ہوا کا ایک تیز جھونکا آیا تو پی ٹی آئی کے پیڑ سے بے شمار پتے زمین پرآگرے۔پندرہ‘ بیس دن پہلے کوئی تصور کرسکتا تھا کہ اس درخت کی شاخیں اس طرح ٹنڈ منڈ نظر آنے لگیں گی ؟ ان لوگوں کا تو کوئی ملال نہیں جنہوں نے چار چار‘ پانچ پانچ بار پارٹیاں بدلی ہیں اور اپنے مفاد کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں لیکن وہ لوگ جو کشتیاں جلا کر آئے تھے‘ بیرونی ممالک سے اپنی ہر آسائش‘سہولت اور شہریت چھوڑ کر صرف ملک کی محبت میں آئے تھے‘ان کا دکھ دل کاٹ دیتا ہے۔ ان کی بنیادی محبت پاکستان سے تھی اور وہ باقی سیاستدانوں سے مایوس ہوکر پی ٹی آئی کو ایک امید کی کرن سمجھتے تھے۔یہ خیال کرتے تھے کہ خان صاحب کرپٹ آدمی نہیں اس لیے تن من دھن سے ان کا ساتھ دینا چاہیے۔ لیکن بہت جلد انہیں وہ سراب صاف دکھائی دینے لگا جو دور سے لہریں مارتا دریا نظر آتاتھا۔ چودھری سرور اور ملیکہ بخاری ایسی دو مثالیں ہیں۔ وہ کسی بھی جماعت میں شامل ہوسکتے تھے ان کی حیثیت انہیں بڑے مناصب تک لے جاسکتی تھی لیکن انہوں نے پی ٹی آئی کی رکنیت کو ترجیح دی۔چودھری سرور تو بہت پہلے اور ملیکہ بخاری اب اس نتیجے پر پہنچے کہ پی ٹی آئی کا راستہ ان کا راستہ بن ہی نہیں سکتا۔ افسوس‘ایسے کتنے ہی جذبے والے لوگ تھے جنہیں خان صاحب نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا اور پھر فراموش کردیا۔
میں نے پہلے بھی کئی بار لکھا ہے کہ خان صاحب کی کچھ صفات تو پہلے ہی سے بلکہ کرکٹ کے زمانے سے واضح تھیں۔ گھمنڈی‘انا پرست‘ خود پسند‘کسی کی رائے نہ ماننے والا۔ عمران خان اپنے کسی ہم عمر کو اپنے برابر کا نہیں سمجھتے تھے۔کرکٹ کنٹرول بورڈ اس کرکٹر کو کنٹرول کرنے سے قاصر تھاتاہم خوش بختی اس کے ہم قدم رہی۔مردانہ وجاہت‘غیر معمولی شہرت‘ آکسفورڈ کی اعلیٰ تعلیم‘یوکے کے اعلیٰ گھرانوں سے قریبی تعلقات وہ عوامل تھے جنہوں نے عمران خان کا ستارہ بام عروج پر پہنچایا۔کرکٹرز اگرچہ ان سے شاکی بھی تھے اور یہ الزام بھی بہت پرانا ہے کہ عمران خان نے بہت سے کرکٹرز کا کیرئیر ختم کروادیا لیکن ان سے جونیئر کرکٹرز جو ان کی وجہ سے کرکٹ کی دنیا میں آئے اور دنیا بھر میں معروف ہوئے‘ان کے احسان مند رہے۔ بہرحال اس میں شک نہیں کہ کرکٹ کی دنیا میں ان صفات اور اپنی کارکردگی سے بھی عمران خان نے بڑے کرکٹرز میں اپنا نام لکھوایا۔ چونکہ پاکستان کی نمائندگی کرتے رہے اس لیے پاکستانی عوام اور حکمرانوں کے پسندیدہ رہے۔ ان کے پلے بوائے امیج اور دیگر تنازعات کے باوجود عوام کے دل سے ان کی ہیرو کی حیثیت اور پسندیدگی ختم نہیں ہوئی۔
بات یہاں تک تو سیدھی سی ہے۔ معاملات اس کے بعد الجھتے ہیں جب خان صاحب سیاست میں آئے اور اپنی جماعت بنائی۔ان کے ساتھ جو لوگ شروع ہی سے تھے‘اور تحریک انصاف کی بنیاد کے پتھروں میں شامل تھے‘جلد ہی ان سے مایوس اور الگ ہونا شروع ہو گئے بلکہ ایک دو نے ان کے خلاف مقدمات بھی کیے۔پارٹی چیئرمین تو عمران خان ہی تھے لیکن کہا جاتاہے کہ جنرل(ر) حمید گل مرحوم جو ان کے بڑے حامی تھے‘انہیں پی ٹی آئی کی صدارت دینے کا طے ہوچکا تھا‘لیکن یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہوا اور مبینہ طور پر حمید گل صاحب کی بیرون ملک روانگی کے بعد کسی اور کی صدارت کا اعلان کردیا گیا۔جسٹس(ر) وجیہ الدین بعد کے زمانے میں شامل ہوئے لیکن ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ الگ کہانی ہے۔وہ بھی اس کی ایک بڑی مثال ہیں کہ کوئی دانا‘اصول پسند اور محب وطن شخص شامل ہوا اور دل برداشتہ ہوکر علیحدگی اختیار کی۔
اگرچہ یہ سوال بڑا ہے کہ یہ معاملات سامنے ہوتے ہوئے بھی بے شمار لوگ کیوں عمران خان کی حمایت کرتے رہے ؟لیکن اس کا جواب ذرا بھی مشکل نہیں۔ اس کا جواب آصف علی زرداری اور نواز شریف ہیں جنہوں نے اپنی کرپشن‘ لوٹ مار‘منافقت‘ ذاتی مفاد کو ملکی مفاد پر ترجیح دینے کے مسلسل عمل نے لوگوں کو عمران خان کی طرف دھکیل دیا۔جو لوگ مسلم لیگ‘پیپلز پارٹی اور ان کے خود غرض حلیفوں کے تین تین ادوار دیکھ چکے‘ بلکہ بھگت چکے تھے‘ان کے پاس کیا کوئی اور راستہ تھا؟ایسے بہت سے لوگ تھے‘جو عمران خان کو نجات دہندہ سمجھتے تھے اور بہت سے اب بھی سمجھتے ہوں گے‘ لیکن مجھ سمیت بہت سے لوگ انہیں کم تر برائی سمجھ کر قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔اور کم تر برائی کا یہ تاثربھی 2014 ء کے دھرنے کے زمانے سے بگڑنا شروع ہوا۔
اس سے کئی سال پہلے مقتدر قوتیں عمران خان کی حمایت میں آچکی تھیں۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ 2014ء کا دھرنا اور عمران‘ طاہر القادری اتحاد انہی پس پردہ قوتوں کے ایما پر تھا۔اس وقت نواز شریف حکومت بری طرح ڈگمگا گئی تھی اور ہر دن ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کے الفاظ میں امپائر انگلی کھڑی کردے گا۔کوئی شک نہیں کہ عمران خان امپائر کو ساتھ ملا کر کھیل رہے تھے۔ اس کھیل کا پردہ سب سے پہلے جاوید ہاشمی صاحب نے چاک کیا۔ جناب مجیب شامی کا جاوید ہاشمی کی پریس کانفرنس کے بعد یہ تبصرہ بالکل بجا تھا۔
وہ جو تعمیر ہونے والی تھی
لگ گئی آگ اس عمارت میں
ایک بڑا بلکہ بہت بڑا سوال یہ ہے کہ مقتدر طاقتوں نے کیوں اور کیا سمجھ کر عمران خان کو اقتدار میں لانے کی کوششیں شروع کیں؟ کیا وہ حقائق‘خان صاحب کا ماضی اور مزاج جو عام آدمی کے سامنے تھے‘ان سے اوجھل رہے ہوں گے؟یہ تو اظہر من الشمس تھا کہ خان صاحب کنٹرول ہونے والے آدمی نہیں ہیں۔کیا انہیں علم نہیں تھا کہ خود سری سے خود پسندی تک عمران خان کا ہر دائرہ میں اور صرف میں کے گرد گھومتا ہے۔جب انہوں نے پراجیکٹ عمران شروع کیا تو ان کے پاس رپورٹس تو ہوں گی۔عمران خان کے سیاسی سفر کی ساری منزلیں تو سامنے ہوں گی۔تو کس بنیاد پر انہوں نے انہیں اقتدار کے قابل سمجھا اور ان کے لیے پوری کوششیں کیں؟ اس سوال کا جواب اہم ہے اوراس فیصلے کے دیگر عوامل بھی یقینا رہے ہوں گے لیکن میرے خیا ل میں بنیادی سبب وہی ہے جو ایک عام پاکستانی کی عمران خان کی حمایت کا سبب ہے‘ اور وہ یہ کہ دو بڑی سیاسی پارٹیوں سے مایوس ہوکر کسی تیسرے کی تلاش اور عمران خان کو کم تر برائی سمجھنا۔ ذہن میں اگر درج ذیل دو باتیں ہوں تو اس فیصلے کو سمجھنا آسان ہوگا۔ پہلی بات یہ کہ فوج اور اس کے گھرانے اسی معاشرے سے ہیں اور معاشرے میں کسی کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کے اثرات ان تک بھی لازما پہنچتے ہیں۔ دوسری بات یہ کہ مسلح افواج کے حاضر اور سابق عہدیداروں اور ان کے گھرانوں کے لیے بھی پا کستان کا مستقبل‘ دیگر عام گھرانوں کی طرح اہم ہے۔اگرملکی حالات دگرگوں ہوتے ہیں تویہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔ملک خدا نخواستہ خطرے میں پڑتا ہے تو فوج بھی خطرے میں پڑتی ہے۔اس لیے یہ سوچنا بھی غلط ہوگا کہ ایک عام آدمی تو ملک کے لیے فکر مند ہولیکن اسی معاشرے کا ایک اہم حصہ یعنی سپاہی ملک کے لیے فکر مند نہ ہو۔کیوں نہیں ہوگا‘وہ تو بڑا سٹیک ہولڈر ہے۔ معاشرے کے بہت سے طبقات جن میں عسکری گھرانے بھی شامل ہیں‘عمران خان کو موقع دینے کے حق میں تھے اورنواز شریف اور زرداری سے بیزار تھے‘ یہی بیزاری عوامی طبقات کی طرح عسکری طبقے کو بھی اس فیصلے کی طرف لے گئی کہ انہیں موقع ضرور ملنا چاہیے اور اس کے لیے اپنی سی کوشش کی جانی چاہیے۔(جاری)