممالک میں مستقل شہریت ہو یا وہ عارضی طور پر مقیم ہوں ‘ان سب کے ووٹ اردوان کے حق میں گئے۔ جرمنی اور فرانس میں مقیم ترکوں نے تو کھل کر اردوان کے حق میں مہم چلائی ۔دوسرے آخری دو ماہ میں اردوان کی بھرپور انتخابی مہم اور عوام کو دی گئیں کئی سہولتیں۔پولنگ سے صر ف پانچ دن پہلے اردوان نے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں 45فیصدبڑھانے کا اعلان کیا۔انہوں نے پبلک ورکر کی کم سے کم تنخواہ 15 ہزارترکی لیرا یعنی کم و بیش 768امریکی ڈالر(پاکستانی دو لاکھ بیس ہزار روپے) مقرر کی جو یقینا مہنگائی کے مارے لوگوں کے لیے بہت خوش کن تھا۔چند ماہ قبل اسی سال جنوری میں یہ حد بڑھا کر 8500ترک لیرا مقرر کی گئی تھی ۔
اب جبکہ پارلیمانی جماعتوں کی نشستیں طے ہوچکی ہیں اور اردوان سیاسی اتحاد اکثریت میں ہے ‘صدارتی انتخاب دوسرے مرحلے میں طے ہوگا۔ طیب اردوان صرف آدھ فیصد ووٹ کم ہونے سے پہلے مرحلے میں منتخب نہیں ہوسکے ۔ یہ دوسرا مرحلہ صرف دو حریفوں یعنی طیب اردوان اور کمال قلیچ دار اوغلو کے درمیان مقابلے کا ہوگا۔پہلے مرحلے کے نتائج کے لحاظ سے تو بظاہر دوسرے مرحلے میں بھی اردوان سبقت لے لیں گے لیکن یہ معاملہ اتنا سیدھا اور آسان نہیں ہے ۔ پہلے مرحلے کے چار صدارتی امیدواروں میں تیسرے نمبر پر ووٹ لینے والے اے ٹی اے الائنس کے امیدوار سنان اوگان نے حیرت انگیز طور پر اس مرحلے میں 5.17فیصدووٹ حاصل کیے ۔ سمجھا جارہا تھا کہ وہ ایک یا دو فیصد سے زیادہ ووٹ نہیں لے پائیں گے۔ اب اس صورتحال میں وہ دوسرے مرحلے میں خود تو امیدوار نہیں ہوسکتے لیکن ان کے حامیوں کے ووٹ بادشاہ بناسکتے ہیں ۔ اسی لیے سنان اوگان کو بادشاہ گر کہا جارہا ہے ۔ان کے ووٹ دونو ں جماعتوں کے لیے انتہائی اہم بن چکے ہیں ۔ سنان اوگان روایتی طو رپر دائیں بازو کے رہنما سمجھے جاتے ہیں اور اردوان سے ان کا فطری اتحاد بنتا ہے لیکن اردوان کے بعض قریبی حلقے سمجھتے ہیں کہ اردوان کو صرف نصف فیصد ووٹوں کی ضرورت ہے ا س لیے انہیں کسی کے مطالبات نہیں ماننے چاہئیں‘ البتہ وہ اوگان کو کوئی پیشکش کرسکتے ہیں۔ سنان اوگان نے پہلے مرحلے کے بعد انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ دونوں بڑے امیدواروں میں سے کسی کی حمایت صرف مشروط طور پر کریں گے اور دہشت گردوں کے ساتھی ہرگز میرے پاس نہ آئیں ۔بظاہر ان کا اشارہ کرد دہشت گردی کی طرف تھا ۔ جہاں تک کمال قلیچ داروغلو کے چھ پارٹیوں کے سیاسی اتحاد کا تعلق ہے ‘ اوگان نے ایک انٹرویو میں واضح کیا کہ وہ کمال قلیچ کی صرف اس صورت میں حمایت کریں گے اگر ان کا اتحاد کرد حامی جماعت ایچ ڈی پی کو کسی قسم کی رعایت نہ دے۔ اوگان ایچ ڈی پی کے سخت مخالفین میں سے ہیں جبکہ اس جماعت نے کمال قلیچ کی حمایت کا اعلان کیا ہوا ہے ۔ایسی صورت میں اگر اردوان نے اوگان سے ہاتھ ملا لیا اور انہیں کوئی اچھی پیشکش کردی تو اردوان کی جیت یقینی ہوجائے گی ۔لیکن اگر کمال قلیچ اور اوگان کے ووٹ مل گئے تو اردوان کی شکست کا بڑا اپ سیٹ بھی ہوسکتا ہے ۔
28مئی کو ترک صدارتی انتخاب میں یہ دو بڑ ے پہلوان مد ِمقابل ہوں گے۔کمال قلیچ اگر کسی طرح جیت جائیں تو یہ طے ہے کہ انہیں ایسی پارلیمنٹ کے ساتھ پانچ سال گزارنے ہوں گے جس میں اکثریت ان کے مخالفین کی ہوگی ۔اگرچہ ترکیہ میں صدر کے پاس کافی اختیارات ہیں لیکن پھر بھی وہ قانون سازی قریب قریب ناممکن ہوگی جس کا وعدہ کرکے کمال قلیچ انتخابات میں اترے ۔خود ان کا اتحاد بھی مختلف الخیال پارٹیوں پر مشتمل ہے ۔ اس لیے کمال قلیچ ایک کمزور صدر ثابت ہوں گے۔یہ ملک کے لیے بھی بظاہر بہتر صورت نہیں ہوگی اور ایک مستحکم ترکیہ کے امکان بہت کم رہ جائیں گے۔ دوسری طرف اگر اردوان صدر بنتے ہیں تو ان کی پارلیمنٹ میں اکثریت انہیں طاقتور صدر بنادے گی ۔وہ مشکل فیصلے کرنے کی پوزیشن میں بھی ہوں گے۔جو حالات نظر آتے ہیں ‘یہی راستہ مستحکم ترکیہ کا ہوسکتا ہے‘اور بظاہر اسی طرح وہ اس معاشی گرداب سے بھی نکل سکے گا جس میں مسلسل پھنسا ہوا ہے ۔
اردوان کے حریف خواہ وہ ترکیہ میں ہوں یا دیگر ممالک میں ‘ترک ہوں یا غیر ترک ‘اردوان کی ایک اور پنج سالہ مدت کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔انہیں یہ بھی خوف ہے کہ اردوان اپنے مخالفین پر اگلی صدارتی مدت میں زیادہ سخت ہاتھ ڈالیں گے ‘ اس لیے وہ ان دو ہفتوں کی مدت میں ہر ممکن کوشش کریں گے کہ اردوان کسی بھی طرح سنان اوگان کے ساتھ نہ مل سکیں ۔اے کے پارٹی اور رجیب طیب اردوان نے ایک بہت مشکل معرکہ لڑا ہے اور سرخرو نکلے ہیں ‘ اب اس مرحلے پر انہیں مطمئن ہوکر نہیں بیٹھنا چاہیے ۔28مئی پولنگ کا دن ہے اور 29مئی تک حتمی نتائج آجائیں گے۔ کیا آپ کو 29مئی کے دن کی اہمیت یاد ہے ؟مجھے یقین ہے کہ طیب اردوان بھی اس دن کی اہمیت پر نظریں جمائے ہوئے ہوں گے ۔ 29مئی 1453ء کو سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کیا تھا۔ کیا اس دن استنبول طیب اردوان کو ایک اور فاتح کے طور پر داخل ہوتے دیکھے گا؟