برصغیر پاک و ہند میں جمہوریت کا نظام لایا ہوا تو گوروں کا ہے لیکن دنیا کے اس خطے میں جمہوریت کے نام پر جو تماشے اور نرالے ہتھکنڈے ایجاد ہوئے‘ وہ گوروں کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھے۔ برصغیر کے تین بڑے ملک؛ بنگلہ دیش‘ پاکستان اور بھارت چند مہینوں کے فرق سے باری باری نئے انتخابات سے گزر رہے ہیں اور دنیا نے یہاں جمہوریت کے جو نرالے دائو پیچ دیکھے ہیں‘ وہ کسی اور جمہوری ملک میں ممکن ہی نہیں تھے۔ تینوں ملکوں میں انتخابات پر بہت چیخ و پکار ہوئی ہے۔ ملکوں کے اندر ہی نہیں‘ باہر سے بھی احتجاج ہوئے لیکن جو اپنے اقتدار کا فیصلہ کرکے بیٹھا ہو‘ وہ کسی احتجاج کو خاطر میں نہیں لاتا۔ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد نے جس طرح سارا سیاسی نظام انتقام اور اقتدار کی بھینٹ چڑھایا وہ سب نے دیکھا۔ ہر مخالف آواز کو قید و بند کی کوٹھڑی میں ڈال کر اور ہر اخلاقی قدر کو ملیامیٹ کر کے انہوں نے وہ الیکشن کرایا جو کسی ایک مبصر کی نظر میں بھی منصفانہ کہلانے کا حقدار نہیں تھا۔ ملک کے اندر تو ہر آواز دبا دی گئی‘ انسانی حقوق کی تنظیموں نے جمہوری ملکوں کی آوازیں اٹھائیں لیکن انہیں ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کہہ کر مسترد کر دیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ اب حسینہ واجد کی کرسی پکی ہو چکی ہے اور وہ ٹھسے سے بلا شرکتِ غیرے کم از کم اگلے انتخابات تک تخت پر بیٹھی رہیں گی۔ پاکستان میں انتخابات اس کے بعد ہوئے۔ اور جس طرح ہوئے وہ بھی دنیا نے دیکھا۔ انتخابات سے پہلے جو ماحول بنایا گیا‘ جو فیصلے دیے گئے‘ فارم 45 اور فارم 47 کا غوغا‘ اس کی مثال پہلے کبھی نہیں ملتی۔ بیرونی مبصرین اور مغربی ممالک کی نشاندہی کو مسترد کر دیا گیا‘ ان میں سے کئی ممالک کا احتجاج ویسے بھی رسمی ہی تھا۔ وہی پرانا فارمولا کہ ہم احتجاج کریں گے لیکن پروا نہ کرو‘ اپنا کام کیے جائو۔
بھارت اس کڑی کا تیسرا ملک ہے۔ اس خطے میں رقبے اور آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا بھی۔ وہ اب انتخابات کے مرحلے سے گزرنے والا ہے۔ 19 اپریل کو یہ انتخابات ہوں گے اور یہ اس لحاظ سے ملک کے طویل ترین انتخابات ہوں گے کہ یکم جون تک ان کا سلسلہ چلتا رہے گا جس میں لوک سبھا کے 543 ارکان کا انتخاب ہو گا۔ انتخابات میں 20 دن ہیں‘ اس لیے اس وقت بھارت میں سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اپنے عروج پر ہے۔ الیکشن کیوں اتنے طویل ہیں اور ممکنہ نتائج کیا ہوں گے‘ کون سے سیاسی اتحاد اکھاڑے میں ہیں اور کشتی میں زیادہ تگڑا پہلوان کون ہے‘ یہ الگ بحثیں ہیں جن پر ایک الگ کالم میں تبصرہ کروں گا‘ لیکن جن جمہوری ہتھکنڈوں کا ذکر میں نے تحریر کے ابتدا میں کیا وہ سب اس وقت بھارت میں عروج پر ہیں۔ بھارت میں نگران حکومت کی روایت اور آئینی گنجائش نہیں اس لیے بھی وہاں حکمران جماعت اور برسر اقتدار عہدیداروں کے لیے بہت آسان ہے کہ وہ سرکاری مشینری کو اپنے حق میں تعینات اور استعمال کر لیں نیز اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے مخالفین کو کچل دیں۔ بھارت میں اس وقت یہ سلسلہ زوروں پر ہے۔ انڈین نیشنل کانگریس کے رہنمائوں کے‘ پارٹی کے اور دیگر سیاسی حامیوں کے بینک اکائونٹ منجمد کر دیے گئے ہیں جس کی وجہ سے ان کے لیے بھر پور انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ۔ لیکن بڑا تماشا دہلی میں ہے جہاں 21 مارچ کو برسر اقتدار وزیراعلیٰ اور نریندر مودی کے بڑے سیاسی حریف‘ عام آدمی پارٹی کے اروند کیجریوال کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور وہ اس وقت زیرِ حراست ہیں۔ یہ بھارت میں پہلی بار ہے کہ دہلی کے برسر اقتدار وزیراعلیٰ کو گرفتار کیا گیا۔ اس پر پورے بھارت میں شدید سیاسی بھونچا ل ہے۔ وفاقی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) نے کیجریوال کوگرفتار کر کے یہ الزام لگایا کہ انہوں نے دہلی ایکسائز پالیسی 2021-22ء کے تحت کچھ خاص لوگوں کو فائدہ پہنچایا اور رشوت میں ایک ارب روپے لیے۔ یہ بھی واضح رہے کہ یہ پالیسی پہلے ہی منسوخ ہو چکی ہے۔ کیجریوال کہتے ہیں کہ یہ سیاسی مقدمہ ہے اور مجھے سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تادمِ تحریر وہ حراست میں ہیں اور ان کے پولیس ریمانڈ میں اضافہ ہو چکا ہے۔
لیکن یہ معاملہ پریس میں اور بھارت کے اندر تو زوروں پر ہے ہی‘ بھارت کے باہر بھی اس پر احتجاج ہوا۔ امریکہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اروند کیجریوال پرآزاد مقدمہ چلایا جانا ان کا حق ہے اور امید ہے کہ سیاسی انتقام سے گریز کیا جائے گا۔ یہی بیان جرمنی کی طرف سے بھی آیا۔ بھارت کی حکومت نے ان بیانات پر سخت ردعمل دیا۔ دونوں سفیروں کو طلب کرکے انہیں احتجاجی مراسلے دیے گئے کہ یہ بھارت کے اندرونی معاملے میں مداخلت ہے۔ لیکن امریکہ نے اپنے بیانیے میں تبدیلی نہیں کی اور ایک بار پھر آزاد مقدمے پر زور دیا اور مخالفوں کے بینک اکائونٹ منجمد کرنے پر بھی تنقید کی۔ لیکن بات یہاں نہیں رکی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کے ترجمان نے بھی بیان دیا کہ امید ہے کہ آزادانہ اور منصفانہ ماحول میں ہر ووٹر کو ووٹ کا حق دیا جائے گا اور بنیادی انسانی اور سیاسی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔ سفارتی زبان میں جو زیادہ سے زیادہ بات کی جا سکتی ہے‘ وہ کہہ دی گئی ہے۔ کیجریوال نے اپنی حراست کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی لیکن فوراً ہی واپس لے لی۔ شاید اس لیے کہ انتخابات کے دنوں میں مظلوم رہنے اور گرفتار رہنے میں سیاسی فائدہ نظر آ رہا ہے۔
ایکسائز پالیسی کا معاملہ ہے کیا اور اس میں کیا چیز ایسی تھی جس کا الزام کیجریوال پر ہے؟ بنیادی طور پر یہ الکحل پر ایکسائز ڈیوٹی کی پالیسی تھی۔ یہ پالیسی نومبر 2012ء میں نافذ ہوئی اور جولائی 2022ء میں ختم کر دی گئی۔ دہلی کے چیف سیکرٹری نریش کمار کی رپورٹ کے مطابق وزیر ایکسائز سسوڈیا کے من مانے فیصلوں کی وجہ سے سرکاری خزانے کو 580 کروڑ روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ وزیر ایکسائز کو فروری 2023ء میں گرفتار کر لیا گیا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے مطابق شراب سازوں کو 12 فیصد کا فائدہ پہنچایا گیا جس میں سے چھ فیصد کک بیکس کی صورت میں دیا جانا تھا۔ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کے مطابق ایکسائز پالیسی (جو بعد میں ختم کر دی گئی) کے ذریعے جنوبی بھارت کی ایک بڑی کمپنی کو‘ جسے سائوتھ گروپ کہا جاتا ہے‘ ہول سیل اور ریٹیل سٹورز کے فائدے دے کر اربوں روپے کا فائدہ پہنچایا گیا۔ اس کے عوض اس گروپ نے ایک ارب روپے عام آدمی پارٹی کے لیڈروں کو دیے۔ سائوتھ گروپ کی ایک مبینہ رکن کویتا نامی خاتون ہیں جو تلنگانہ کے سابق وزیراعلیٰ کی بیٹی ہیں۔ ناجائز فائدہ اٹھانے کے الزام میں کویتا کو 15 مارچ کو گرفتار کیا گیا اور اسی کے بعد ای ڈی کا یہ بیان سامنے آیا کہ اروند کیجریوال بھی اس معاملے میں ملوث ہیں۔ کیجریوال کے وکیل نے کہا کہ پالیسی پہلے ہی منجمد ہے اور گواہوں نے جب کیجریوال کا نام ہی نہیں لیا تو انہیں گرفتار کیسے کیا جا سکتا ہے۔
یہ معاملہ کس حد تک سیاسی انتقام کا ہے اور کس حد تک اس میں حقیقت ہے‘ کہنا مشکل ہے۔ بظاہر تو نظر یہ آتا ہے کہ دونوں سیاسی گروپ اس کے سیاسی فائدہ اٹھانے کے چکر میں ہیں جو انہیں موجودہ انتخاب میں نشستیں دلا سکتا ہے۔ مودی اور بی جے پی کو دہلی میں عام آدمی پارٹی کا اثر و رسوخ اور اقتدار بری طرح کھٹکتا ہے۔ کیجریوال اگرچہ طویل مدت سے دہلی میں برسر اقتدار ہیں لیکن ان کی پارٹی نے ملکی سطح پر کوئی خاص ترقی نہیں کی۔ یہ معاملہ مذہبی نہیں لیکن برسبیلِ تذکرہ ذہن میں رہے کہ جہاں تک دہلی اور بھارت کے مسلمانوں کا معاملہ ہے‘ انہیں کیجریوال نے بہت مایوس کیا۔ وہ واضح طور پر مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں پر خاموشی اختیار کیے رہے اور حالیہ فسادات میں بھی مسلمانوں کی دکانوں اور جائیدادوں کو مسمار کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ کیجریوال کی اٹھان امید افزا تھی لیکن اب لوگ مایوس ہیں۔ کیجریوال ایک ایسے رہنما ثابت ہوئے جس کے آغاز میں لوگ نجات دہندہ سمجھ کر اس کی طرف لپکتے ہیں اور بعد ازاں وہ انہی میں سے ایک ثابت ہوتا ہے جو ان کی تکلیفوں میں اضافے کیلئے نمودار ہوا کرتے ہیں۔