بہت غیر متوقع صورتحال پاک ایران سرحد پر پیش آئی ہے اور پاکستان کی یہ جنوب مغربی سرحد گرم ہوگئی ہے ۔ اچانک معلوم ہوا کہ ایرانی میزائل اور ڈرون حملے پاکستانی بلوچستان کے اندر کئے گئے ہیں ۔ ایرانی سرکاری ذرائع نے کہا کہ یہ دہشت گردوں پر حملے تھے جبکہ پاکستان نے بتایا کہ ان سے دو بچیوں کی شہادت ہوئی ہے ۔ پاکستان کی طرف سے اس کا شدید رد عمل آیا ۔احتجاج کے ساتھ ساتھ پاکستانی سفیر کو واپس بلالیا گیا اور ایرانی سفیر کو ایران سے واپس پاکستان نہ آنے کا کہہ دیا گیا۔دیگر تجارتی اور مذاکراتی عمل بھی روک دیے گئے اورایرانی سرحد کی فضائی نگرانی بھی شروع کردی گئی‘ لیکن اس معاملے کی سب سے بڑی خبر یہ کہ سیستان کے سراوان شہر میں پاکستان نے جوابی فضائی حملے کیے ہیں جو ایرانی سرکاری عملداری سے باہر ہے ۔یہ بھی اطلاع ہے کہ سات مقامات کو نشانہ بنایا گیا۔ اس آپریشن کو ''مرگ بر سرمچار‘‘کا نام دیا گیا۔ ایران نے تصدیق کی ہے کہ سات افراد ہلاک ہوئے ہیں جو ایرانی شہری نہیں تھے۔
یہ خبریں دکھ کی ہیں ۔اس وقت جب پوری امت کی نگاہ حماس اور اسرائیل کے معرکوں پر لگی ہوئی ہے ۔اور ایران بھی ان میں الجھا ہوا ہے ‘باہمی اتحاد کی ضرورت تھی ۔اگر اختلاف ہے تب بھی یہ آپس میں الجھنے کا وقت نہیں ۔ لیکن یہ اکثر دیکھا ہے کہ ایرانی رہنما پوری دنیا میں اپنے آپ کو کسی نہ کسی معاملے میں الجھائے رکھتے ہیں ۔ معاملہ صرف امریکی مخالفت کا نہیں ‘ ایران عرب ممالک کا بھی مخالف ہے ۔ سعودی عرب پر حوثی گروہ کی طرف سے یمن سے مستقل وار ہوتے رہے ہیں ۔ لبنان ایک آزاد ملک ہے لیکن معاشی اور سیاسی مسائل میں گھرا ہوا۔ ایران اپنا اثرو رسوخ اپنے مسلح حامیوں کے ذریعے بڑھا کر اسے کنٹرول کرتا ہے ۔افغانستان سے بھی اس کی چپقلش چلتی رہتی ہے ۔اور پاکستان کے معاملے میں تو ایران ہندوستان کی پالیسیوں اور پاکستان دشمن اقدامات کا سہولت کار ثابت ہوا ہے ۔ کلبھوشن یادیو اس کی زندہ مثال ہے ۔ پاکستانی سرحدی چوکیوں پر فائرنگ کے واقعات بھی ہوتے رہے ہیں اور ایران نے ایسے احتجاج کو کبھی سنجیدگی سے لیا ہی نہیں ۔ اب پاکستانی جوابی اقدام اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے صبر کا پیمانہ بھر چکا ہے ۔ اور ان اقدامات سے نہایت ضروری پیغام دے دیا گیا ہے ۔
دونوں ملک اس وقت بہت سے معاشی مسائل میں الجھے ہوئے ہیں ۔سیاسی معاملات اس پر مستزاد۔دیکھا جائے تو دونوں لڑائیوں کے متحمل نہیں ہیں۔ ایران کی جو اس وقت خوفناک معاشی صورتحال ہے ‘ اس کا اندازہ اس سے لگائیے کہ ایک پاکستانی روپیہ 151ایرانی ریال کے برابر ہے یعنی ایک ڈالر کے بدلے بیالیس ہزار ایرانی ریال سے زائد ۔افراطِ زر 41فیصد تک پہنچا ہوا ہے جو 47فیصد تک جا پہنچا تھا۔ اس کی بڑی وجہ ناقص پالیسیوں کے ساتھ ساتھ مسلح گروہوں کی مالی اور اسلحے کی مدد بھی ہے ۔ پاکستان بھی شدید مالی مشکلات سے دوچار ہے۔یہاں افراطِ زر کی شرح 29 فیصد ہے اور افغانستان کے ساتھ بھی اس کے معاملات بگڑے ہوئے ہیں ۔ ملک میں انتخابات سر پر ہیں اور فوج ان میں بھی الجھی ہوئی ہے ۔ ایسے میں ایک نیا محاذکھول لینا کسی طرح بھی پاکستانی مفاد میں نہیں تھا۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ پاکستان نے صبر اور تحمل کی کس حد پر پہنچ جانے کے بعد یہ اقدامات کیے ہیں ۔
میرے خیال میں پاکستان کے یہ اقدامات ضروری تھے۔ہمسایوں سے اچھے تعلقات کی خواہش اپنی جگہ ‘ جھگڑوں سے بچنے کی کوششیں اپنی جگہ ‘لیکن کسی ہمسائے کی طرف سے پاکستان کی سرحدوں پر زمینی یا فضائی حملے یا دہشت گردوں کی سہولت کاری وہ سرخ لکیر ہے جسے عبور کرنے سے پہلے کسی کو سو بار سوچنا چاہیے۔مسائل پاکستان ہی کے نہیں ‘ ان کے بھی ہیں اور کئی پہلوؤں سے ہم سے زیادہ ہیں ۔ آج بھرپور جواب نہ دیا جائے تو انہیں اس سے بھی زیادہ قدم کاحوصلہ ہوجائے گا۔ایک اور اہم سبب اس وقت پاکستانی فوج پر وہ بڑھتا دباؤ ہے جس کا اسے اندر سے بھی سامنا ہے ۔ سوشل میڈیا پر یہ آوازیں اُٹھ رہی ہیں کہ فوج کا اصل مقصدسرحدوں کا دفاع اور اپنی زمین اور اپنے لوگوں کی حفاظت ہے۔ان حالات میں سوشل میڈیا پر بہت ناپسندیدہ اور تضحیک آمیز پوسٹس‘ کمنٹس اور میمز کے ذریعے بھی منفی تاثر پھیلایا جارہا ہے اور بد قسمتی سے اس میں نادان دوست بھی شامل ہیں ۔ اس بحث میں الجھے بغیر کہ ملکی سیاست میں اداروں کی مداخلت کیوں اور کس حد تک ہے اور ان میںغلط فیصلوں سے بچنا ضروری تھا ‘یہ پیغام لازمی تھا کہ فوج اپنے بنیادی فرض سے غافل نہیں ہے ۔ یہ پیغام بھرپور طور پر ہندوستانی فضائی مداخلت اور حملوں کے وقت2020ء میں بھی دیا گیا تھا اور اُس وقت بھی افواج پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہوا تھا۔میں سمجھتا ہوں کہ اس لیے بھی یہ پیغام جانا ضروری تھا۔اب خدا کرے کہ یہ معاملہ یہیں ختم ہوجائے اور آئندہ دونوں ممالک اپنی توانائیاں اس جھگڑے میں نہ جھونکیں‘ کیونکہ اس کا فائدہ صرف اسلام دشمن طاقتوں کو پہنچے گا۔یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ کیا یہ معاملہ صرف ایرانیوں کی حماقت کا نتیجہ ہے یا اس کے پیچھے کچھ اور محرکات بھی ہیں ؟
میں سمجھتا ہوں کہ سوشل میڈیا پر دشمنوں اور نادان یا بے خبر دوستوں کی طرف سے یہ تاثر ہرگز درست نہیں کہ پاکستان اپنے دفاع‘ ساز وسامان اور تیاری کی طرف سے غافل ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی عوام نے پیٹ پر پتھرباندھ کر دفاعی اداروں کو وسائل مہیا کیے ہیں اوران سے دفاعی ساز و سامان یا ملک میں تیار کیا جاتا رہا ہے یا باہر سے خریدا جاتا رہا ہے ۔ظاہر ہے اتنے وسائل موجود ہی نہیں ہیں کہ ہمسایوں خاص طور پر ہندوستان کے فوجی سامان اور تیاری کی برابری کی جاسکے‘لیکن محدود وسائل کے ساتھ جو کچھ کیا جاسکتا تھا‘ وہ کیا گیا ہے ۔ ضرورت اس کی نہیں تھی کہ ہم کسی پر جارحیت کی تیاری کا سامان خریدیں‘ضرورت اس کی تھی کہ کوئی جارحیت کا ارادہ رکھنے والا خوف زدہ رہے اور ہمت نہ کرے۔ یہ مقصد پوری طرح حاصل ہوا ہے ۔ بحیثیت مجموعی پاکستان جارحیت کا اقدام کرنے والے کو سبق سکھانے کی پوری صلاحیت رکھتا ہے ۔ یہ صلاحیت ایٹمی قوت حاصل کر کے بھی حاصل کی گئی ‘ایف سولہ کے حصول کے ذریعے بھی ‘ کم قیمت مگر مؤثر جے ایف 17 تھنڈر طیارے ملک میں بنا کر بھی ‘کڑی تربیت کے ذریعے بھی ‘اور جدید ترین اسلحہ بنا کر بھی ۔ بہت کچھ کرنے کی ضرورت یقینا ہے لیکن ان وسائل میں جو کچھ ہوسکا ‘ وہ بھی کم نہیں ۔ایجنسیوں پر کتنی بھی بات کی جائے اور یقینا ان کے بہت سے یا کچھ فیصلے غلط بھی ہوں گے لیکن یہ کوئی چھوٹی بات نہیں ہے کہ آئی ایس آئی دنیا کی چند بہترین خفیہ ایجنسیوں میں گنی جاتی ہے ۔ یہ دشمن کو خوف زدہ رکھنے کے لیے یعنی Deterrence levelبرقرار رکھنے کیلئے نہایت ضروری ہے۔دور مت جائیے فروری 2020ء میں ہندوستانی فضائی جارحیت کا برابر کا جواب دیا گیا اور ایک طیارہ گرالیا گیا ‘ابھی نندن کو گرفتار کرلیا گیا ۔کیا یہ سب تیاری اور ضروری اسلحے کے بغیر ممکن ہوسکتا تھا؟
میں سمجھتا ہوں کہ پاکستانی قوم نے بہت کچھ کھویا بھی ہے لیکن بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے ۔ہمارے یہاں ان دانشوروں ‘کالم نگاروں کی کمی نہیں جو پاکستانیوں کیلئے ہر روز تبرے کی ایک نئی صنف ایجاد کرنے میں کمال رکھتے ہیں ۔ خامیوں ‘ خرابیوں کی نشاندہی الگ بات ہے لیکن یہ لوگ تو اپنے لوگوں کا مورال ڈاؤن کرنے میں اپنی مثال آپ ہیں ۔ان کے مطابق ان کی ذات کے سوا ملک میں کچھ بھی ٹھیک نہیں‘ حالانکہ پاکستانیوں کو یہ بھی بتانے کی سخت ضرورت ہے کہ سب کچھ کھویا نہیں ہے ‘ تم نے بہت کچھ حاصل بھی کیا ہے ۔یہ جو تمہاری فوج دنیا کی بہترین افواج میں کبھی ساتویں اور کبھی نویں نمبر پر شمار کی جاتی ہے‘ اور ہمیشہ پہلے دس نمبروں میں رہتی ہے یہ کامیابی نہیں تو اور کیا ہے ؟