پہاڑوں میں رات جلدی اور گہری اترتی ہے ۔زیاد ہ مہیب بھی لگتی ہے۔ یاد نہیں کتنے بجے بس منگورہ میں داخل ہوئی تھی‘ اتنا یاد ہے کہ رات کافی ہو چکی تھی ۔منگورہ پہنچنے کی سب سے بڑی خوشی اس وقت یہ تھی کہ اپنے باقی ساتھیوں سے جا ملیں گے۔ بس اڈے میں بس داخل ہوئی تو ہم نے کھڑکیوں سے جو پہلا منظر دیکھا وہ یہ تھا کہ چچا رفیع بے تابی سے بس کی طرف دیکھ رہے اور ہمارا انتظار کر رہے ہیں۔ہم نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر انہیں آوازیں دیں۔ان کا ایک دم خوشی سے جگمگا اٹھنا مجھے اب تک یاد ہے۔ اس کیساتھ ہی انہوں نے مسرت بھری بلند آواز میں کہا:آگئے‘ آگئے۔ الحمد للہ آگئے ۔ باقی ساتھی ‘ جن میں خواتین بھی تھیں‘بس سٹینڈ کے ایک چھوٹے سے کمرے میں سمٹ سکڑ کر انتظار میں بیٹھے تھے۔معلوم ہوا کہ چچا نے کسی بھی ہوٹل میں جانے سے انکار کردیا تھا ‘اس لیے کہ بچے آئیں گے تو ہمیں نہ دیکھ کربہت پریشان ہوں گے۔اور یقینا ایسا ہوتا بھی۔سب نے مل کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ ہم سب دوبارہ مل گئے تھے۔ہم نے منگورہ بازار میں ایک سرائے نما ہوٹل میں باقی رات گزاری‘ جس کا نام شاید رینبو ہوٹل تھا۔ اور اس نام کی لاج رکھنے کے لیے اس نے رنگ برنگے قمقمے سجا رکھے تھے۔
منگورہ ‘ سوات کا بڑا اور مرکزی شہر ہے۔ اب تو یہ کافی پھیل گیا ہے اور دریا کے سامنے فضا گھٹ کا پُر فضا مقام بھی اب کم و بیش منگورہ کا حصہ سمجھا جاتا ہے لیکن اس وقت منگورہ بہت سادہ ‘ بہت چھوٹا ‘کم آبادشہر تھا۔کاروباری ذہن اور سیاحتی خرابیوں سے کافی دور۔آج کل کی سہولتوں سے موازنہ کریں تو وہ ہوٹل بھی بس برائے نام ہوٹل تھا۔آپ مئی جون کے منگورہ کا تصور کیجیے ۔ دن خاصا گرم ہوتا ہے ۔دریا اور کھلی فضا کی وجہ سے رات قدرے خنک ہوجاتی ہے لیکن کمرے پھر بھی گرم ۔لیکن ہماری خوشی کے لیے یہی کافی تھا کہ ہم سوات میں ہیں اور ایک ہوٹل میں ٹھہرے ہیں۔ہوٹل میں ٹھہرنا ہی ہم بچوں کے لیے بہت بڑی عیاشی تھی ۔ایک اور با ت یہ کہ ہم سب لاہور اور کراچی کے لوگ تھے۔ یوں کہہ لیجیے کہ شہری پینڈو۔سوات کا نام آتے ہی ہمارا تصور یہ تھا کہ داخل ہوتے ہی جیکٹ ورنہ کم از کم سویٹر تو پہننا ہی پڑے گا۔اور منہ سے بھاپ اڑاتے پھریں گے۔سچ یہ ہے کہ پہلے پہل شمالی علاقوں میں جانے والوں کا تصور اور خواہش آج بھی یہی ہوتی ہے۔ پہلا دن اور پہلی رات‘ تصور اور خواہش کے غباروں میں ایک دم سوئی چبھوتے ہیں تو خاصی تکلیف ہوتی ہے۔لیکن ہم خوش تھے‘اور اگلے تصور‘ اگلی خواہش اور اگلے سفر کے لیے تازہ دم بھی ۔
اگلے دن نے ہمارے خوبصورت سفر کا آغاز کردیا ۔ ایک کھلے پک اَپ میں ہم سب بیٹھے والی ٔ سوات کے محل اور سیدو شریف جارہے تھے۔منگورہ سے نکل کردور کے سرمئی سبز پہاڑوں اور دریا ئے سوا ت پر نظر پڑی تو خوشی سے چیخیں سی نکل گئیں۔ سیدو شریف کا راستہ لہراتا‘ بل کھاتا‘ ہرا بھرا اور حسین تھا۔ پہلی بار سڑک کنارے راستے کے دونوں طرف خوبانی ‘ سیب‘ آلو بخارے سے لدے درخت دیکھے تو آنکھوں پر یقین نہ آیا ۔کوئی روکنے والا نہیں تھا ‘نہ کوئی منع کرنے والا۔یہ ذاتی نہیں‘ ریاست کے پھل تھے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی عام اجازت تھی۔ ہم نے جی بھر کر پھل توڑے‘ کھائے اور جیبوں میں بھرے ۔والی ٔسوات کے سفید محل میں جانے کی عام اجازت تھی ۔کسی کاروباری ذہن نے اسے ٹھیکے پر نہیں دیا لیا تھا۔یاد پڑتا ہے کہ ہمارے علاوہ کوئی سیاح نہیں تھا۔سفید محل کے قریب ہی سرسبز نشیب میں ایک جھرنا اور چھوٹی سی ندی بہتی تھی۔ان کے خنک پانیوں میں پاؤں ڈالے تو ٹھنڈک روح تک اترنے لگی ۔
اگلے دن جب ہم صبح بحرین جارہے تھے اور چچا جان سوات کے اپنے سابقہ سفر کے قصے سنا رہے تھے ‘تو ہمارے لیے ہر چیز ایک نئی دنیا تھی۔ چھوٹی سی ‘نشیب و فراز سے گزرتی ‘ لہریں لیتی پختہ سڑک ‘دونوں طرف سیب ‘ خوبانی ‘بادام ‘ اخروٹ اور آلو بخارے کے باغ ‘دریا کیساتھ ساتھ سفر جہاں ہر موڑ پر پانی کا رنگ دھوپ میں کبھی سرمئی ‘ کبھی سبز‘ کبھی زمردی ‘ کبھی نیلا ہوجاتا تھا۔چھوٹے چھوٹے پُل جن کے نیچے سے کسی نالے ‘ چشمے ‘ پہاڑی ندی کا پانی گزر کر دریا میں مل جاتا تھا۔ راستے میں چائے یا کھانے کے ہوٹل نہ ہونے کے برابر تھے ۔مدین نہایت خوبصورت مقام تھا لیکن ہمیں بحرین پہنچنے کی جلدی تھی جہاں ہم دو دریاؤں کو مل کر ایک ہوتے دیکھنا چاہتے تھے۔دریا کنارے ہوا میں خنکی تھی ۔جھلستے موسم سے اس خنکی کی تلاش میں پہنچے سیاحوں کے لیے کیا خوشی کا موسم تھا کہ ان کے رخسار ٹھنڈی‘تازہ ‘ شاداب ہوا سہلاتی تھی ۔
پک اَپ بحرین میں داخل ہوا اور اس جگہ ٹھہر گیا جہاں ایک شور مچاتا‘ جھاگ اڑاتا‘پہاڑ سے اترتا‘ سفید پہاڑی نالاایک تنگ جگہ پر دو بڑی بڑی چٹانوں کے نیچے سے گزر کر در دراز سفر سے آتے فیروزہ فام دریائے سوات سے ملتا تھا۔ ان چٹانوں کے اوپر نالے کا پُل تھا۔ہوٹل چند ایک تھے اور ان میں سے ایک ہوٹل ‘یعنی آبشار ہوٹل ‘سڑک کنارے اس پہاڑی نالے کے پہلو میں بنا ہوا تھا۔اس کی اوپر ی منزل کے کمرے منتخب کیے گئے کہ وہاں سے منظر زیادہ خوش نما تھا۔بحرین منگورہ سے 60کلو میٹر شمال میں 4700 فٹ بلند پہاڑی قصبہ ہے ۔اگرچہ آج کا بحرین سڑک کے دائیں بائیں بنی ہوئی بدنما ‘ بے ہنگم ‘دریا اور پہاڑوں کے منظر روک دینے والی‘ عمارتوں کا نام ہے لیکن اس وقت بحرین حسین اور پرسکون تھا اور یہی ہمارے اس سفر کا صدر مقام تھا ‘ یعنی پروین شاکر کے مصرعے کی مثال۔ وہ کہیں بھی گیا لوٹا تو مرے پاس آیا ۔ہم کہیں جاتے تھے اور اسی ہوٹل میں واپس آتے تھے۔ٹھیک یاد نہیں ‘لیکن شاید ہم پانچ دن اسی ہوٹل میں رکے تھے۔میں بہت زمانے کے بعد ایک بار پھر بحرین گیا تو دیکھا کہ یہ ہوٹل موجود ہے ۔ خیر یہ موجود رہے نہ رہے ‘ہمارے ذہن میں موجود رہے گا۔بعد میں یہ بھی پڑھا کہ اس پہاڑی نالے کا نام دارال نالا ہے جو دارال اورسید گئی جھیلوں سے نکل کر آتا ہے۔دارال نالے سے میری ایک ناقابلِ فراموش یاد بھی وابستہ ہے ۔میں اس تیز و تند پہاڑی نالے میں موت کے منہ سے بال بال بچا تھا۔
ہم سب دارال کنارے ٹہلنے نکلے ۔شام کا وقت تھا۔ہم تین کم عمر خود کو کمانڈوز کہتے ہی نہیں سمجھتے بھی تھے۔میں نے نالے کے بیچوں بیچ ایک بڑی چٹان پر پہنچنے کی ٹھانی ۔جہاں مجھے پوز بنا کر کھڑا ہونا تھا۔اس چٹان تک پہنچنے کے لیے کئی خشک اور گیلے چھوٹے پتھر تھے۔میں ان پر پاؤں رکھ کر گزرتا رہا حتیٰ کہ نالے کے تقریبا بیچ میں پہنچ گیا۔ اب بڑی چٹان تک ایک پتھر درمیان میں تھا جس کے اوپر پانی گزر رہا تھا اور اس پر مدتوں کی کائی جمی تھی ۔چھلانگ لگا کر بڑی چٹان تک نہیں پہنچاجاسکتا تھا۔ درمیانی پتھر پر پیر رکھنا لازمی تھا۔میں نے اس پر پاؤں رکھا اور اگلی بات مجھے یہی یاد ہے کہ میں پیٹ کے بل نہایت ٹھنڈے‘ پرشور پانی میں تھا۔میں نے سنبھلنے کی کوشش کی لیکن ڈھلان پر اترتا منہ زور پانی مجھے کئی فٹ آگے لے گیا۔ ٹھنڈا پانی ہڈیوں کا گودا جمائے دے رہا تھا۔ میں نے ایک پتھر کو پکڑنے کی کوشش کی لیکن کائی پر ہاتھ پھسل گئے ۔اور پانی پھر مجھے کئی فٹ نیچے گھسیٹ کر لے گیا۔اس لمحے میں نے کنار ے پر کھڑے ساتھیوں کی چیخیں سنیں ۔ایک لمحے کے لیے رُخ اس طرف ہوا تو میں نے سب کے پریشان چہرے دیکھے۔میں انچ انچ نیچے پھسل رہا تھا اور لگتا تھا کہ صدیاں گزر چکی ہیں۔اس بار میرے دل میں خدا نے ڈالا کہ میں کسی پتھر کی جڑ پکڑوں کیونکہ اوپر تو کائی ہے ۔ میں نے ایک چٹان کی جڑ میں ہاتھ ڈال کر اسے پکڑ لیا اور میر اپھسلنا رک گیا۔لیکن ابھی میرا تمام جسم یخ پانی ہی میں تھا۔میں نے اپنی پوری ہمت جمع کی اورایک خشک پتھر پر چڑھنے کی کوشش کی ۔(جاری)