"SUC" (space) message & send to 7575

غزہ ۔ 140مربع میل کا محشر

غزہ کی پٹی پر قیامت گزر رہی ہے ۔اس میں رہنے والے لمحہ لمحہ اور باری باری شہادتوں کی طرف جارہے ہیں۔معصوم بچے ‘ عورتیں ‘ بوڑھے کسی کی کوئی تخصیص نہیں ۔ مسلح اور غیر مسلح ‘ جنگجو اور بے گناہ کی کوئی تفریق نہیں ۔ بم نہیں پھٹ رہے ‘دل پھٹ رہے ہیں ۔پورے پورے خاندان بمباری میں شہید ہورہے ہیں ۔ کل ہی اطلاع ملی کہ ابوظہبی میں کام کرنے والے ایک فلسطینی کا تمام گھرانہ شہید ہوگیا۔ آناً فاناً اس کا خاندان ختم ہوکر رہ گیا۔ اس کی بے بسی اور غم کا اندازہ لگائیں کہ وہ اپنے پیاروں کو دفن کرنے کے لیے جا بھی نہیں سکتا۔ اور یہ کوئی ایک مثال نہیں ۔ دنیا کی بے حسی اور بے بسی کا بدترین مظاہرہ یہی رات دن ہیں جس میں اقوام متحدہ کا ادارہ تک ‘جسے گھر کی لونڈی کہا جاتا ہے ‘ روز اپیلیں کر رہا ہے ‘اعداد و شمار جاری کر رہا ہے ‘بتا رہا ہے کہ ہسپتالوں میں زخمیوں اور بیماروں کی کیا حالتِ زار ہے ‘ لیکن مغربی دنیا ایک مسلح غنڈے کی مدد کے لیے ہر طرح کوششیں کر رہی ہے ۔
اور ابھی تو شاید بد ترین قیامت کی گھڑی باقی ہے ۔ غزہ پر اسرائیلی زمینی حملے کی تیاریاں ہیں ۔اسرائیلی ڈیفنس فورسز((IDF نے اسرائیلی تاریخ کی سب سے بڑی فوج تین لاکھ کی تعداد میں غزہ کنار ے پہنچادی ہے ۔اور کسی بھی وقت وہ غزہ کی پٹی میں گھس سکتے ہیں۔ٹینکوں کی بہت بڑی تعداد غزہ کا رُخ کیے کھڑی ہے۔اسرائیل نے وارننگ دی ہے کہ غزہ کے شہری یہ پٹی چھوڑ دیں اور مصر چلے جائیں ۔ حماس نے غزہ نہ چھوڑنے کا اعلان کیاہے ۔ لیکن غزہ پر اسرائیلی حملہ تقریبا ًیقینی ہے ۔غزہ کی 140 مربع میل کی پٹی میں کئی گنجان شہر ہیں ۔ جن میں غزہ شہر‘ دیر البلاح‘ خان یونس اور رفاح شامل ہیں ۔ اسرائیل زمینی حملے کے لیے ذہن بنا چکا ہے ۔ فضا ‘ سمندر اور زمین سے مسلسل بمباری اسی کا پیش خیمہ ہے ۔ اس کی کوشش ہے کہ سرنگیں ‘زیر زمین اسلحے کے ذخیر ے اور زمینی راستے پہلے تباہ کردیے جائیں ۔ زمینی حملے میں فریقین کا دو طرفہ بڑا نقصان ہوگا۔فلوجہ ‘ عراق میں 2004 ء میں جو گھر گھر لڑائی ہوئی تھی ‘ کم و بیش ویسی ہی صورتحال ہوگی ۔
لیکن کیا یہ حملہ آسان ہوگا۔اور اسرائیلی فوج اپنے مقاصد حاصل کرلے گی ؟حماس نے کیا پہلے سے اس کا اندازہ نہیں کیا ہو گا کہ یہ زمینی حملہ ہوسکتا ہے؟اس کے دفاع کے لیے اس نے کیا سوچا ہوا ہے؟ہمسایہ ممالک کے کیا رد عمل ہوں گے؟ مسلمان ممالک کا رد عمل کیا ہوگا اور کیا عالمی اقوام پچیس لاکھ گنجان آبادی والے اس علاقے کی بربادی خاموشی سے دیکھتی رہیں گی ؟یہ سب بڑے سوال ہیں ۔اور ان کے جوابات اور امکانات بھی یقینی نہیں ہیں ۔ایک بات یہ ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اسرائیلی حکومت کوعوامی ناپسندیدگی اور رد عمل کا بھی سامنا ہے اور اختلافات کا بھی ۔ یہ معاملہ اسے انتہائی اقدامات کی طرف لے جاسکتا ہے بلکہ لے جائے گا۔نیتن یاہو نے جو سخت بیانات دیے ہیں اور کہا ہے کہ حماس تبدیلی چاہتی تھی اب اسے تبدیلی ملے گی ‘ اور'' ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ جو کریں گے وہ ان کی نسلیں بھی یاد رکھیں گی ‘‘یہ یہودی فیصلہ سازوں کی سوچ کی نشاندہی کرتے ہیں۔اگر یہ سب کچھ سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہوا ہے اور حماس کا حملہ بھی غزہ کی پٹی پر مکمل اسرائیلی قبضے کی ایک کڑی ہے ‘تو ‘خاکم بدہن ‘ غزہ فلسطینیوں کے ہاتھ سے جانے والا ہے ۔ لیکن اگر سب کچھ اسی طرح ہے جیسا کہ نظر آتا ہے اورحماس کا حملہ واقعی اسرائیل کے لیے غیر متوقع تھا‘تو غزہ کا علاقہ ایک بار پھر آگ و خون کے سمندر سے گزرنے والا ہے۔ اسرائیل کے لیے جو مشکلات ہیں ‘ ان میں غزہ کی گنجان آبادی جس میں جنگ جُو اور غیر مسلح شہری سب موجود ہیں ‘سینکڑوں اسرائیلی قیدیوں کی غزہ میں موجودگی اور گھر گھر لڑائی کی تقریباً یقینی صورتحال ہے ۔ بہت بڑی عددی برتری ‘جنگی ساز و سامان اور مقابلے میں حماس کے پاس نہ ہونے کے برابر طاقت اسرائیلی حق میں جاتی ہے ۔ دوسری طرف غزہ میں حماس نے جابجا سرنگیں کھودی ہوئی ہیں اور ایک گوریلا جنگ کے لیے خود کو تیار کیا ہوا ہے ۔ ایسے حالات اور گھر گھر لڑائی کی صورت میں بڑی سے بڑی طاقت گوریلا جنگ کے سامنے بے بس ہوسکتی ہے ۔ اس حملے میں اسرائیل کا بڑا جانی نقصان ہوسکتا ہے ۔اور یہ بات سی آئی اے کے سابق ڈائریکٹر اور سیکرٹری دفاع لیون پنیٹا نے بھی کہی ہے ۔آخری بار 2014 ء میں اسرائیلی فوجیں غزہ میں داخل ہوئی تھیں ۔ اس کا مطلب ہے کہ کم و بیش دس سال حماس کو اپنا دفاع مضبوط کرنے کے لیے مل چکے ہیں ۔کم اور درمیانے فاصلے کے راکٹ حماس کا ایک اہم ہتھیار ہے ۔ایک اندازے کے مطابق لگ بھگ دس ہزار راکٹ حماس کے پاس موجود ہیں جن کا غزہ میں گھسنے والے اسرائیلی فوجیوں کو سامنا کرنا ہوگا۔اسی طرح تباہ کن چھوٹے اور بڑے ڈرونز بھی حماس کا اہم ہتھیار ہیں ۔ یوکرائن روس کی حالیہ جنگ میں ڈرنز کو ایک مؤثر ہتھیار کے طو رپر استعمال کیا جاچکا ہے ۔اسی طرح حماس نے غزہ میں سینکڑوں سرنگیں کھودی ہوئی ہیں جہاں وہ محفوظ رہ کر گوریلا جنگ کرسکتے ہیں ۔ اسرائیل کو داخل ہونے کے لیے ٹینکوں اور بکتربند گاڑیوں کا سہارا لینا ہوگا۔ جبکہ حماس کے پاس بکتر شکن میزائیل‘اینٹی ٹینک گائیڈڈ میزائل اور راکٹس کافی تعداد میں موجود ہیں ۔لوہے اور کنکریٹ کی ایسی تہ خانوں والی مضبوط عمارتیں موجود ہیں جنہیں مورچوں کے طورپر استعمال کیا جاسکتا ہے ۔جنگجوؤں کے بیچ سول آبادی اسرائیل کے لیے اور بڑا مسئلہ ثابت ہوگی۔اگر حملہ ہوا تو سویلین شہریوں کی بہت بڑی تعداد اس جنگ میں شہید ہوگی ۔
ایک بہت بڑی وجہ جو حماس کو طاقتور بناتی ہے ‘ یہ ہے کہ ان کے پاس پیچھے ہٹنے یا کہیں اور چلے جانے کا کوئی راستہ ہی نہیں ہے ۔ ان کا جینا مرنا غزہ میں ہے ۔ جان لینے یا جان دینے کے سو اکوئی راستہ نہیں ۔ اس کے برعکس اسرائیل کے پاس نکلنے ‘ واپس جانے کے امکانات موجود ہیں ۔چنانچہ جذبے کافرق ایک بڑا فرق ثابت ہوسکتا ہے ۔یہ وہی فرق ہے جس کے تحت طالبان نے اپناوجود قائم رکھا اور امریکہ کو واپسی پر مجبور کرکے رکھ دیا۔
ایک لمحے کے لیے یہ تصور کرلیں کہ اسرائیل غزہ میں گھس کر حما س کی طاقت ختم کردیتا ہے ۔تو کیا وہ پچیس لاکھ فلسطینیوں کو ملک بدر کردے گا؟کہاں؟ غزہ کی پٹی کا ایک سرا مصر کی رفاح کراسنگ سے ملتا ہے لیکن مصر نے یہ راہداری کھولنے سے انکار کردیا ہے ۔اگر آبادی یہیں رہے تو کیا اسرائیل کا غزہ پر مستقل قبضہ کوئی دیرپاسیاسی حل ہوگا ؟ اور کیا اس سے مستقل امن قائم ہوسکے گا؟2005 ء میں اسرائیل غزہ سے نکلنے پر مجبور ہوا تھا کہ اسے اس کی بڑی معاشی قیمت دینی پڑ رہی تھی ۔ آبادی یہیں رہنے کی صورت میں اب بھی یہی ہوگا۔
ایک بڑا سوال اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کے رد عمل کا ہوگا۔ اگرچہ نائن الیون کے بعد عراق‘ شام ‘ لیبیا ‘ الجزائر ‘ لبنان اور مصر کو تباہ کرکے یا کنٹرول میں لے کر اسرائیل کو ملحقہ خطرات سے محفوظ کرنے کی پوری کوشش کی گئی ہے ۔اسی طرح خلیجی ممالک کی حکومتیں بھی زیر نگین ہیں‘ لیکن ان تمام ممالک کے عوام میں غزہ کے قتل و خون کا بڑا رد عمل آسکتا ہے ۔ عوامی رد عمل مسلمان اور عرب ممالک کے حکمرانوں پر بڑا دباؤ پیدا کردے گا۔کیا مسلم ممالک اور ہمسایہ ممالک کھل کر نہ سہی ‘ غیر اعلانیہ سہی ‘اسلحے اور مالی امداد کے ذریعے فلسطینیوں کی مدد کریں گے ؟لبنان کی حزب اللہ کیا فیصلہ کرے گی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ایران عملی طو رپر اس جنگ میں کس حد تک شامل ہوگا؟ان پر اگلی کسی تحریر میں بات کرتے ہیں۔لیکن اس وقت تو بے بسی ایسی ہے کہ قلم اور دعا ہی ہمارے پاس دو ہتھیار ہیں جن کا سہارا لیا جاسکتا ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں