سوچ رہا ہوں غزہ کے مسلمانوں‘ شہیدوں کے گھر والوں‘ زخمیوں‘ بے گھروں اور بے سر سامانوں کے لیے یہ عید کیسی ہو گی؟ کون سا گھر ہو گا جہاں بچھڑنے والوں کے زخم تازہ نہیں ہوں گے۔ کون سا گھرانہ ہو گا جہاں کوئی زخمی نہیں ہو گا۔ کون سا خاندان ہو گا جو امدادی خیمے میں نہیں‘ اپنی چھت تلے عید کر سکے گا۔ کس کی جیب میں اتنے پیسے ہوں گے کہ وہ عید کے دن اپنے گھر والوں کے لیے کھانا لا سکے۔ کس کے پاس اتنی رقم ہو گی کہ معصوم بچوں کے کپڑے اور جوتے فراہم کر سکے۔ کون ہو گا جو اپنے بچوں کیلئے کھلونے لے سکے گا اور کوئی کھلونا کیا اس تباہ شدہ خطے میں بچا بھی ہو گا؟ کس دل سے مائیں اپنے بچوں کو عید کیلئے تیار کریں گی؟ وہ دس ہزار نوزائیدہ‘ کمسن‘ معصوم بچے جوصہیونی بربریت کا شکار ہو گئے‘ ان کے ماں باپ‘ بہن بھائیوں پر ان کی جدائی کی پہلی عید کیسی گزرے گی۔ وہ تیس ہزار شہید مسلمان جن میں عورتیں اور بچے زیادہ ہیں‘ ان کے عزیز و اقارب‘ اگر زندہ بچے ہوں‘ تو کس دل سے عید منا سکیں گے؟ وہ وڈیوز اور تصاویر رمضان میں سوشل میڈیا پرگردش کرتی رہی ہیں جن میں بچوں‘ بڑوں اور بوڑھوں کے عزم کا اظہار ہوتا ہے۔ آج ہی کی ایک خبر نے دل کاٹ کر رکھ دیا کہ شمالی غزہ میں مطلوبہ ضرورت کی صرف 12 فیصدکیلوریز پر لوگ زندہ ہیں۔ جس محدود پیمانے پر امداد پہنچائی جا رہی ہے وہ اتنی ناکافی ہے کہ عملاً وہاں قحط کی صورتحال ہے۔ جس طرح سسکا سسکا کر انہیں غذا اور ادویات پہنچائی جا رہی ہیں‘ اس طرح جانوروں کو بھی مدد نہیں ملتی۔ ہسپتالوں کو مسلسل بمباریوں سے تہس نہس کر دینے کے بعد قریب المرگ مریضوں اور نوزائیدہ بچوں تک کو وہاں سے نکال کر خالی کروا لیا گیا ہے۔ بہت سی اموات اسی وجہ سے ہوئی ہیں۔ یہ خبر بھی آئی کہ اس وقت 200 کے قریب کمسن بچے اسرائیلی قید میں ہیں۔ اللہ نے فلسطینی مسلمانوں کو بے مثال حوصلے‘ عزم اور استقامت سے نوازا ہے۔ موجودہ دور میں ایسی غیر معمولی ہمت کی مثال کوئی دوسری نہیں ملے گی۔ حماس کے سربراہ اسماعیل ہانیہ نے تازہ بیان میں کہا ہے کہ مکمل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیلی انخلا کے مؤقف پر ہم بدستور قائم ہیں۔ وہ جھکنے اور اسرائیل کی شرائط ماننے سے انکاری ہیں‘ جو بڑی استقامت ہے۔ لیکن اگر عام شہریوں کے نقصانات کا سوچیں تو دل پھٹنے لگتا ہے۔ کتنا بھی کوئی حوصلہ مند ہو‘ بچھڑنے والے کی جدائی تو دل چیر کر رکھ دیتی ہے۔
رمضان کے آخری عشرے میں بھی اسرائیلی فائرنگ جاری ہے۔ فائرنگ بھی کس پر؟ ان نہتے بے سرو سامان شہریوں پر‘ جو ہر طرف سے سمٹ اور اجڑ کر رفح اور خان یونس کی پٹی میں جمع ہیں۔ جہاں سے ان کے آگے جانے یا پیچھے ہٹنے کے راستے ہی نہیں۔ کوئی دن نہیں جاتا جب کچھ نئی فلسطینی لاشیں نیتن یاہو کی بھینٹ نہ چڑھتی ہوں۔ اس کے جنون کا اندازہ اس سے لگائیں کہ ورلڈ سینٹرل کچن نامی ایک امدادی‘ فلاحی تنظیم کے‘ جو غزہ میں انسانی جانیں بچانے میں مصروف ہے‘ سات کارکن وحشیانہ فائرنگ میں اپنی جانیں کھو بیٹھے۔ ساری دنیا میں اس کی مذمت کی گئی اور متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔ لیکن مجھے حیرانی ہوتی ہے کہ تیس ہزار مردوں‘ عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کے بعد بھی جن مسلم ملکوں کے دل نہیں ہلے‘ سات امدادی کارکنوں کی ہلاکتوں پر ان کے دل پھٹنے لگے؟ امدادی کارکن اس قافلے کا حصہ تھے جو امدادی سامان لے کر جا رہا تھا اور اس نے اپنی نقل و حرکت اور راستے سے اسرائیلی فوج کو مطلع کر رکھا تھا۔ اس کے باوجود اس پر ڈرون حملہ کیا گیا۔ آج ہی اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے پاکستان کی پیش کردہ ایک قرارداد منظور کی ہے جس کے تحت اسرائیل کو جنگی جرائم اور نسل کشی کا مرتکب قرار دیا گیا ہے اور اسے ہر قسم کا اسلحہ فراہم کرنے پر پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ امریکہ اور جرمنی کی مخالفت کے باوجود 28 ارکان کی اکثریت سے قرار داد منظور کی گئی۔ اگرچہ یہ پہلی بار ہے کہ اس اہم ذیلی ادارے نے فلسطینیو ں کی نسل کشی پر واضح مؤقف اختیار کیا لیکن میں یہ سوچتا ہوں کہ ایسی قراردادوں سے اب تک ایک عالمی‘ اخلاقی دبائو کے علاوہ کیا فائدہ ہوا ہے؟ اسرائیل خود کو ہر عالمی اور اخلاقی دبائو سے ہمیشہ بالاتر سمجھتا آیا ہے۔ مسلم ممالک تو بے حمیتی میں اپنی مثال آپ ہیں ہی لیکن سچ یہ ہے کہ اکا دکا مثالوں مثلاً آئرلینڈ سے قطع نظر‘ گوری چمڑی کے ممالک نے بھی غزہ کے معاملے پر جس سنگ دلی اور بے حسی کا ثبوت دیا وہ ناقابلِ تردید ہے۔ اس کی ایک مثال یہ دیکھیں کہ تین ماہ پہلے انسانی مدد کے طور پر کینیڈا نے اعلان کیا تھا کہ وہ غزہ کے شہریوں کو بچانے کیلئے خصوصی ویزا جاری کرے گا لیکن عملاً تین ماہ میں ایک فلسطینی کو بھی یہ ویزا نہیں مل سکا۔ یہ ان ممالک کا رویہ ہے جو انسانی ہمدردی کے نام پر تڑپ اٹھتے ہیں۔
عید صرف غزہ پر نہیں‘ پورے عالم اسلام پر اتر رہی ہے۔ وہ عالم اسلام جو اس وقت طرح طرح کے زخموں سے چور ہے۔ عید خوشیوں بھرے دن کا نام ہے۔ بے فکر دن کا نام ہے۔ جن کے قریبی عزیز‘ بہن بھائی اور والدین بچھڑ گئے ہوں‘ وہ اس دن کیسے خوش ہو سکیں گے۔ ذاتی حوالوں سے بھی میں سوچوں تو عام حالات میں بھی بے فکری کی زندگی والدین کے انتقال پر ختم ہو جاتی ہے۔ میرے والد کی زندگی میں جب انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا تو میں دعائیں پڑھ کر ان پر پھونکا کرتا تھا۔ ان کے جدا ہو جانے کا اندیشہ بھی دل سے گزرتا تو لرز اٹھتا تھا اور سوچتا تھا کہ ایسا ہوا تو شاید ہم بھی زندہ نہیں رہیں گے۔ لیکن یہی مقدر تھا۔ ایسا ہو گیا اور آج عشرے گزر جانے کے بعد بھی ہم نہ صرف زندہ بلکہ زندگی میں زیادہ مگن ہیں۔
کہتے تھے ہم نہ دیکھ سکیں روزِ ہجر کو
پر جو خدا دکھائے سو ناچار دیکھنا
کچھ سال کے بعد امی بھی چلی گئیں جن کے جانے کا تصور بھی نہیں تھا کیونکہ وہ ایسی کوئی بیمار بھی نہیں تھیں۔ ان دو عیدوں کی کڑواہٹیں بھی اب تک ذائقوں میں محفوظ ہیں جو والدین کے بچھڑ جانے کے بعد ہم پر گزری تھیں۔ لذیذ ترین لقمہ بھی ناقابلِ بیان کڑواہٹ کے ساتھ حلق سے اترتا تھا۔ لیکن یہ گزرتے زمانوں اور بدلتی کیفیات کا عجیب نظام ہے اللہ کا۔ یہ نہ ہو تو کلیجے پھٹ جائیں اور زندگی ہمیشہ کیلئے تلخ ہوکر رہ جائے۔ غزہ کے شہیدوں کے اہلِ خانہ کو اللہ ہمت اور استقامت دے۔ زندگی کسی طرح بہرحال گزر ہی جاتی ہے۔ غزہ کے مسلمانوں کا معاملہ تو الگ لیکن عام حالات میں بھی زندگی کی طرح‘ عید بھی آتی ہے اور گزر جاتی ہے۔ خوشیوں‘ اداسیوں اور جدائیوں کی ملی جلی کیفیات کے ساتھ۔ کسی گھر میں مسکراہٹیں اور قہقہے لے کر آتی ہے اور کہیں آنسو۔ یہی بار بار ہوتا ہے‘ بس ہر بار گھرانوں کی ترتیب بدلتی جاتی ہے۔ یہ سب غم اور سب خوشیاں ہر بار اس دن آتی ہیں اورعید پر ان خوشیوں غموں کی شدت ہر دوسرے دن سے زیادہ ہوتی ہے۔ بارِ الٰہا! یہ دن کتنا مختلف ہے اور یہ دنیا کیسی عجیب ہے۔
ہمیشہ اپنے بڑوں سے سنا کہ عید تو بچوں کی ہوتی ہے۔ ہم اس وقت بچے تھے اور اس بات پر اتراتے پھرتے تھے کہ دیکھا! ان سب کی عید ہمارے دم سے ہے۔ اب اس جملے کے درست معنی سمجھ میں آتے ہیں۔ انسان جیسے جیسے بڑا ہوتا ہے اس کے زخم بھی اس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں خواہ وہ کتنے پرانے ہی کیوں نہ ہو چکے ہوں۔ ہزار جدائیاں ساتھ ہوں‘ کچھ قریب‘ کچھ فاصلے پر‘ تو انسان کیا خوش ہو اور کیا عید منائے۔ لیکن دنیا اسی طرح مناتی رہے گی حتیٰ کہ عید کا وہ دن آ جائے گا جس کی میاں محمد بخش نے نوید دی تھی۔
لے او یار حوالے رب دے میلے چار دناں دے
اس دن عید مبارک ہوسی جن دن فیر ملاں گے
(اچھا تو پھر دوست! رب کے حوالے۔ یہ میلے تو چار دن کے ہیں۔ اُس دن عید مبارک ہو گی جس دن ہم دوبارہ ملیں گے)