جو واقعات زندگی میں ناقابلِ فراموش ہوتے ہیں ان میں پہلا تفریحی سفر‘ پہلی محبت اور پہلی برف باری بھی شامل ہیں۔ انہیں کون بھول سکتا ہے۔ خواہ ان کے بعد آپ ایسی کتنی ہی منزلوں سے گزریں‘ آسائشوں اور سہولتوں میں کتنا ہی اضافہ ہوتا چلا جائے۔ ان کم عمر تجربوں کے کھٹے مٹھے فالسے جیسے ذائقے اور رس ٹپکاتی امرتی جیسی مٹھاس کبھی نہیں ملتی۔ حیرت‘ تجسس‘ اجنبی کھانے‘ اَن دیکھے منظر مل جل کر ایک دوسرے میں گندھ جائیں تو پہلا سفر بن جاتا ہے۔ ہر بات میں کوئی نہ کوئی خوشی کا پہلو ڈھونڈ لینا حتیٰ کہ تکلیف دہ واقعات میں بھی‘ اس عمر کا بھی خاصہ ہے اور اس خوشی کا بھی جو ہمارے دل سے پھوٹتی تھی۔
کوئی ایسی ویسی خوشی۔ خوشی ہمارے سامان میں بھری ہوئی تھی۔ ہماری آنکھوں میں‘ ہمارے دلوں میں‘ ہمارے ٹفن میں اور ہماری جیبوں میں۔ وہ جیبیں جن میں پیسے بہت کم تھے لیکن خوشیوں کی اشرفیاں‘ دینار اور درہم آپس میں مل کر بجتے اور مسلسل کھنکھناتے تھے۔ ہم سوات جارہے تھے۔ اس سفر کے بعد بھی آج تک اللہ کا شکر ہے‘ بہت بار سوات جانا ہوا لیکن اس وقت کا سوات اور وہ سفر‘ کیا بتایا جائے۔ وہ سوات جس کے اس وقت صرف قصے ہی سنے تھے۔ اب اس بات کو چار دہائیوں سے بھی زیادہ ہو چکے لیکن اسے دہراتے ایسا لگ رہا ہے کہ ہم آج ہی صبح جلدی جلدی اٹھے تھے۔ اشتیاق میں ناشتہ بھی ٹھیک سے نہ کیا تھا۔ ٹین کے بکسے بار بار کھول کر بند کیے تھے۔ ضرورت سے زائد گرم کپڑے کبھی رکھے تھے‘ کبھی نکالے تھے اور بالآخر پھر ٹھونس دیے تھے۔ بستر بند تو خیر سفر کی لازمی ضرورت تھا۔ ان سب کے بعد بھی لگتا تھا کہ کچھ بھول رہے ہیں اور یہ تو آج بھی ہر سفر کے وقت میری کیفیت ہوتی ہے۔ کچھ بھول جانے کا اضطراب۔
اہم بات یہ کہ سفر کے ساتھی کون تھے۔ تمام چھوٹے بڑے دوست۔ ان میں اپنے ہم عمر تو تھے ہی لیکن اندازہ کیجئے کہ ہم کم عمروں کو سفر پر لے کر کون جارہا تھا بلکہ کس کی تحریک اور اصرار پر یہ سفر طے ہوا تھا۔ میرے محبوب چچا جان‘ نامور عالم جناب مفتی محمد رفیع عثمانی۔ مفتی ٔ اعظم پاکستان۔ اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ ان کی محبتیں اور شفقتیں ناقابلِ فراموش ہیں۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ان کا رعب‘ ان کی سرپرستی اپنی جگہ لیکن وہ ہم سب کے بے تکلف دوست تھے۔ ایسے دوست جو سفر میں ہم عمروں سے بڑھ کر ہوں۔ وہ عام زندگی میں بھی اسی طرح تھے۔ یہ سفر خاص اس لیے تھا کہ ان کا گھرانہ چچی جان اور بہت چھوٹے بچوں پر مشتمل تھا۔ اس گھرانے کے ساتھ ہم بھتیجے بھانجے وغیرہ بھی شامل ہو گئے۔ گویا گیارہ افراد کے اس قافلے میں بڑا مرد ایک ہی تھا اور وہ چچا رفیع تھے۔ چچا کی صحت ان دنوں بہت اچھی تھی اور اگرچہ ان کی کمر کے مہروں کی تکلیف ان دنوں شروع ہو چکی تھی لیکن وہ تفریح کرنے اور ہمیں تفریح کروانے کے ہر معاملے میں پیش پیش رہتے تھے۔ اب سوچتا ہوں تو حیرانی ہوتی ہے کہ چھوٹے بچوں‘ خواتین اور ہماری ذمے داری بھی انہی کو اٹھانی تھی اور وہ ہنسی خوشی باصرار یہ بوجھ اٹھائے ہوئے تھے۔
اس زمانے میں اپنی گاڑی میں بیرونِ شہر سفر کا تصور ہی کیا تھا۔ اول تو ہم میں سے کسی کے پاس گاڑی تھی ہی نہیں۔ ہوتی بھی تو ایک گاڑی میں سب افراد آہی نہیں سکتے تھے۔ چنانچہ سخت گرمی میں لاہور سے پشاور ریل کے سفر سے ہماری سنسنی کا آغاز ہوا۔ اس سے پہلے پنڈی تک تو ہم اپنے والد کے ساتھ بھی گئے تھے لیکن آگے کا سفر اَن دیکھا تھا۔ ریل کے سفر کا پہلے سے انتظار لگتا تھا اور بہت بعد تک اس کے قصے دہراتے تھے۔ ہر سٹیشن کا نام‘ ان کے پلیٹ فارمز پر اتر کر اجنبی زمین کا لمس محسوس کرنا۔ نلکے سے جگ اور صراحی بھرنا۔ صراحی کو ٹرین کے فرش پر لڑھکنے سے بچانے کی پوری کوشش کرنا اور بالآخر بہتے پانی سے اپنے سامان کو بچانے کی ناکام جدوجہد کرنا۔ کھانے کی چیزوں کی قیمتیں پوچھنا اور جیبیں ٹٹولنا۔ یہ سب ریل کے سفر کا حصہ تھے۔ جو اس سے گزرے ہیں وہ ان باتوں کا ذائقہ جانتے ہیں۔
مئی کی سخت گرمی تھی جب ہم پشاور ریلوے اسٹیشن پر اترے۔ ہم بچوں نے پشاور اور چپلی کباب کا صرف نام سنا ہوا تھا اور ہاں مسجد مہابت خان کا بھی۔ پشاور جھلس رہا تھالیکن ہمیں گرمی محسوس کہاں ہوتی تھی۔ اندر کسی یخ بستہ موسم کا بلور ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ہر طرف بکھیرتا ہمیں شاداب اور ترو تازہ رکھتا تھا۔ ہم پشاور صدر کے علاقے میں ایک جاننے والے کے ہاں اترے اور بعد میں مسجد مہابت خان کے خطیب جناب یوسف قریشی صاحب کے گھر منتقل ہو گئے۔ دونوں جگہوں کے واقعات اب بھی قہقہے بکھیرتے ہیں بلکہ چچا جان بعد کے زمانوں میں ہم سے اصرار کرکے سنتے تھے اور بھر پور قہقہے لگاتے تھے۔ اگلے دن یا شاید دوسرے دن ہمیں بس کے ذریعے منگورہ جانا تھا۔ اس زمانے کا پشاور آج کے شہر سے کم ہی مماثلت رکھتا ہے خاص طور پر گنجان شہر۔ ہم دو تانگوں میں بس سٹینڈ پہنچے۔ منگورہ کے لیے ہر وقت بسیں نہیں چلتی تھیں۔ شاید دن میں دو یا تین بسیں تھیں اور بسیں بھی کیسی؟ ائیر کنڈیشنڈ کا کیا سوال؟ نہایت تنگ نشستوں والی‘ بھرپورگھٹن والی‘ آہنی سلاخوں کی چھوٹی کھڑکیوں والی۔ یعنی کامل ایذا رساں بسیں۔
جب چلنے میں چند منٹ رہ گئے تو انکشاف ہوا کہ ایک بڑا ٹین کا بکس تو وہیں رہ گیا جہاں ٹھہرے ہوئے تھے۔ اس میں ضروری کپڑے اور کافی اہم چیزیں تھیں۔ اس لیے سفر میں اس کی لازمی ضرورت تھی۔ اب کیا کیا جائے؟ یہ بہت بڑا سوال تھا۔ اور عورتوں بچوں کے ساتھ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ لیکن میں نے اور چچا زاد بھائی خلیل نے طے کیا کہ ہم اترتے ہیں۔ باقی قافلے کو جانے دیا جائے ہم بعد کی کسی بس میں وہ بکس لے کر آئیں گے۔ چچا جان سخت اضطراب میں تھے۔ ہم کم عمر بھتیجوں کو‘ جن کے لیے پشاور بالکل اجنبی شہر تھا‘ وہاں اکیلے چھوڑ دینا بھی ان کے لیے نہایت پریشانی کی بات تھی اور وہ دل سے اس پر راضی نہیں تھے۔ لیکن ہم دونوں اصرار کرکے بس سے اتر پڑے۔ ہمارے ہم عمر پھوپھی زاد بھائی ہاشم چچا کے ساتھ تھے یا برادرم زبیر عثمانی جو اس وقت بہت چھوٹے تھے۔ قافلے کی بس ہمارے سامنے روانہ ہوئی۔ ہم اپنے ٹھکانے پر پہنچے اور وہ ناہنجار بکس لے کر دوبارہ بس سٹینڈ پہنچے لیکن اب منگورہ کے لیے کوئی بس دستیاب نہیں تھی۔ بس کمپنیاں تھیں ہی کتنی؟ اب کیا کیا جائے؟ اور کیسے منگورہ پہنچیں؟ کسی نے بتایا کہ ایک بس شاید آتو جائے لیکن وہ کافی جگہوں سے ہو کر منگورہ پہنچے گی اور اس کا آنا بھی یقینی نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اسی انتظار میں سورج غروب ہوگیا۔ کوئی فون کوئی رابطہ ہمارے پاس نہیں تھا کہ باقی قافلے کو صورت حال بتا سکیں۔ خدا خدا کرکے وہ بس نخریلی محبوبہ کی طرح نمودار ہوئی۔ کھچا کھچ بھری بس میں کچھ دیر کھڑے رہنا پڑا۔ بالآخر دو سیٹیں ہمارے حصے میں آ ہی گئیں۔ اس بس کے وہی حالات تھے جو پسنجر ٹرین کے ہوتے ہیں یعنی بقول ہماری پھوپھی کے‘ جہاں چبوترا دیکھا‘ وہیں کھڑی ہو گئی۔ ضمیر جعفری نے جو مصرع لکھا ہے نا ٹھمک چال بس میں سفر ہورہا ہے۔ بس وہ اسی بس کے لیے لکھا گیا ہوگا۔ کون سا گاؤں یا قصبہ ہوگا جہاں سے گھومتی گھامتی یہ نہ گزری ہو۔ دو کم عمر بچے‘ رات‘ اجنبی علاقوں‘ اجنبی چہروں‘ اجنبی زبان کے ساتھ سفر کرتے یہ بھی نہیں جان سکتے تھے کہ منگورہ آخر ہے کتنی دور۔ کسی کو یہ بتانا بھی درست نہیں لگتا تھا کہ ہم اکیلے ہیں۔ مردان‘ تخت بھائی‘ درگئی‘ مالا کنڈ۔ آتے گئے اور اندھیرے میں چھپتے گئے۔ ہم کبھی اونگھتے‘ کبھی باتیں کرتے اس سفر پر تھے جس کی حد ہمیں پتہ ہی نہیں تھی۔ البتہ سب سے زیادہ جس بات کا احساس تھا وہ یہ تھی کہ باقی قافلے والے خاص طور پر چچا جان شدید پریشان اور شدت سے منتظر ہوں گے۔ ہم کیسے ان سے رابطہ کریں اور بتائیں کہ ہم پہنچنے والے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چچا جان کی یہ پریشانی اور انتظار ہمارے اندازے سے بھی زیادہ تھے۔ (جاری)