اُترتی شام کی دہلیز پر‘ کھلی فضا میں بیٹھے‘ گرم چائے کے گھونٹ لیتے میں نے انگور کی گھنی بیلوں کو دیکھا۔ چمک دار سبزہ ماند ہو چلا ہے اور اس کی ہریالی کجلانے لگی ہے ۔ گلاب کے پتے بھی زنگ آلود ہونے لگے ہیں۔ آرائشی پھول دار بیلوں کلورو ڈنڈرون‘ وسٹیریا اور پیشن فلورا کا بھی یہی حال ہے۔ مٹیالے‘ بھورے‘ زنگاری‘ زرد اور ہرے پتے ایک ہی شاخ پر نظر آنے لگے ہیں۔ پت جھڑ اپنے رنگوں‘ اپنی بے رنگی‘ اپنی خوب صورتیوں کے ساتھ ہر باغ‘ ہر لان‘ ہر پیڑ اور ہر پودے کے اصل رنگ میں شامل ہو چکی ہے۔ خزاں کی ملگجی زرد شال اوڑھے درخت ایک نئے روپ میں نظر آنے لگے ہیں۔ اور خزاں کی بہار دیکھنی ہو تو ان پیڑوں کو دیکھیں جو آتشی گلابی ہو رہے ہیں۔ میں خزاں کو کبھی بدصورت نہیں کہتا۔ رنگا رنگ فطرت کی خوبصورتیوں کا مشاہدہ کرنے والا کوئی بھی شخص اس کے حسن اور الگ طرح کی دلکشی کا انکار کر ہی نہیں سکتا۔ اس کے ساتھ گلابی موسم کے خنک جھونکے بھی شامل ہو جائیں تو کون کافر اس کا انکار کر سکتا ہے۔ نومبر کا آغاز ہے اور ہوائے شمال سردی کی خوشبو لے کر ٹھنڈے علاقوں سے میدانوں میں پہنچنے لگی ہے۔ اس موسم میں تو ہوا بھی گلابی شال اوڑھ کر چلتی ہے۔ تازگی سے چھلکتی‘ شاداب کرتی‘ دل پر چلتی ہوا جو ایک طرف درختوں کے زرد پتے اڑاتی اور دوسری طرف خزاں کے اس موسم میں دلوں میں پھول کھلاتی ہے۔ اس وقت تو بات صرف لاہور کی ہے ورنہ یہ موسم پورے ملک پر اپنے پر پھیلا کر اُترتا ہے تو کسی ہزار رنگ پرندے کی طرح فضا میں اس کے رنگ جھمکنے لگتے ہیں۔ اس موسم‘ اس پرندے کا سال بھر انتظار رہتا ہے۔ سخت گرمیوں کے بعد اور سخت سردیوں کے آغاز سے پہلے یہ وہ گلابی جاڑا ہے جو جسم کیا‘ روح تک کے مساموں میں جذب ہوکر پھول کھلا دیتا ہے۔
یہ مہینے آتے ہیں تو سویٹر‘ کوٹ‘ گرم کپڑے‘ دلائیاں‘ رضائیاں اپنے محفوظ خانوں سے باہر نکل کر دھوپ بھرے صحنوں اور آنگنوں یا چھتوں کی راہ لیتے ہیں۔ روئی والے گرم لحافوں کی تیاری شروع ہوتی ہے۔ لحاف کی جگہ اب آہستہ آہستہ کمبل لے رہے ہیں لیکن لحاف کی نرمی‘ گرمی اور آرام کا کوئی کمبل کیا مقابلہ کر سکتا ہے۔ خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں جم کر سردی پڑتی ہے۔ میری امی مرحومہ ان دنوں روئی پینجوانے یعنی دُھنکوانے کی تیاری شروع کر دیتی تھیں۔ میں اپنے لڑکپن کے دنوں سے بہت بعد تک دُھنیے سے روئی دُھنکوانے جاتا رہا۔ اس وقت یہ ایک صبر آزما اور جھنجھلاہٹ بھری ڈیوٹی ہوتی تھی۔ اب وہ دن یاد آتے ہیں۔ پہلے پرانے لحافوں کی سلائیاں ادھیڑ کر پرانی روئی نکالی جاتی‘ پھر ساری روئی ایک گٹھڑ بنا کر اکٹھی کی جاتی جسے لے جانا بھی ایک مشکل کام تھا‘ اس کاری گر کے پاس جسے دُھنیا‘ دھنکیا‘ نداف یا پنجیارا‘ کچھ بھی کہہ لیجیے۔ حضرت منصور حلّاج سے کون واقف نہیں اور حلّاج دُھنکنے والے کو کہتے ہیں۔ دُھنکنے کی آواز سننا بھی ایک یادگار تجربہ تھا۔ وہ واقعہ ہر بار یاد آتا تھا جو والد مرحوم سے کئی بار سنا تھا اور جس کے مطابق ایک خاص آہنگ میں نکلتی یہ آواز کہتی تھی کہ
دون است دون است دنیائے دوں
(حقیر ہے‘ حقیر ہے‘ یہ دنیاحقیرہے)
سخت‘ ملگجی‘ ٹکڑیوں میں اکٹھی ہو چکی روئی کو نرم‘ سفید اڑتے گالوں میں تبدیل ہوتے دیکھنا بھی کیا عجب تماشا تھا۔ کیا عجب حلّاج نے تصوف کے ابتدائی رموز اسی مٹتی‘ روپ بدلتی روئی سے سیکھے ہوں۔ لحافوں میں روئی بھرکر نگندے بھرنا اگلا مرحلہ تھا۔ میں ڈورے ڈالنے کے الفاظ سے جان بوجھ کر اجتناب کر رہا ہوں۔ نگندوں کے لیے کئی عورتیں اجرت پر بلائی جاتیں۔ بڑے پرچم کی طرح پھیلے مخملی ریشمی لحاف میں آڑے ترچھے یا سیدھے‘ ڈوبتے اُبھرتے نگندے ڈالنا ایک فن تھا۔
یہی وہ رُت ہے جب شمال سے جنوب کی طرف اڑان بھرتے قریب قریب دس لاکھ مہاجر پرندے افغانستان‘ قازقستان کے راستے پاکستان کے ساحلی علاقوں میں آتے ہیں۔ انڈس فلائی وے ان کا راستہ ہے جہاں میٹھے پانیوں سے بھری منگلا‘ ہالے جی‘ کینجھر‘ حمل کچری‘ لنگ اور ہادیرو سمیت بہت سی جھیلیں ان کی منتظر ہوتی ہیں۔طرح طرح کے پرندے سروں کے اوپر سے ڈاروں کی شکل میں آڑی ترچھی قوسیں بناتے گزرتے ہیں۔ ان میں ہر ایک کے اندر وہ نظام نصب ہے جو انہیں ایک خاص سمت میں‘ خاص ترتیب سے اڑنا سکھاتا ہے۔
لیکن اس موسم کا ذکر یہاں ختم نہیں ہو جاتا۔ ایک عشرے سے سموگ اور آتی سردیاں بھی لازم و ملزوم ہیں۔ تازہ خبر یہ ہے کہ سموگ کی تازہ لہر نے لاہور میں ائیر کوالٹی انڈیکس 378 تک پہنچا دیا ہے۔ ملتان میں 442کا خوفناک عدد بتایا گیا ہے۔ اس صورتحال میں حکومتِ پنجاب نے کئی روزہ تعطیلات کا اعلان کیا ہے۔ میری پیدائش لاہور کی ہے اور ساری عمر یہیں گزری ہے لیکن یہ موسم اور یہ لفظ کم و بیش ایک عشرے سے لاحق ہوا ہے ورنہ یہ ہمارے موسموں میں شامل نہیں تھا۔ فضا کا یہ رنگ لاہور نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا لیکن اب ہر سال دیکھنا پڑتا ہے۔ سموگ کے بارے میں بھی لوگ کم کم جانتے ہیں۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ سموک یعنی دھواں اور فوگ یعنی دھند کے لفظوں کو جوڑ کر بنایا گیا یہ لفظ سموگ لغت میں کافی کم عمر ہے اور یہ مسئلہ زیادہ تر پاکستانی پنجاب‘ بھارتی پنجاب‘ ہریانہ اور ملحقہ علاقوں میں شدت سے ہے۔ وہ سارا علاقہ جو دھان کی فصل اٹھاتا ہے‘ سموگ کا منبع ہے۔ دراصل چاول کی فصل کاٹی جاتی ہے تو اوپر کا بڑا حصہ تو کاٹ لیا جاتا ہے لیکن نیچے ڈنٹھلیں بچ جاتی ہیں جو پورے کھیت میں اپنی جڑیں گاڑے کھڑی رہتی ہیں۔ یہ مڈھی کہلاتی ہیں۔ اسی طرح فصل اٹھانے کے دوران پورے کھیت میں جو بھوسہ بکھرتا ہے‘ اسے پیال کہتے ہیں۔ نئی فصل بیجنے کا موسم یعنی اکتوبر نومبر کا موسم آتا ہے تو کھیت سے یہ دونوں چیزیں صاف کرنا ضروری ہیں۔ اس کے بغیر نئی فصل کا بیج نہیں ڈالا جا سکتا۔ اب یہ محنت اور مشقت طلب کام ہے اور آسان حل کسانوں کے پاس یہ ہے کہ خشک پیال اور مڈھی کو آگ لگا دی جائے۔ آگ انہیں صرف جلا کر راکھ ہی نہیں کرتی‘ ان کے جلنے سے زمین کی زرخیزی میں بھی اضافہ ہوتا ہے اور اگلی فصل میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ اس موسم میں بھارت کے پنجاب اور ہریانہ کے صوبے اور پاکستانی پنجاب کے میدان شعلے اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ ناسا کی کھینچی ہوئی وہ تصویر یاد آتی ہے جس میں بھارت اور پاکستان کے یہ سرحدی علاقے سرخ ہیں۔ اور یہ سرخی آگ کی ہے جو ان میدانوں میں لگی رہتی ہے۔ بہت بڑی مقدار کا یہ دھواں ان میدانوں کے اوپر فضامیں چھتری کی طرح چھا جاتا ہے لیکن یہ دھواں کب تک میدانوں کے اوپر رہ سکتا ہے۔ تیز ہوائیں اسے بکھیرتی ہیں اور کبھی اسے دھکیل کر پاکستان میں اور کبھی دہلی اور دیگر شہروں کے اوپر پہنچا دیتی ہیں۔ ہوا میں نمی‘ ملوں اور فیکٹریوں کی فضائی آلودگی‘ گاڑیوں کا دھواں اور دیگر عناصر اس دھویں کیساتھ ملتے ہیں اور سموگ بنا دیتے ہیں۔ وہ سموگ جو نہ صرف صحت کیلئے خطرناک ہے بلکہ حدِ نظر کو بھی اس حد تک محدود کر دیتی ہے کہ پروازیں بھی منسوخ کرنا پڑتی ہیں اور ٹرینیں روک لی جاتی ہیں۔ سڑکوں پر سفر بھی مشکل ہو جاتا ہے۔ آلودگی ناپنے کا جو بین الاقوامی معیار ہے‘ اسے ائیر کوالٹی انڈکس کہتے ہیں۔ یہ صفر سے 50کے درمیان ہو تو اس کا مطلب ہے کہ ہوا کی کوالٹی اچھی ہے۔ 51 سے 100کے درمیان کا مطلب ہے کہ کوالٹی درمیانے درجے کی ہے۔ 101سے 150کا مطلب ہے کہ سانس کے مریضوں اور حساس لوگوں کیلئے خطرہ ہے۔ 151سے 200تک اے کیو آئی کا مطلب ہے کہ عام لوگوں کی صحت کو بھی خطرات لاحق ہیں۔کیا ہر سال چند روزہ چھٹیاں اس مسئلے کا حل ہیں؟ پنجاب حکومت نے اب تک سموگ کے خاتمے کیلئے کیا اقدامات کیے ہیں؟ اگر کیے ہیں تو یہ مسئلہ بڑھتا کیوں جارہا ہے؟ مجھے تو معلوم نہیں۔ آپ کو علم ہو تو بتائیے۔