"SUC" (space) message & send to 7575

قرارداد مقاصد اور مولانا شبیر احمد عثمانی …(5)

مولانا ظفر احمد عثمانی اس ملاقات کے بارے میں لکھتے ہیں ''اس پر میں نے کہا کہ میں ان شاء اللہ سلہٹ کا محاذ سنبھال لوں گا۔ اور مولانا شبیر احمد عثمانی نے فرنٹیئر کے محاذ کا وعدہ کیا۔ اس پر قائداعظم کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا اور کھڑے ہوکر ہم سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا: خدا آپ کو اور آپ کے ذریعے پاکستان کو کامیاب کرے‘‘۔
15 جون 1947ء کو علامہ شبیر احمد عثمانی بیماری کی حالت میں سخت گرمی میں روانہ ہوئے۔ ان کے ہمراہ میرے دادا مفتی محمد شفیع صاحب اور میرے والد گرامی جناب زکی کیفی بھی تھے۔ خیبر بازار پشاور میں کتابوں کی ایک دکان کے بانی میاں فضل منان تھے اور جناب عبد الرشید ان کے منیجر تھے۔ ایک بار عبدالرشید صاحب نے مجھے اس دورے کی تصاویر دکھائی تھیں۔ علامہ عثمانی پیرانہ سالی کے ساتھ اس جسمانی مشقت کے عادی نہیں تھے لیکن بلا کی گرمی میں انہوں نے پشاور‘ ایبٹ آباد‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ مردان‘ مانسہرہ‘ قبائلی علاقوں اور بستیوں سمیت صوبہ سرحد کا طوفانی دورہ کیا۔ اور ہر جگہ ہوا کا رخ ہی بدل دیا۔ پیر مانکی شریف اور پیر زکوڑی شریف کی مخلصانہ کوششیں شروع سے ساتھ تھیں۔ خان برادران کا زور ٹوٹ چکا تھا اور رائے عامہ بدل چکی تھی۔ 8 جولائی 1947ء کو ریفرنڈم ہوا۔ علامہ کی کوششوں کا اثر دیکھیے کہ 2لاکھ 89 ہزار 244 ووٹ پاکستان کے حق میں اور صرف 2874 ووٹ مخالفت میں پڑے تھے۔ پاکستان کو کامیابی نصیب ہوئی تھی۔ 6 جولائی کے سلہٹ ریفرنڈم میں بھی مولانا ظفر احمد عثمانی کی کوششیں رنگ لائی تھیں۔ 56 فیصد ووٹ پاکستان کے حق میں پڑے تھے‘ وہ بھی پاکستان کا حصہ بن گیا تھا۔ تنہا یہ ریفرنڈم ہی علامہ عثمانی کے بڑے احسانات میں سے ہے۔ اگر صوبہ سرحد ہندوستان کو مل گیا ہوتا تو پاکستان کیسا نامکمل رہ جاتا۔ ادنیٰ سا طالب علم بھی جانتا ہے کہ علمی اور دینی مرتبے کے ساتھ ساتھ ان حضرات کا تحریک پاکستان میں بھی کیا مقام تھا۔ ایسے محسن کیلئے زبانِ طعن دراز کی جائے تو جواب لازمی ہے۔ قراردادِ مقاصد بھی ان حضرات کی بیش بہا خدمت تھی‘ خواہ یہ ایک محدود طبقے کے سینے میں خنجر بن کر ہی اتری۔
میں ان تاریخی مغالطوں کی طرف آتا ہوں جو معاصر کالم نگار نے دینے کی کوشش کی ہے ''مولانا شبیر احمد عثمانی 1944ء میں حیدر آباد دکن کی مکی جامع مسجد میں پیش امام تھے‘‘۔ (11مئی 2024ء)۔ ''میر عثمان علی خان کے وظیفہ خوار اور نواب بہاولپور کے مشیر‘‘ (3 جون 2024ء)۔ حسبِ معمول ان کا کوئی حوالہ نہیں دیا گیا۔ موصوف کی یہ معلومات کس بنیاد پر ہیں؟ 1944ء میں تو مولانا شبیر احمد عثمانی ڈابھیل‘ ضلع سورت‘ گجرات کی جامعہ میں شیخ الحدیث کے فرائض انجام دے رہے تھے۔ گجرات اور حیدر آباد دکن کا فاصلہ لگ بھگ 1300 کلو میٹر ہے۔درست تاریخ یہ ہے: ''مولاناشبیر احمد عثمانی مدظلہ 22 ربیع الاول 1362ھ کو ڈابھیل روانہ ہوگئے ہیں‘‘ (رسالہ دارالعلوم‘ 1361‘ص: 31)۔24 ربیع الاول بمطابق جنوری 1944ء سے آپ کا سلسلہ تدریس ڈابھیل میں شروع ہوا۔ شعبان 1362ھ کے سالانہ امتحان کے بعد ڈابھیل سے دیوبند تشریف لائے۔ پھر شوال 1363ھ میں جامعہ کھلنے کے بعد تشریف لے گئے اور 1363ھ مطابق 1944ء کے پورے تعلیمی سال میں شعبان 1363ھ تک پڑھاتے رہے۔ چار ذی الحجہ 1363ء کو علامہ دیوبند میں تھے۔ اس تاریخ کو انہوں نے ڈابھیل میں اپنے شاگرد مولانا محمد یوسف بنوری کو ایک خط تحریر کیا ہے۔ علامہ لکھتے ہیں: ''آپ کا مفصل خط پہنچا۔ میری چلنے پھرنے کی معذوری بدستور ہے‘‘۔ معلوم ہوتا ہے ڈابھیل سے واپسی پر دیوبند میں مرض لاحق ہوا اور علامہ واپس ڈابھیل نہ صجاسکے (حیاتِ عثمانی‘ ص: 476)۔ مختصراً‘ 1944ء میں علامہ ڈابھیل میں شیخ الحدیث کے منصب پر حدیث کا درس دے رہے ہیں۔ امام مسجد کوئی چھوٹا رتبہ نہیں لیکن یہاں ان کی تذلیل کی نیت سے یہ بات تراشی گئی ہے کہ وہ 1944ء میں مکی جامع مسجد‘ حیدر آباد دکن میں امام مسجد تھے۔ یعنی نظام دکن کے ملازم تھے۔ امام مسجد کے فرائض میں پنج وقتہ نمازوں کی ادائیگی شامل ہے‘ اس لیے وہ عام طور پر مسجد سے دور نہیں جا سکتا۔ تو علامہ ایسے میں سفر کیسے کیا کرتے تھے؟ تاریخ کو مسخ کرنے والا ہی یہ بے سروپا بات کہہ سکتا ہے۔
حیدر آباد دکن یا دیگر مسلم ریاستوں سے علامہ عثمانی کا کیا تعلق تھا؟ وہی جو مسلم مشاہیر‘ اہلِ علم کا تھا۔ وہی جو شبلی‘ سید سلیمان ندوی‘ علامہ اقبال کا تھا۔ کیا موصوف علامہ اقبال کا قد گھٹانے کیلئے یہ کہیں گے کہ وہ فلاں ریاست کے وظیفہ خوار تھے؟ کیا یہ ڈھکی چھپی بات ہے کہ مسلم والیانِ ریاست کتابوں کی اشاعت‘ تعلیمی اداروں کے قیام‘ فلاحی منصوبوں‘ اہلِ علم اور اہلِ ہنر کو وظائف دینے‘ اپنی ریاست میں اہم مناصب پر فائز کرنے جیسے کاموں میں اپنا اعزاز سمجھ کر پیش پیش رہتے تھے۔ کیا کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج کا بہاولپور بلاک نواب بہاولپور نے نہیں بنوایا تھا؟ کیا ایچی سن کالج کا بہاولپور بورڈنگ ہاؤس نواب سر صاد ق کا عطیہ نہیں تھا؟ کیا بھوپال کے آخری نواب حمید اللہ خان علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نہیں تھے؟ کیا پاکستان بننے کے پہلے سال جب تنخواہوں کیلئے پیسے نہیں تھے‘ نواب بہاولپور نے نو کروڑ روپے کی رقم‘ 22 ہزار ٹن گندم پاکستان کو نہیں دی تھی۔ مہاجرین کیلئے پانچ لاکھ کی رقم عطیہ نہیں کی تھی؟ تو کیا اس وقت کے قائدین کو نواب بہاولپور کا وظیفہ خوار یا مقروض کا طعنہ دیں گے؟ کیا نواب بہاولپور کا ملیر کراچی میں 45 ایکڑکا ذاتی شمس محل‘ گورنر جنرل قائداعظم کی نجی رہائشگاہ نہیں بنا تھا؟ کیا کہیں گے اس بارے میں؟
نظام حیدرآباد دکن کی سرپرستی سے اس زمانے کے جو فلاحی تعلیمی کام ممکن ہوئے اس کیلئے تاریخ پڑھ لینی چاہیے۔ 1927ء میں جب علامہ عثمانی پہلی بار حیدر آباد گئے اور نظام دکن ان سے نہایت متاثر ہوئے تو اپنے محکمہ فتویٰ پر ایک ہزار روپے ماہوار پر انہیں مقرر کرنا چاہا لیکن علامہ نے قبول نہیں کیا۔ یہ پیشکش رد کرکے علامہ نے اسی سال ڈابھیل میں سو روپے اعزازیہ پر حدیث کی تدریس سے آغاز کیا تھا۔ پھر جب 1937ء میں انہیں صدر دارالعلوم مقرر کیا گیا تو ''صدارت کے زمانے میں علامہ عثمانی نے کوئی پیسہ دارالعلوم سے تنخواہ کا نہیں لیا‘‘۔(حیا تِ عثمانی‘ ص: 421)۔ مکالمۃ الصدرین نامی رسالے میں بھی اس کا ذکر ہے جو مولانا شبیر احمد عثمانی‘ مولانا حسین احمد مدنی‘ مفتی کفایت اللہ دہلوی‘ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی‘ مولانا عتیق الرحمن سنبھلی وغیرہ جیسے مشاہیر کے بیچ مسلم لیگ اور کانگریس کے مؤقف پر تفصیلی مکالمہ ہے۔ علامہ عثمانی پر بے بنیاد الزامات کے بجائے معترض حضرات یہ کیوں نہیں بتاتے کہ جوش ملیح آبادی‘ ماہر القادری‘ فانی بدایونی جیسے شعرا کتنی مدت میر عثمان علی خان کے نوکر رہے تھے۔ وہ یہ کیوں نہیں بتاتے کہ قائداعظم اور علامہ اقبال ریاستِ بہاولپور کے قانونی مشیر رہے اور سر شیخ عبدالقادر 1942ء سے 1946ء تک بہاولپور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس رہے۔ وہ یہ بھی بتائیں کہ حفیظ جالندھری کتنا عرصہ بطور درباری شاعر نواب بہاولپور کے ملازم رہے۔
لکھنے والا تاریخ اس وقت مسخ کرتا اور ہرزہ سرائی کرتا ہے جب علمی دلائل کا شدید قحط ہو۔ نیز اس وقت جب لکھنے والے نے اپنا لکھا دوبارہ پڑھنا گوارا نہ کیا ہو۔ موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ مولانا شبیر احمد عثمانی ابتدائی طور پر علمائے دیوبند سے تعلق رکھتے تھے‘ وہ شاید جمعیت علمائے ہند لکھنا چاہتے تھے اور اس بات پر طنز کرنا چاہتے تھے۔ لیکن بہتر اور بڑا طنز یوں ہوتا کہ قائداعظم ابتدائی طور پر کانگریس سے تعلق رکھتے تھے۔ بار بار بغیر حوالوں کے علامہ عثمانی کی طرف مختلف باتیں منسوب کی گئیں۔ وہ لوگ جو علامہ کا مزاج جانتے ہیں جو ان کی تقریر‘ کتب اور تعلیمات میں موجود ہیں‘ وہ ان پر یقین کر ہی نہیں سکتے۔ بغیر حوالوں کے کسی بات کا جواب دینا بھی بیکار ہے۔ میں اوپر واضح کر چکا ہوں کہ ناقدین کا تحقیقی معیار ہے کیا۔ (ختم)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں