سب بیٹھ چکے ہیں۔ شہباز شریف وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ گئے‘ کاکڑ صاحب کرسی چھوڑ کر الگ جا بیٹھے لیکن بلٹ پروف گاڑی ساتھ لے جانا نہیں بھولے۔ ایاز صادق سپیکر کی کرسی پر پہلے بیٹھ ہی چکے تھے۔ نواز شریف چوتھی بار وزارتِ عظمیٰ کا خواب دیکھنے کے بعد مایوس بیٹھ گئے۔ الیکشن کمیشن مخصوص نشستیں اس طرح جماعتوں میں بانٹ کر بیٹھ گیا جیسے ریوڑیاں بانٹی جاتی ہیں۔ فارم 45‘ 47 وغیرہ وغیرہ ویب سائٹ پر اس طرح لٹکا دیے گئے جیسے شاہکار قصیدے لٹکائے جاتے تھے۔ بلاول بھٹو اپنی تقریر میں ایک سخت جملہ کہنے اور پھر معذرت کرنے کے بعد بیٹھ گئے۔ تحریک انصاف کم سنی اتحاد کونسل کے اراکین احتجاج کرنے اور پُرزور‘ پُرجوش تقریریں کرنے کے بعد بیٹھ گئے۔ عارف علوی بس اب کچھ دنوں کے ایوانِ صدر میں مہمان ہیں‘ ابھی تو بیٹھے ہیں لیکن جلد ہی آصف زرداری ان کی جگہ بیٹھ جائیں گے۔ مولانا فضل الرحمن ان سب سے الگ منہ بسورے بیٹھے ہیں لیکن بہرحال بیٹھے ہیں‘ کھڑے نہیں ہیں۔ مدتوں بعد یہ منظر دیکھا کہ شیخ رشید قومی اسمبلی میں نہیں‘ لال حویلی میں دل شکستہ بیٹھے ہیں۔ کچھ لوگ جیلوں میں بیٹھے ہیں۔ بہرحال گرد و غبار ذرا چھٹا ہے تو نظر آ رہا ہے کہ کھڑا کوئی نہیں ہے‘ سب بیٹھ چکے ہیں۔
سیاسی صورتحال کم و بیش آئندہ ایک دو سال کے لیے واضح ہو چکی ہے۔ دو بڑے ہاتھی جو لہو لہان ہو چکے تھے‘ سمجھ چکے ہیں کہ یہ لڑائی ختم ہونے والی نہیں‘ اپنی اپنی سونڈ اور دانت بچا لینے چاہئیں۔ لہٰذا (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی اکٹھی ہیں۔ (ن) لیگ قومی اسمبلی میں سب سے بڑی پارٹی بن چکی لیکن حلیفوں کی مدد کے بغیر چند ماہ بھی نہیں نکال سکتی۔ سب مجبور ہیں‘ لیکن خوش ہیں کہ کم از کم ان کا حریفِ اول کرسی پر نہیں ہے۔ ورنہ ایوان میں رہنا مشکل تھا۔ حالیہ کور کمانڈرز کانفرنس کی پریس ریلیز میں جو پیغام دیا گیا ہے‘ اس کا وہ حصہ جو 9مئی کے حوالے سے ہے‘ معنی خیز ہے۔ 9مئی کے ذمہ داروں اور سہولت کاروں کو ہرحال میں کٹہرے میں لانے کے عزم کا اعادہ کیا گیا ہے۔ تحریک انصاف کے بدلے ہوئے بیانیے اور تقاریر و بیانات کے بعد فوج کا یہ پہلا بیانیہ سامنے آیا ہے۔ اگر تحریک انصاف کو یہ امید تھی کہ بدلے ہوئے بیانیے کے بعد ان کیلئے مفاہمت کا دروازہ کھلے گا‘ نرم گوشے پیدا ہوں گے اور ان کے لوگوں کیلئے جیلوں کے دروازے کھلیں گے تو یہ امید پوری نہیں ہوئی‘ اور مستقبل قریب میں اس کے امکانات کم کم ہیں۔ قومی اسمبلی میں عمر ایوب‘ اسد قیصر اور دیگر رہنماؤں کی تقاریر اچھی تھیں۔ 9مئی اور سائفر پر جوڈیشل کمیشن بنانے کے مطالبات بھی اپنی جگہ۔ زیادہ اچھی بات یہ تھی کہ ان سب رہنماؤں نے نامناسب طریقۂ کار اور نامناسب زبان سے اجتناب کیا ہے۔ اس سے پہلے بیرسٹر گوہر علی کا یہ بیان آچکا تھا کہ ہم ایوان سے نہیں نکلیں گے‘ یہیں بیٹھ کر آئینی جدوجہد کریں گے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ تحریک انصاف نے اپنی سابقہ غلطیوں سے سبق سیکھا ہے۔ جہاں تک جوڈیشل کمیشنز کا تعلق ہے‘ ایسے کسی بھی کمیشن کا اب تک کیا فائدہ ہوا ؟ کمیشن مہینوں تحقیقات کرے‘ جے آئی ٹی بنائے‘ اس کی رپورٹ کا انتظار کرے اور پھر اس بنیاد پر اپنی رپورٹ بنائے اور کتنی ہی غیرجانبداری سے یہ سب کچھ ہو‘ اس دوران پلوں کے نیچے اتنا پانی گزر چکا ہوتا ہے کہ معاملات ویسے ہی رہتے ہیں۔ یہ فلم کی ایڈیٹنگ نہیں ہے کہ فلاں سین غلط شوٹ ہوا تھا اس لیے کاٹ کر نیا سین شامل کر دیا جائے۔ اس لیے یہ کمیشن اگر بن بھی گئے تو اس کا کوئی فائدہ ہونے والا نہیں بلکہ یہ بہت ممکن ہے کہ ایسے کمیشن کی رپورٹ تحریک انصاف کے خلاف جائے اور ایک اور مہر لگ جائے۔ اس سے پہلے 2013ء کے انتخابات کی دھاندلی پر بنائے گئے عدالتی کمیشن کی طرح نتیجہ نکلے جس نے کہا تھا کہ منظم دھاندلی کے ثبوت نہیں ملے۔ اس لیے پی ٹی آئی کا کوئی توقع لگانا بیکار ہو گا۔
علی امین گنڈاپور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کی کرسی پر بیٹھ چکے ہیں اور اڈیالہ جیل میں بانی چیئرمین پی ٹی آئی سے ملاقات بھی کر چکے ہیں۔ انہوں نے شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شریک ہونے سے انکار کر دیا۔ یہ مرکز اور خیبرپختونخوا کے بیچ اسی قسم کی محاذ آرائی کی ابتدا لگتی ہے جیسے سابقہ دور میں مرکز اور سندھ کے بیچ رہی تھی۔ یا بے نظیر بھٹو کے دور میں مرکز اور پنجاب کے بیچ تھی۔ سیاست میں اب تک اس جوشیلے اور جذباتی پن سے کسی سیاسی جماعت کو فائدہ نہیں ہوا۔ پی ٹی آئی کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا بیانیہ (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے متعلق نہایت سخت رہا ہے۔ بانی پی ٹی آئی آخری دس برس میں ان لوگوں سے ملنا تو درکنار‘ ہاتھ ملانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اب پی ٹی آئی کے لیے یہ بیانیہ بدلنا ناممکن حد تک مشکل ہے۔ اگر بیانیہ کرپشن مخالف ہوتا تو یہ اب بھی چل سکتا تھا۔ لیکن جب بیانیہ ہی (ن) لیگ‘ نواز شریف‘ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری مخالفت کا ہے‘ خواہ یہی کہہ کر ہو کہ یہ کرپٹ ہیں‘ تو اب یہ بدلنا کیسے ممکن ہو گا؟
بظاہر مخصوص نشستوں کے بارے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ اعلیٰ عدالتوں میں چیلنج ہو جائے گا۔ اسی طرح الیکشن ٹریبونلز کے فیصلوں کا معاملہ بھی ہے۔ پی ٹی آئی کو اگر الیکشن کمیشن سے انصاف نہیں ملا تو باقی توقع عدالتوں ہی سے رہ جاتی ہے۔ پی ٹی آئی کے سامنے بہت سے چیلنج اور کئی سنگین معاملات ہیں۔ مرکزی رہنماؤں کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ۔ صفِ دوم کی قیادت اور کارکنوں کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ۔ مرکزی اور صوبائی انتخابات میں مبینہ دھاندلی ثابت ہونے پر نشستیں پی ٹی آئی کو ملنا اور سابقہ نوٹیفیکیشن معطل ہونا۔ سنی اتحاد کونسل کی جگہ پی ٹی آئی کو اپنا نام اور اپنا نشان واپس ملنا اور ایوان میں اپنی شناخت کے ساتھ بیٹھنا۔ اعلیٰ عدالتوں میں مخصوص نشستوں پر الیکشن کمیشن کا فیصلہ تبدیل کرانا۔ مقتدرہ سے اپنے تعلقات بحال کرنا اور اپنی پارٹی کے اندر اختلافات پھوٹنے نہ دینا۔ یہ سب بڑے چیلنجز ہیں۔ لیکن جو سیاسی جماعت تباہی کے دہانے پر پہنچ کر واپس آ سکتی ہے اور قومی اسمبلی میں 82 نشستوں کی بڑی تعداد میں بیٹھ سکتی ہے‘ وہ ان سے بھی نمٹ سکتی ہے۔ آئندہ چیلنجز بہرحال ماضی قریب سے کم ہیں۔ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ محمود خان اچکزئی‘ جماعت اسلامی اور جے یو آئی (ف) کی حمایت کے باوجود پی ٹی آئی سیاسی میدان میں تنہا ہے۔ صرف سیاسی نہیں‘ عملی میدانوں میں بھی۔ مقتدرہ سے فوری حمایت کی توقع نہیں ۔ اعلیٰ ترین عدالت سے بھی اب تک فیصلے ان کے حق میں نہیں آئے۔ اور اب موجودہ منظر نامے پر تبدیل شدہ بیورو کریسی سے بھی ہمدردیوں کی توقع عبث ہے۔ جو لوگ مفاہمتی پالیسی اور معاشی بہتری کے لیے سیاسی استحکام کی مسلسل باتیں کر رہے ہیں‘ وہ اپنی جگہ درست بھی ہیں لیکن موجودہ سیاسی ترتیب مستقبل قریب میں بھی بدلنے کا امکان بہت کم ہے۔ 2013ء میں جب پی ٹی آئی کی حکومت صرف خیبرپختونخوا میں قائم ہوئی تھی‘ اُس وقت بھی یہ عرض کیا تھا کہ اگر خیبرپختونخوا میں عوامی فلاح و بہبود کے ایسے نمایاں کام کیے گئے جن کے ثمرات نچلے طبقات تک پہنچیں تو یہ ایسی حکمت عملی ہو گی جس کے ذریعے مقتدرہ میں بھی نرم گوشہ پیدا کیا جا سکتا ہے اور ایک عوامی لہر بھی دیگر صوبوں میں پیدا ہو سکے گی۔ بدقسمتی سے یہ کام اس وقت نہیں کیا گیا اور زیادہ وقت ٹکراؤ اور مخالفت میں گزارا گیا۔ علی امین گنڈا پور اور صوبائی قیادت کے پاس اب بھی وہی راستہ ہے۔ ٹکراؤ کا راستہ اختیار کرکے پہلے دیکھا جا چکا۔ یہ راستہ کسی کے فائدے کا نہیں۔ ہماری نہیں تو شیخ سعدی کی بات سنیں۔
ترسم نرسی بکعبہ اے اعرابی
کیں رہ تو میروی بترکستان است
(اے اعرابی! مجھے ڈر ہے کہ توکعبہ کبھی نہیں پہنچ سکے گا۔ جس راہ پر تو ہے وہ ترکستان جاتی ہے)