"SUC" (space) message & send to 7575

ہانکے کے بیچ منظور شدہ ایک قانون

ہانکا شروع ہو رہا ہے ۔ساتھ ساتھ مزید تیاریاں جاری ہیں اوربڑے شور و غل سے پہلے کا نیم سکوت آہستہ آہستہ گزر رہا ہے۔ ہانکا کرنے والے بھی سب کو پتہ ہیں ۔ شکاری بھی اور شکار بھی ڈھکا چھپا نہیں ۔ ان دنوں نئے قوانین کا بہت غلغلہ ہے ۔نیب کے قوانین کا تو سب سے زیادہ ذکر ہوا ہے جس میں کئی اہم ترامیم کی گئیں ۔ وفاقی کابینہ نے بھی اس کی منظوری دی اور صدر عارف علوی کی ملک میں غیر موجودگی کے باعثِ قائم مقام صدر صادق سنجرانی صاحب نے اس آرڈیننس کی توثیق بھی کردی۔ اس میں نیب کو زیادہ اختیار ات دیے گئے ہیں ۔ اور ملزم کے جسمانی ریمانڈ کی مدت 14 دن سے بڑھا کر 30 دن کردی گئی ہے۔اس کے علاوہ بھی کئی اہم شقیں شامل ہیں ۔بظاہر یہ واضح ہے کہ یہ عمران خان کو زیر دام لانے اور قابو کر لینے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔اسی لیے تبصرہ نگاروں اور تجزیہ کاروں نے ان ترامیم کو اسی پس منظر میں دیکھا ہے ۔ اور یہ بات بھی سامنے آچکی ہے کہ نیب کے سابقہ قوانین میں تبدیلیاں کرتے ہوئے اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔ نظریاتی کونسل نیب کے طریقۂ کار‘ ملزم کو مجرم بنا کر اس کیساتھ ویسا ہی سلوک کرنے‘ اسے بدنام کرنے کی تمام کوششوں کو اسلامی تعلیمات کے خلاف قرار دے چکی ہے ۔سب سے اہم بات یہ کہ کسی شریک جرم کو وعدہ معاف گواہ بنا کر اس کے ذریعے الزام ثابت کرنے کو بالکل غلط قرار دے چکی ہے ۔یہ کام کوئی نیا نہیں ‘ہر دور میں مخالفین کو نکیل ڈال دینے کی ہر ممکن کوششوں کی روایت ہر حکومت کی اولین ترجیح بنتی رہی ہے ۔ یہ الگ بات کہ جب قانون بنانیوالے خود اقتدار سے الگ ہو کر انہی گڑھوں میں گرتے ہیں ‘جو دوسروں کے لیے کھودے گئے تھے تونیب یا دیگر احتسابی اداروں کو ظلم اور سیاسی انتقام کے لیے بنائے گئے ادارے قرار دینے لگتے ہیں ۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا ابھی خان صاحب کے دور ِاقتدار تک یہی واویلا رہا ‘لیکن اب وہ دھڑلے سے اسی نیب کو مزید اختیارات دے رہے ہیں ۔اقتدار والے ہمیشہ یہ سوچتے ہیں کہ اس کا آخری شکار مخالفین ہوں گے لیکن ہمیشہ صرف ایسا نہیں ہوتا۔ہانکا کرنے والے ہر بار مختلف ہوں گے اور شکار ہونے والے بھی ہر بار الگ الگ۔یہی ہوتا رہا ہے یہی ہوتا رہے گا۔
نیب کے یہ قوانین ظاہری نظر میں بھی مخصوص لوگوں کے لیے بنائے گئے لگتے ہیں اور قانون دانوں کے مطابق بھی ۔ مجھے یقین ہے کہ کسی نہ کسی حلقے‘ فرد یا خود تحریکِ انصاف کی طرف سے ان ترامیم کے خلاف عدالت میں درخواست شامل ہوجائے گی۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے فیصلوں کی روشنی میں بظاہر یہ فیصلہ ترامیم کے حق میں نہیں ہونا چاہئے۔مسلم لیگ (ن) کی آئندہ دنوں میں کیا پالیسیاں ہوں گی اور وہ انتخابات کے قریب باقی جماعتوں کے ساتھ چل سکے گی یانہیں‘کہا نہیں جاسکتا‘لیکن یہ نظر آرہا ہے کہ کوئی بھی ایک جماعت اپنے بل بوتے پر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوگی ۔اور بہت امکان ہے کہ (ن) لیگ اپوزیشن میں ہو۔اس لیے جو شکنجہ وہ اس وقت بنا رہے ہیں ‘اپنے پاؤں کی طرف دیکھ کر بنائیں ۔
لیکن اس دوران ایک بل ایسا بھی پاس ہوا ہے جس کی مجھے خوشی ہے۔پھر یہ کہ یہ بل بھی ایک ایسی شخصیت کی طرف سے ایوان میں پیش کیا گیا جو ایوان کے قابلِ احترام لوگوں میں ہیں۔جن کے بارے میں یہ توقع ہوتی ہے کہ وہ مخالفت کی بنیا دپر نہیں ‘بلکہ قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلہ کرتے ہیں ۔ مولانا عبد الاکبر چترالی کی طرف سے یہ بل ایک ہی امیدوار کے مختلف حلقوں سے الیکشن لڑنے کے بارے میں تھا۔اس سے پہلے آئین ایک ہی وقت میں ایک ہی امیدوار کو بہت سے انتخابی حلقوں سے الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا تھا۔پیش کردہ بل میں بتایا گیا تھا کہ الیکشن کمیشن کی کسی ایک قومی حلقے میں انتخاب پر جو رقم خرچ ہوتی ہے وہ کروڑوں میں ہے ۔صرف انتخاب پر دو سے ڈھائی کروڑ روپے‘ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ پر ستر لاکھ روپے‘ٹرانسپورٹ پر تیس لاکھ روپے اورالیکشن کے عملے پر ایک کروڑ تیس لاکھ روپے خرچ ہوتے ہیں ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد آئین کے تحت امیدوار صرف ایک ہی نشست رکھ سکتا ہے‘ باقی حلقوں میں پھر وہی کروڑوں کا خرچ۔ مولانا کا مؤقف تھا کہ اسے بند کیا جائے اور امیدواروں کو قومی وسائل بے دریغ ضائع کرنے سے روکا جائے ۔ ان کا مؤقف مجھ سمیت بے شمار پاکستانیوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ہم اسے مذاق اور قومی وسائل کے ضیاع سے زیادہ کسی اور چیز سے تعبیر نہیں کرسکتے۔ یہ بے شمار دولت لٹا کر ایک امیدوار کی نفسیاتی تسکین تو کی جاسکتی ہے لیکن اس میں ملک و قوم کی بہتری کا کوئی ایک پہلو بھی نہیں۔ بلکہ ملک اور افلاس زدہ قوم کے لیے نہایت شرمناک ہے۔کبھی سوچئے ‘ہر معاملے پر کرپشن اور ملکی وسائل کے لوٹ کھسوٹ کے درس دینے والے خان صاحب نے اپنے دور میں یہ ضیاع کیوں نہیں روکا؟ چلئے خودنہیں روکا‘ تو کیا سوچا بھی نہیں ؟کیا وہ اتنے سادہ ہیں کہ انہیں یہ پتہ نہیں کہ ایک حلقے میں انتخاب کتنے میں پڑتا ہے ؟ مجھے16 اکتوبر 2022 ء کا دن یاد ہے جب عمران خان اکٹھے چھ حلقوں سے قومی اسمبلی کا انتخاب جیتے تھے‘جبکہ یہ طے تھا کہ وہ کوئی ایک سیٹ بھی رکھنے والے نہیں ‘کیونکہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے استعفے دے کر باہر آچکی تھی ۔یہ طے تھا کہ ان سب حلقوں میں انتخاب دوبارہ کرانے پڑیں گے۔ یہ وہ دن تھے جب ہم ایک ایک دوست ملک اورعالمی مہاجنوں سے مدد کی درخواستیں کر رہے تھے۔ایسے میں بیس‘ پچیس کروڑ روپے کا ضیا ع‘ جسے پیسہ نالی میں پھینک دینے سے زیادہ کوئی نام نہیں دیا جاسکتا‘خون کے آنسو رُلاتا تھا۔ بے شک یہ خون کے آنسو رلاتا تھا‘لیکن خان صاحب کو نہیں ۔ پی ٹی آئی کو نہیں ۔وہ تو فتح کے نشے میں تھے ۔نشے کے لیے انسان سب کچھ کرتا ہے ۔ بیس پچیس کروڑ روپے کیا چیز ہیں ۔اورخان صاحب تواس طرح کی پیسے کی بربادی کا عروج تھے‘ورنہ سب بڑے سیاستدان کئی کئی نشستوں پر کھڑے ہوتے‘ فتح کا جشن مناتے ‘ٹھاٹ سے پسندیدہ نشست رکھتے اور مزید ٹھاٹ سے چھوڑی ہوئی نشستوں پر مزید پیسہ برباد ہونے کا تماشا کرتے رہے ہیں۔اور پھرہم انہی چہروں کو اسی ایوان میں خزانہ خالی ہونے کی دہائیاں دیتے بھی دیکھتے رہے ہیں۔
اب قومی اسمبلی کی قانون و انصاف کی کمیٹی نے بدھ کے دن مولانا عبدالاکبر صاحب کا پیش کردہ آئینی ترمیم 2023ء کا بِل پاس کیا ہے جس کے تحت آرٹیکل233 میں ترمیم کی گئی ہے۔ اب کوئی بھی امیدوار قومی یا صوبائی اسمبلی کی دو سے زیادہ نشستوں پر انتخاب نہیں لڑ سکتا۔ جیتنے کے بعد 30 دن کے اندر اسے کوئی ایک نشست چھوڑنی پڑے گی۔ شکر ہے کسی کمیٹی کو یہ خیال آیا کہ کس طرح قیمتی رقم امیدواروں اور جماعتوں کی اس نفسیاتی تسکین پر ضائع ہورہی ہے۔کسی مخالف کو زیر کرنے کے لیے ہی سہی ‘خیال تو آیا۔سب کہہ رہے ہیں کہ یہ قانون بھی ہانکے کا حصہ ہے۔ہوگا‘لیکن میں پھر بھی خوش ہوں ۔یہ وقت تو گزر جائے گا اور یہ چہرے بھی ‘لیکن اگر اس قانون پر عمل ہوگیا تو میری جیب کی کتنی رقم نالی میں بہنے سے بچے گی ۔اگر آپ چاہیں کہ میں اس قانون کے معاملے میں خان صاحب کو مظلوم قرار دوں ‘ان سے ہمدردی کروں تو یہ بھی شاید ممکن ہو۔ لیکن اس سے پہلے خان صاحب میری جیب میں وہ پیسے واپس ڈالیں جواکتوبر 2022 ء میں اتنی نشستوں پر کھڑے ہونے‘ جیتنے‘ نشستیں خالی کرنے اور دوبارہ انتخاب کے نتیجے میں میری جیب سے نکال لیے گئے تھے۔ اگر خان صاحب کو مجھ سے کوئی ہمدردی نہیں ہے تو‘بہت معذرت۔ہانکا ہو یا نہ ہو ‘مجھے بھی ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ میں نے جو اُن کی مقدور بھر حمایت کی وہ اس لیے نہیں کہ میری جیب سے پیسے جاتے رہیں اور ان کی‘ان کے ساتھیوں کی نفسیاتی تسکین ہوتی رہے۔ میں اپنی جیب سے ان کا نشہ کیوں پورا کروں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں