آپ سب کو سب سے پہلے عید الاضحی اور حج کی مبارک۔ عالم اسلام پر ذوالحجہ کا مہینہ سایہ فگن ہے‘ مگر عالم اسلام زخموں میں عید قربان منا رہا ہے۔ قربانیاں ہر طرح کی ہیں۔ اپنی جانوں‘ اپنے مالوں اور اپنے جانوروں کی۔ اس اُفق سے جہاں سورج کی کرنیں سب سے پہلے مٹیالی زمین پر پڑتی ہیں‘ اُس زمین تک جو سورج کو سمندر میں غروب ہوتے دیکھتی ہے‘ بندگانِ عشق عید الاضحی منا رہے ہیں‘ ان با پ بیٹے کے عشق کے اتباع میں جن میں ایک کا نام ابراہیم اور لقب خلیل اللہ تھا‘ اور دوسرے کا نام اسماعیل اور لقب ذبیح اللہ ہے‘ علیہما السلام۔ ''چنانچہ جب دونوں نے سر جھکا دیا اور باپ نے بیٹے کو پیشانی کے بل لٹا دیا۔ اور ہم نے انہیں آواز دی کہ اے ابراہیم! تم نے خواب کو سچا کردکھایا۔ یقینا ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں۔ یقینا یہ کھلا ہوا امتحان تھا۔ اور ہم نے ایک عظیم ذبیحے کا فدیہ دے کر اس بچے کو بچا لیا۔ اور جو لوگ ان کے بعد آئے ان میں یہ روایت قائم کی۔ سلام ہو ابراہیم پر۔ ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح صلہ دیتے ہیں‘‘ (سورہ الصافات: 103 تا 110) لیکن عید قربان پر بات مکمل نہیں ہوتی۔ ذوالحجہ کے دنوں کا ایک اور بڑا واقعہ حج ہے۔ لاکھوں عشاق نے ہفتے کو عرفات میں یوم عرفہ گزارا۔ وہ منیٰ کی وادی سے عرفات پہنچے اور پھر عرفات سے مزدلفہ۔ اس کے بعد رمی کیلئے واپس منیٰ اور پھر اللہ کے گھر کعبہ المشرفہ کا طوافِ زیارت۔ ان تمام لوگوں کو میری طرف سے حج مبارک جو اس فریضے کیلئے وہاں پہنچے ہوئے ہیں یا ان کے عزیز حج ادا کرنے گئے ہوئے ہیں۔
یوم عرفہ کا ذکر آتا ہے تو میرے ذہن میں اپنے سفرِ حج کی تصویریں چلنے لگتی ہیں۔ 28 سال پہلے‘ 1996ء میں ہم تین مردوں اور چار خواتین پر مشتمل یہ چھوٹا سا قافلہ حج کیلئے نکلا اور یہ ہم سب کا فرض حج تھا۔ ہمیں 40 دن حرمین میں رکنا تھا اور اکثر کی یہ حرمین شریفین کی پہلی حاضری تھی۔ بات اگرچہ 28 سال پہلے کی ہے لیکن آج کے انتظامات‘ طریق کار اور اخراجات وغیرہ کو دیکھوں تو یہ ایک صدی پہلے کی بات معلوم ہوتی ہے۔ اس عرصے میں وہاں کی دنیا ہی منقلب ہو گئی۔ باقی چیزوں کوچھوڑیں‘ صرف منیٰ‘ عرفات اور مزدلفہ کی بات کروں تو موجودہ انتظامات سے اسے کوئی نسبت ہی نہیں۔ اُن دنوںمنیٰ‘ مزدلفہ‘ عرفات میں کھانے کا کوئی باقاعدہ انتظام نہیں تھا اور اکثر کچھ ملتا بھی نہیں تھا۔ لوگ یا تو خود انتظام کرکے ساتھ لے جاتے یا بھوکے رہتے۔ ہمارے ساتھ جو خواتین تھیں‘ وہ پہلے سے کچھ بیمار تھیں اور اس سفر میں ان کی طبیعت مزید خراب ہو گئی۔ وہ زیادہ پیدل چلنے کے بھی قابل نہ رہیں۔ مردوں کی بھی حالت زیادہ اچھی نہ تھی۔ حج کا سفر آج بھی پُرمشقت ہے‘ 28 سال قبل تو یہ صحتمندی میں بھی نہایت کٹھن اور دشوار دن تھے۔ ہر مرحلے پر غیر متوقع حالات پیش آ جاتے تھے۔ مجھے امیر قافلہ بنایا گیا تھا اور میری فکر یہ تھی کہ بیماروں کے ساتھ یہ سفر کیسے مکمل ہو گا۔ جب یہ پتا چلا کہ منٰی میں کھانے پینے کا کوئی انتظام نہیں تو ہم مکہ مکرمہ سے کھانا بنا کر ساتھ لے گئے۔ سخت گرمی کے دن تھے۔سنبلہ کا موسم‘ کھجوریں پکنے کا عرب کا گرم ترین موسم ہے۔ ناقابلِ برداشت گرمی سے اندازہ ہوتا تھا کہ چودہ سو سال پہلے کا عرب اور اس کی مشکلات کیا ہوں گی۔ ہم رات کے وقت منیٰ پہنچے اور کپڑے کے جس خیمے میں ہمارا انتظام تھا‘ اسے دیکھ کر حالت مزید خراب ہونے لگی۔ ایک سادہ سا بڑا خیمہ‘ جس میں پندرہ بیس لوگوں نے ٹھہرنا تھا۔ اس کی چھت میں جابجا بڑے شگاف تھے۔ زمین پر سادہ دریاں اور ان پر مٹی بچھی تھی۔ ایئر کنڈیشنر کا کیا سوال‘ ایئر کولر بھی نہیں تھا۔ شاید ایک پنکھا اور ایک کونے میں پانی کا کولر تھا۔ باہر کچھ فاصلے پر باتھ روم تھے‘ جن کے باہر ہر وقت قطار لگی رہتی تھی۔ ہم کسی نہ کسی طرح ایک کونے میں اپنی چادریں بچھا کر سو گئے لیکن اتنی گرمی میں نیند آنا مشکل تھا۔ فجر کے وقت کچھ دیر کیلئے آنکھ لگی اور ایک دو گھنٹے بعد کھل گئی کیونکہ غضبناک سورج چھت کے شگافوں سے سیدھا ہمارے چہروں پر نازل ہو رہا تھا۔ جو کھانا ساتھ لائے تھے وہ رات بھر کی گرمی کی تاب نہ لا کر خراب ہو چکا تھا۔ منیٰ میں اکثر لگنے والی ہلاکت خیز آگ اُن دنوں عام تھی۔ اس لیے کسی قسم کے چولھے کی اجازت نہیں تھی۔ اب چند جوس کے ڈبے جو حاجیوں کیلئے لوگ مفت تقسیم کیا کرتے‘ اور چند بسکٹ ہمارا ناشتہ تھے۔ خیمے سے باہر نکل کر زیادہ دور جانا خطرناک تھا کیونکہ ایک جیسے خیموں میں اپنے خیمے تک واپس پہنچنا نہایت مشکل تھا۔ منیٰ کا وہ پہلا دن ہم نے جیسے تیسے بھوکے رہ کر گزارا۔ اب فکر تھی کہ بیماروں کے ساتھ عرفات کیسے پہنچیں گے۔ بسوں میں ٹریفک جام کی وجہ سے سات آٹھ گھنٹے لگ جانا معمول تھا۔ ہم نے طے کیا کہ علیٰ الصباح پہلی بس میں عرفات چلے جائیں گے۔ رات کو نیند آ ہی نہیں سکی اور تہجد کے وقت ایک بس آئی تو ہم اس میں عرفات پہنچ گئے۔ یہ سب سے پہلے عرفات پہنچنے والی بسوں میں سے تھی۔ عرفات کا خیمہ بڑا تھا اور جب ہم پہنچے تو ہمارے سوا کوئی اور نہ تھا۔ جاتے ہی سب لیٹ گئے۔ بیماروں کی حالت مزید خراب ہو چکی تھی اور بھوک اور بے خوابی نے سب کے جسموں میں خیمے گاڑے ہوئے تھے۔ یہ 9 ذی الحجہ‘ یوم عرفہ تھا۔ حج کا رکنِ اعظم اور سب سے اہم دن! دعائوں اور عبادتوں کا دن! مجھے فکر تھی کہ آج کا دن اہم ترین ہے اور یہ اس حالت میں کیسے گزرے گا۔ اگر ابھی کچھ کھانے کو نہیں ملا تو کیا ہو گا۔ ہم میںتو کھڑے ہونے کی طاقت‘ اٹھنے کی ہمت بھی نہیں تھی لیکن میں ہمت کر کے اٹھا اور خیمے سے باہر کھانے کی تلاش میں نکلا۔
آج بھی میرے سامنے وہ منظر اسی طرح ہے۔ میں میدانِ عرفات میں‘ خیمے کے باہر کھڑا ہوں‘ تہجد کے وقت کا اندھیرا آہستگی سے جھٹپٹے میں بدل رہا ہے۔ ہوا چل رہی ہے۔ اردگرد ریتیلا صحرا ہے‘ جس میں برائے نام درخت یا جھاڑیاں ہیں۔ کوئی چیز ٹھیک سے نظر نہیں آتی‘ صرف پرچھائیاں سی ہیں۔ مجھے کچھ فاصلے پر کوئی پرچھائیں سی نظر آئی۔ شاید کوئی چھوٹا سا درخت یا جھاڑی‘ جس کے نیچے کوئی بیٹھا ہے۔ میں اُس طرف چل پڑا۔ قریب پہنچا تو دیکھا کہ داڑھی والے ایک صاحب‘ سفید کپڑوں میں چوکی یا تخت پر اکیلے بیٹھے ہیں۔ کرتا پاجامہ اور سہارنپوری انداز کی کپڑے کی ٹوپی۔ جیسے انڈو پاک کے کوئی بزرگ۔ ان کے پاس المونیم کا ایک بڑا سا دیگچہ تھا اور ایک چھوٹا برتن۔ میں نے پوچھا: آپ کے پاس کیا ہے۔ وہ اردو بولتے تھے۔ بولے: آلو گوشت کا شوربہ اور روٹیاں۔ میں نے دیگچے میں جھانکا۔ یہ خوش رنگ شوربہ تھا‘ جس میں کٹے ہوئے بڑے بڑے آلو پڑے تھے۔ میں باقی سب کچھ بھول گیا۔ ہمیں کھانا مل گیا تھا۔ میرے پاس ڈسپوز ایبل پلیٹیں تھیں۔ میں جتنا کھانا اور روٹیاں ہاتھوں میں اٹھا سکتا تھا‘ اٹھا لیا۔ یاد پڑتا ہے کہ وہ توے کی چپاتیاں تھیں۔ کسی طرح انہیں سنبھالے میں واپس آیا۔ خیمے میں داخل ہوتے ہی شوربے کی خوشبو نے ساتھیوں کو جگا دیا۔ ہم سب کھانے پر ٹوٹ پڑے۔ پیٹ بھر کر کھانا کئی وقت کے بعد ملا تھا۔ گویا کسی نے نئی جان ڈال دی۔ کھانا کھا لیا تو میں نے سوچا کہ میں کچھ اور کھانا لے کر رکھ لوں۔ شاید بعد میں ضرورت پڑے۔ میں دوبارہ نکلا۔ اسی طرف گیا لیکن بہت تلاش کے باوجود وہ بزرگ مجھے نہ مل سکے۔ میں حیران ہو گیا کہ اتنی سی دیر میں وہ کہاں چلے گئے؟
آج بھی میں حیران ہوکر سوچتا ہوں وہ کون تھے؟ اردو بولنے والے بزرگ۔ سفید کرتا‘ پاجامہ‘ کپڑے کی سہارنپوری ٹوپی‘ یو پی میں بننے والا خوشبودار روایتی آلو گوشت‘ چپاتیاں۔ یہ سب عرفات میں تہجد کے وقت کہاں سے آیا؟ صرف آدھے گھنٹے میں وہ کہاں چلے گئے؟ اس وقت تو عرفات میں بہت کم لوگ تھے۔ ان کے پاس کوئی گاہک مجھے تو نظر ہی نہیں آیا‘ اتنی جلدی یہ سب کیسے بک گیا؟ زندگی کے بہت سے واقعات عجیب ہوتے ہیں۔ سمجھ ہی نہیں آتے۔ حج کے اس سفر میں کئی واقعات قابل ِذکر ہیں لیکن یہ واقعہ میرے لیے آج بھی ناقابلِ توضیح ہے۔ میں اس کی کوئی درست تشریح آج بھی نہیں کر سکتا۔ نہ اس پر کسی طرح کا کوئی عنوان لگا سکتا ہوں۔ کیا آپ اسے عنوان دے سکتے ہیں؟ سوائے اس کے کہ یہ کوئی غیبی مدد تھی۔