یاد رہے کہ دہلی اورنگ زیب کے زمانے میں 22مغل صوبوں میں سے ایک تھا۔ یہ بائیس صوبے کابل‘ لاہور‘ ملتان‘ دہلی‘ آگرہ‘ اودھ‘ الٰہ آباد‘ بہار‘ بنگالہ‘ مالوہ‘ اجمیر‘ گجرات‘ برار‘ خندیش‘ کشمیر‘ اڑیسہ‘ اورنگ آباد‘ بدار‘ ٹھٹھہ‘ بیجا پور‘ سیرا اور گولکنڈہ تھے۔ دہلی کی سرحدیں اودھ‘ آگرہ‘ اجمیر‘ لاہور اور ملتان کے صوبوں سے ملتی تھیں۔ دریا گنج سب سے پہلی فوجی چھاؤنی‘ چاؤڑی بازار پہلی بڑی منڈی اور کھاری باؤلی خشک میووں‘ مصالحوں اور جڑی بوٹیوں کا پہلی بڑا بازار تھا‘ لیکن یہ بعد کے مغلیہ دور کی باتیں ہیں۔
دلّی کی تاریخ پر لکھنے کو اتنا کچھ ہے اور اتناکچھ لکھا گیا ہے کہ اس کے خلاصے کیلئے بھی ایک موٹی سی کتاب چاہیے۔ یہ عجیب شہر ہے جو ایک ہی جگہ رہنے کے باوجود بار بار اپنی جگہ بدلتا رہا ہے۔ دریا اپنے راستے بدلتے ہیں لیکن یہ شہر ہر زمانے میں اپنے راستے بدلتا رہا ہے۔ چند میلوں کے فرق کے ساتھ۔ کبھی دریائے جمنا کے اس گھاٹ پر‘ کبھی اُس گھاٹ پر۔ کبھی مہرولی شہر کا مرکز تھا۔ کبھی تغلق آباد‘ کبھی شاہ جہاں آباد اور کبھی نئی دہلی۔ زمانوں قبل نہ جائیے‘ سلاطینِ دہلی ہی سے آغاز کر لیجئے۔ اس وقت موجودہ پرانی دلّی کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔ یہ دلّی تو اس وقت وجود میں آئی جب مغل شہنشاہ شاہ جہاں نے 1639ء میں دارالحکومت آگرہ سے دہلی منتقل کیا اور ایک نیا شہر شاہ جہاں آباد بسانے کا حکم دیا۔ یہ بہادر شاہ ظفر کے دور اور پھر اسیری یعنی 1857ء تک مغل دارالحکومت رہا۔ سب سے پہلے جمنا کنارے لال قلعے کی تعمیر ہوئی یعنی دریا قلعے کی پشت پر تھا۔ قلعے سے کچھ فاصلے پر جامع مسجد تعمیر کی گئی۔ اور سارے شہر کے یہی دو مرکزی نقطے تھے۔ کہتے ہیں شاہ جہاں نے کہا تھا کہ شہر بساتے وقت وزرا‘ نوابوں اور امرا کی حویلیاں اور محلات ایک علاقے میں رکھے جائیں اور ہر فن‘ ہنر‘ پیشے‘ صنعت و حرفت کے لوگ الگ الگ محلوں میں بسائے جائیں۔ یہ بات ویسے بھی ہمارے زمانے تک چلی آتی رہی ہے کہ ایک خاندان جس شعبے سے وابستہ ہوا‘ نسل در نسل اسی سے وابستہ رہا۔ زرگروں‘ خطاطوں‘ پہلوانوں وغیرہ کی دس دس پیڑھیاں دیکھ لیں ایک ہی فن سے وابستہ لوگ نظر آئیں گے۔ یہ تو بہت سے فنون اور علوم پر زوال کی وجہ سے اس دور میں یہ دیکھنا پڑا ہے کہ ایک خاندان بہت سے شعبوں میں منقسم ہو گیا۔ چنانچہ آپس میں رشتے داریوں کی وجہ سے ہر پیشے کے کاری گروں اور ماہرین کا اس زمانے میں ایک محلے میں رہنا سمجھ آتا ہے۔ دلّی کا چوڑی والان ہو‘ چرخہ والان ہو‘ کوچہ چابک سواراں ہو‘ بازار زرگراں ہو یا بلی ماراں۔ سب بنیادی طور پر پرانے لاہور کی طرح پیشوں میں بٹے ہوئے محلے ہیں۔لیکن ظلِ الٰہی‘ عالم پناہ‘ شہنشاہ معظم‘ شاہِ ہند‘ شاہ جہاں تو بظاہر بس یہ حکم دے کر فارغ ہو گئے۔ شاہ جہاں آباد اسی طرح بسا جیسا پرانا لاہور بسا تھا۔ بغیر منصوبہ بندی کے‘ ٹیڑھا میڑھا‘ تنگ راستوں اور تنگ تر گلیوں والا۔ لیکن یہ بات تو ہر پرانے شہر کے ساتھ ہے۔ دلّی کے ساتھ مخصوص تھوڑی ہے۔
یہ بھی سب کے علم میں ہے کہ فصیل کے جس دروازے کا رُخ جس مشہور شہر کی طرف ہوتا تھا‘ دروازہ اسی نام سے معروف ہو جاتا تھا۔ پرانے لاہور کے اکثر دروازے بھی اسی طرح ہیں۔ دلّی کے پرانے نقشے کو دیکھا تو یہ سمجھ آیا کہ اگر آپ لال قلعہ کے مرکزی دروازے یعنی لاہوری دروازے کے باہر اس طرح کھڑے ہیں کہ قلعہ آپ کی پشت پر اور سڑک سامنے ہے اور آپ دائیں ہاتھ فصیل کے ساتھ ساتھ چلنا شروع کردیں تو تھوڑے فاصلے کے بعد قلعے کی فصیل ختم ہوکر شہر پناہ سے جا ملے گی۔ یہ شہر پناہ اس وقت کی دلّی کا احاطہ کرتی ہے۔ تھوڑا آگے قلعہ گیٹ‘ پھر نصیر گنج برجی۔ پھر فصیلِ شہر مغربی رخ اختیار کر لیتی ہے۔ پھر کشمیری دروازہ اور موری دروازہ آتا ہے۔ شاہ برج کے بعد دیوار جنوبی رخ پر مڑ جاتی ہے۔ کابلی دروازے سے تھوڑا آگے چل کر شہر پناہ کا لاہوری دروازہ آجاتا ہے جو قلعے کے لاہوری دروازے کے بالکل سامنے ہے۔ کئی برجیوں اور دروازوں سے ہوتی ہوئی فصیلِ شہر اجمیری دروازے پر پہنچتی ہے۔ یہاں سے فصیل مشرقی رُخ اختیار کرتی ہے اور ترکمان گیٹ سے ہوتی ہوئی دہلی دروازے پر پہنچتی ہے جو قلعے کے دہلی دروازے کے بالکل سامنے ہے۔ ذرا سا آگے چل کر دیوار دریائے جمنا کے متوازی پھر شمال کی طرف مڑ جاتی ہے اور نواب برج‘ دریا گنج دروازے سے ہوتی ہوئی راج گھاٹ دروازے پر پہنچتی ہے جو جمنا کی طرف کھلتا ہے۔ ذرا سا آگے فصیلِ شہر ایک بار پھر قلعے کی دیوار سے جڑ جاتی ہے۔ گویا پرانے شہر کا ایک مکمل چکر آپ نے لگا لیا۔ کہا جاتا ہے کہ اس وقت کی فصیل 14 دروازوں کے ساتھ 1500ایکڑ اور 6کلو میٹر سے کچھ زیادہ پر محیط تھی۔ آبادی بھی مناسب رہی ہو گی لیکن آج کی طرح کھوے سے کھوا تو نہیں چھلتا ہوگا۔
پرانی دلّی جاتا تو عارفہ کے گھر جانا لازمی تھا۔ عارفہ میری سگی ماموں زاد بہن ہے۔ محبت‘ مٹھاس اور اپنائیت سے مالا مال۔ ہمارے چھوٹے ماموں محمد حسین (حسین بر وزن ذہین) مرحوم کی سب سے چھوٹی بیٹی۔ پرانی دلی کے کوچۂ بلی ماراں میں پنجابی پھاٹک والی گلی میں رہتی تھیں۔ پنجابی پھاٹک گلی قاسم جان کے بالکل قریب ہے جہاں مرزا غالبؔ کی حویلی یا گھر تھا۔ اب جہاں تک یاد آتا ہے بلی ماراں کا قریبی راستہ تو اردو بازار کی طرف سے ہوکر جاتا تھا لیکن اندرون دلّی زیادہ سے زیادہ دیکھنے‘ پرانے محلوں میں گھومنے اور خوامخواہ بھٹکنے کا شوق مجھے چھوٹی بڑی گلیوں کی سیر کرواتا تھا۔ ان سب علاقوں سے تاریخ کی مہک پھوٹتی تھی۔ میں بہت بار بھٹک کر کہیں اور جا نکلتا تھا لیکن موسم اچھا تھا اور کام کاج کچھ نہیں تھا سوائے گھومنے کے‘ اس لیے اس کا بھی اپنا لطف تھا۔ کوچہ‘ گلی‘ کٹڑہ‘ پھاٹک‘ حویلی‘ چھتہ وغیر ہ کے نام ہر کچھ فاصلے پر نظر آتے تھے۔ ان سب کے مخصوص معنی ہیں جس پر کبھی شاید تحقیق ہوئی ہو۔ یہاں لمبی تفصیل کا تو موقع نہیں لیکن بعض چیزیں شاید دل چسپی کی ہوں گی۔ محلہ ایسا رہائشی علاقہ تھا جس میں کئی کوچے موجود ہوں اور جس کے رہائشیوں میں کوئی مشترک بات ہو۔ عام طور پر یہ ایک ہی پیشے سے متعلق ہوتی تھی۔ کوچہ جو فارسی لفظ ہے‘ ایسی گلی کو کہا جاتا ہے جو ایک محلے کے اندر واقع ہو اور جس کے دائیں بائیں حویلیاں‘ کٹڑے وغیرہ موجود ہوں۔ کٹڑہ کسی کوچے میں ایک ہی پیشے سے منسلک کاری گروں کی رہائشی اور کام کرنے کی جگہوں پر مشتمل ایسے بند احاطے کا نام تھا جس کے داخلی منہ پر دروازہ موجود ہو اور رات کو بند کیا جا سکتا ہو۔ عام طور پر کٹڑے میں ایک کمرے کے مکان ہوا کرتے تھے۔ پھاٹک سے مراد بھی ایسارہائشی بند احاطہ ہے جس کا دروازہ بوقتِ ضرورت بند ہو سکتا ہو۔ چھتہ وہ گلی ہے جسے مکانوں یا چوباروں نے اوپر سے چھت کی طرح ڈھانپ دیا ہو۔ حویلی بھی ہر عمارت نہیں بلکہ ایک خاص تعمیر والی عمارت ہوتی تھی۔ ایک عام حویلی کے بیچوں بیچ ایک کھلا صحن اور اس کے چاروں اطراف وسیع کمرے ہوتے تھے۔ حویلی امارت کی نشانی تھی اور مغلیہ دور میں پرانے شہروں میں امرا‘ وزرا کی حویلیاں ان کے نام سے مشہور تھیں۔ اب ان بہت سی پرانی حویلیوں میں ریسٹورنٹس بھی قائم کر دیے گئے ہیں جیسے حویلی دھرمپورہ۔
حضور‘ قبلہ عالم شہزادہ خرم المعروف بہ شاہ جہاں! تاج محل‘ شاہجہانی مسجد‘ شالا مار۔ آپ کے تعمیری ذوق کا ایک زمانے میں نام ہے۔ تو جناب! اگر نیا شہر شاہ جہاں آباد بساتے وقت پچھلے شہروں کو دیکھتے ہوئے کچھ اچھی منصوبہ بندی کر لی جاتی تو کیا حرج تھا؟ آپ کے ذوق تعمیر میں کیا کسر واقع ہو جاتی؟ لیکن میاں سعود عثمانی!359 سال بعد مٹیا محل میں کھڑے ہوکر کمر پر ہاتھ رکھ کر یہ کہنا آسان ہے۔ تمہیں کیا پتہ اس وقت کے مسائل کا۔ نہ ہوئے اس عہد میں۔ مست ہاتھی کے پاؤں تلے ڈلوا دیے جاتے ان گستاخیوں پر۔ اور اس پاؤں میں سب کا پاؤں ہوتا۔