کیا وجہ ہے کہ پانی کے قریب رہنا انسانی جبلت کی بڑی خوشیوں میں شامل ہے؟ کسی جھیل کا پُرسکون کنارا‘ کسی دریا کی لہریلی آغوش‘ کسی سمندر کا زمردی پہلو‘ کسی ندی کی جل ترنگ قربت‘ کسی چشمے کا گنگناتا جلو۔ انسان یہیں کیوں زیادہ خوش رہتا ہے؟ معاملہ صرف پانی کا زندگی کیلئے لازمی ہونا ہی نہیں‘ یہ تو ان خوشیوں میں سے ہے جو ازل سے آج تک انسانی خمیر میں رچی بسی ہیں اور ہاں! خواجہ خضر بھی تو دریا کنارے ہی ملا کرتے ہیں۔ سو آبِ حیات کا کچھ تعلق تو ہمارے زمینی پانی سے بھی ہے۔ اولڈ پورٹ مونٹریال نے تادیر ہمیں اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ جب شفق کی لالیاں پانی کی لہروں پر لمبی ہوگئیں اور دریا کے سنہرے پھول ارغوانی میں تبدیل ہونے لگے‘ ہمارا گرد و پیش اپنے لباس تبدیل کرنے لگا تو ہمیں وہاں سے پلٹنا ہی تھا۔ ہائے! فراق گورکھپوری نے کہا تھا ؎
پلٹ رہے ہیں غریب الوطن پلٹنا تھا
وہ کوچہ روکش جنت ہو گھر ہے گھر پھر بھی
اور اسی غزل کا کیا کمال مطلع ہے ؎
کسی کا یوں تو ہوا کون عمر بھر پھر بھی
یہ حسن و عشق تو دھوکا ہے سب مگر پھر بھی
اگلی صبح ناشتے کے بعد نوٹرے ڈیم اندر سے دیکھنا طے تھا اور پھر شام کو اوٹوا روانگی تھی۔ سیف بھائی کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی‘ اس لیے میں انہیں آرام کرتا چھوڑ کر نکلا اور نوٹرے ڈیم کا رخ کیا۔ سامنے بڑے احاطے سے گزرا جس کا نام معلوماتی کتابچے میں Place d'Armes square لکھا تھا۔ وقت کم تھا اس لیے پتھر کی اس عمارت میں سیڑھیاں چڑھ کر سیدھا ٹکٹ والی لائن میں پہنچا۔ نوٹرے ڈیم کے معنی ہیں ہماری پیاری خاتون (یعنی مریم مقدس)۔ اندازہ تھا کہ اس عمارت کو سالانہ دس لاکھ لوگ دیکھنے آتے ہیں‘ اس لیے انتظار کرنا پڑے گا۔ لمبی قطار تھی جو آہستہ آہستہ سرک رہی تھی۔ یہ جان کر دل بیٹھ سا گیا کہ یہاں بھی نقد نہیں‘ صرف کارڈ کے ذریعے ادائیگی ہو سکتی ہے۔ میں نے سوچا کہ ٹرین میں کارڈ نے ادائیگی سے انکار کر دیا تھا‘ اگر یہاں بھی یہی معاملہ ہوا تو نوٹرے ڈیم کے اندرونی مناظر مجھ پر کیسے کھلیں گے؟ میں نے اپنے پیچھے کھڑی پیاری سی خاتون کو مسکرا کر دیکھا اور آداب کہا۔ ممکن نہیں تھا کہ جوابی مسکراہٹ اور مزاج پرسی سے نہ نوازا جائے۔ میں نے اسے اپنی مشکل بتائی اور درخواست کی کہ اگر میرا کارڈ سوائپ نہ ہو سکا تو کیا آپ اپنے کارڈ سے میری ادائیگی بھی کر دیں گی؟ میں یہ رقم آپ کو نقد دے دوں گا۔ پیاری شکلیں عام طور پر مہربان دل بھی رکھتی ہیں سو وہ راضی ہوگئی لیکن خوش قسمتی یہ کہ میرے کارڈ کا موڈ اس دن اچھا تھا‘ اس لیے اس نے ادائیگی کردی۔ بدقسمتی یہ کہ خوش جمال سے مزید گفتگو کا ایک موقع ضائع ہو گیا۔ اندر داخل ہوا تو خود کو ایک بہت بڑے مستطیل‘ نیم تاریک‘ نیم روشن ہال میں پایا جہاں میرے بائیں ہاتھ ایک جمگھٹے کی شکل میں بہت بڑی مومی شمعیں اور مومی چراغ روشن تھے۔ سامنے کی طرف نظر اٹھی تو جمی کی جمی رہ گئی۔ اُف! کیسا مبہوت کن منظر تھا۔ میں ایک کلیسا میں راہداری کے بیچ میں کھڑا تھا۔ راہداری کا فرش گہرا نیلا تھا جس پر سفید ڈیزائن بنے ہوئے تھے۔ دائیں بائیں لکڑی کے بنچوں کی طویل قطاریں تھیں۔ ایک ایک بنچ پرکم و بیش دس افراد کی جگہ تھی۔ دراصل یہ دس ہزار لوگوں کے لیے بنایا گیا تھا۔ کھلے ہال میں ہر طرف تصاویر اور مجسمے تھے۔ سامنے کافی دور جس طرف بنچوں کا رخ تھا‘ قوس کی طرح نیم گولائی میں چند سیڑھیاں بلند ایک سٹیج تھا۔ یہ چبوترا ایک جاگتا ہوا خواب تھا۔ صرف جاگتا ہوا نہیں‘ اپنی طرف بلاتا ہوا بھی۔ ایک طلسم کی طرح کھینچتا ہوا جس کی کشش اپنی طرف کششِ ثقل سے بھی بڑھ کر کھینچتی بھی ہو اور آپ کے پاؤں زمین نے جکڑے ہوئے بھی ہوں۔ وہاں تک جانے کے لیے کئی راہداریاں تھیں۔ دائیں بائیں مومی شمعوں کی روشنیوں کے سوا راہداریوں میں اندھیرا تھا۔ دائیں بائیں اور پیچھے نیم تاریکی میں نظر ایک دم اس رنگ برنگ طلسم کدے پر مرتکز ہو جاتی تھی جس کا نام سٹیج تھا اور یہی معمار کا مقصد بھی تھا۔ یہ مرکز چیدہ رنگوں اور منتخب روشنیوں سے آراستہ تھا۔ نہ ہر رنگ یہاں شامل ہو سکتا تھا نہ ہر روشنی یہاں داخل ہو سکتی تھی۔ بس خنک رنگوں اور میٹھی روشنیوں کو ستاروں کی طرح جھرمٹ بنا لینے کی اجازت تھی۔ شکوہ‘ تقدیس‘ سکون اور سکوت اس ہال کے ستونوں کی طرح لگتے تھے جنہوں نے اسے اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ مخروطی‘ چوکور‘ مستطیل رنگین شیشوں سے دھوپ چھن کر اس رنگ کا لباس پہنے داخل ہوتی تھی جو معمار نے چاہا تھا۔ دیواروں سے اٹھتی‘ چھت تک پہنچتی محرابی کمانیں (vaults) گہری نیلی تھیں جن پر سنہرے ستارے جگمگاتے تھے۔ جادوئی ماحول میں گہرا نیلا رنگ غالب تھا جس میں آسمانی‘ فیروزی‘ زرد‘ سفید اور سنہرے رنگوں کے مناسب امتزاج نے اسے جمالیاتی مرقع بنا دیا تھا۔ میں نے اتنا حسین کلیسا کبھی پہلے نہیں دیکھا تھا۔ اور میں ہی کیا‘ ایک دنیا اس کے حسن کا اعتراف کرتی ہے۔ اسے دنیا کا چھٹا حسین ترین گرجا قرار دیا گیا ہے۔ پہلے نمبر پر نوٹرے ڈیم پیرس ہے۔
رومن کیتھولک فرقے کا گوتھک طرز تعمیر کا یہ شاہکار 1824-1829ء کے دوران تعمیر ہوا لیکن اس کی تراش خراش برسوں بعد تک چلتی رہی۔ کون سوچتا ہے کہ جس عمارت کو ایک دو گھنٹے میں دیکھ کر باہر نکل آتے ہیں‘ اس پر بنانے والوں کی کتنے سال صرف ہوئے ہوں گے۔ میں باہر نکلا تو بڑے ٹاور کی گھنٹیاں بج رہی تھیں۔ ان گھنٹیوں کا وزن 11ٹن ہے‘ میں نے داخلی چبوترے پر کھڑے یہ گھنٹیاں سنیں اور احمد فراز کا شعر یاد کیا ؎
ذکر اُس غیرتِ مریم کا جب آتا ہے فرازؔ
گھنٹیاں بجتی ہیں لفظوں کے کلیساؤں میں
میں نے گھڑی دیکھی۔ واپسی میں کچھ وقت باقی تھا۔ میں ایک طرف بے سمت نکل گیا۔ جلد ہی میں ایک انجانی سڑک پر تھا جس کے دائیں طرف کھلا منظر‘ ساحلی سڑک اور دریا تھا اور بائیں طرف فٹ پاتھ کے ساتھ ساتھ طعام خانے‘ قہوہ خانے‘ شراب خانے اور خدا معلوم کون کون سے خانے تھے۔ تمام نام فرانسیسی میں تھے‘ شاید ہی کوئی نام انگریزی میں نظر آیا ہو۔ خوش باش لوگ‘ بے فکر جوڑے‘ نو جوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کی کمروں یا ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے پھرتے تھے۔ مجھ لاہوری کے لیے تو موسم خوشگوار تھا لیکن یہ وہ دن تھے جب کینیڈا کے اکثر شہروں میں ہیٹ وارننگ جاری تھی یعنی معمول سے زیادہ گرمی۔ کتنی بڑی بات ہے کہ مغربی اقوام کی بستیوں میں آپ زرد ہوں‘ گندمی ہوں‘ سیاہ ہوں یا سفید‘ خود کو اجنبی محسوس نہیں کرتے۔ لوگ عام طور پر خوش مزاج اوردوست ہیں۔ کسی بھی جگہ ٹھہر کر کسی سے بھی تصویر کھینچنے کی فرمائش کردیں تو وہ ایک نہیں کئی زاویوں سے‘ کئی تصویریں کھینچ کر آپ کے لمحات محفوظ کردے گا۔ میں نے چلتے چلتے ایک جگہ رک کر بائیں طرف چند سیڑھیاں بلند ایک قدیم سے ریستوران کی تصویر کھینچی تو ایک نعرۂ مستانہ سنائی دیا۔ سامنے ہی بار ٹینڈر نے مجھے تصویر کھینچتے دیکھ کر نہ صرف خوش آمدید کہا تھا بلکہ بازو لہرا کر تصویر میں بھی آگیا تھا۔ میں ہوٹل سے کافی دور آگیا تھا لیکن یہ اطمینان تھا کہ گوگل نقشے کی بی بی مجھے واپس پہنچا دے گی۔ میں گھومتا رہا۔ ایک گلی سے دوسری اور دوسری سے تیسری۔ جہاں پرانی اینٹیں‘ چوبی تعمیریں‘ سال خوردہ دیواریں اور قدیم مہک سے بھرے ہوئے مکان نظر آتے‘ ادھر ہو لیتا۔ ایسی ہی کسی خشتی سڑک والی گلی میں‘ جہاں دائیں بائیں کی دونوں دیواریں آپ پر جھکتی محسوس ہوتی تھیں‘ ایک چھوٹی سی کافی شاپ نظر آئی۔ پرانی خوشبو اور کافی کی تازہ مہک مل جائیں تو وہ دھڑکتا وقت بن جاتا تھا جو میں نے کچھ دیر اسی گلی میں گزارا۔ ہر ایسی جگہ ایک اداسی ہوتی ہے جس میں یہ خیال بھی شامل ہوتا ہے کہ یہ وقت‘ یہ جگہ‘ یہ فرصت‘ یہ منظر دوبارہ ملنے والے نہیں۔ میاں سعود عثمانی! دوبارہ کب اور کون ملتا ہے؟