گورو نانک دیو یونیورسٹی امرتسر کی پارکنگ میں تین بسوں اور گاڑیوں سمیت یہ قافلہ ٹھہرا۔ ہم اُترے تو سامنے یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور دیگر اساتذہ خیر مقدم کیلئے کھڑے تھے۔ کچھ طالبات گیندے کے ہار لیے استقبال کیلئے کھڑی تھیں۔ جتنی دیر میں ہمارے قافلے کے سینئر اراکین سے معانقہ کرکے گرم جوش خیر مقدمی کلمات کہے گئے‘ میں نے ایک نظر اپنے سامنے پھیلی یونیورسٹی پر ڈالی۔ یہ کافی بڑی یونیورسٹی تھی۔ دور تک عمارتیں اور سبزہ زار نظر آتے تھے۔ اندازہ ہونے لگا کہ یونیورسٹی امرتسر شہر سے کہیں باہر ہے ورنہ گنجان شہروں میں اتنی جگہ میسر آنا ممکن نہیں۔ یہ اندازہ درست نکلا۔ پتا چلا کہ یہ سرکاری یونیورسٹی امرتسر کے مضافات میں شہر سے پانچ میل دور کوٹ خالصہ میں واقع ہے اور 500 ایکڑ میں پھیلی ہوئی ہے۔ 20 ہزار کے لگ بھگ طلبہ و طالبات یہاں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میں سکھ اکثریت میں ہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ بھارتی ہاکی ٹیم کا کپتان اجیت پال سنگھ بھی‘ جو زبردست فل بیک تھا‘ اسی یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔ ابھی میں اردگرد دیکھ ہی رہا تھا کہ جامنی قمیص اور گلابی گھگھرے میں ملبوس ایک لڑکی نے گیندے کا ہار میرے گلے میں بھی ڈال دیا۔ یہ دونوں رنگ اس لیے یاد رہے کہ اس طرح کا امتزاج پاکستان میں کبھی نظر نہیں آیا۔ لیکن بھارتی پنجاب کے اس دورے میں ایسے کمبی نیشنز جگہ جگہ نظر آئے۔ پورے قافلے کا فرداً فرداً تعارف تو ممکن ہی نہیں تھا اس لیے وائس چانسلر (غالباً ڈاکٹر ایس پی سنگھ) نے سب کو پنجابی اور انگریزی میں خوش آمدید کہا۔ چونکہ ہمیں رات سے پہلے پٹیالہ پہنچنا تھا اس لیے امرتسر میں یہ پڑاؤ دوپہر کے کھانے اور مختصر سے ثقافتی شو کیلئے تھا۔ کھانے کیلئے ایک بڑے ہال میں بفے سجایا گیا تھا جس میں گوشت خوروں اور سبزی خوروں‘ دونوں کیلئے بہت سے کھانے چنے ہوئے تھے۔ بھوک بہت لگ چکی تھی اور ادب آداب مانع نہ ہوتے تو سب کھانے پر ٹوٹ پڑنا چاہتے تھے۔
بھارت میں لیکن کھانے کا مسئلہ اتنا آسان نہیں ہے‘ بہت سے مسائل ہیں۔ گوشت میں تو ذبیحے اور حلال حرام کا مسئلہ ہے ہی‘ یعنی بھوک کے باوجود شجرِ ممنوعہ۔ سبزیوں میں بھی اب جومصنوعی گھی‘ تیل اور ایسنس ڈالے جاتے ہیں ان کا بھی کچھ معلوم نہیں۔ چنانچہ اگر آپ اپنے رشتے داروں‘ مسلمان بستیوں یا ہوٹلوں میں ہیں تب تو خیر ہے ورنہ پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے۔ کچھ یہ بھی ہے کہ ہر قوم کا اپنا ذائقہ بھی ہوتا ہے۔ مجھے نامور مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی کا جملہ یاد آرہا ہے جو لاہور میں ایک ظہرانے پر ان سے سنا تھا۔ کہنے لگے: ''میاں! مسلمان کے ہاتھ کی سبزی اور ہندو کے ہاتھ کے گوشت سے اللہ بچائے‘‘۔ سکھ قوم کے سبزی پکانے کے اپنے انداز ہیں‘ لیکن سچ یہ ہے کہ کچھ کھانے مثلاً کئی طرح کے ساگ‘ پیاز کی سبزی اور آلو میتھی وغیرہ کا جواب نہیں تھا۔ اور اسی طرح پالک کے پراٹھوں کا بھی۔ ساتھ میٹھی اور نمکین لسی بھی تھی یعنی شرابِ طہور۔ بھوکے مسافروں نے جی بھر کر کھایا۔ کھیر اور گجریلے سے انصاف کیا گیا۔ یعنی ہماری آمد کا مقصد پورا ہو گیا۔
میزبانوں کا پروگرام لیکن پورا نہیں ہوا تھا۔ ایک بڑا سا سبزہ زار‘ جہاں دائرے میں بہت سی کرسیاں رکھی تھیں اور درمیان میں کافی خالی جگہ‘ ہمارا منتظر تھا۔ یہاں ایک مختصر ثقافتی شو ہونا تھا۔ ہمارے وہاں بیٹھتے ہی بھڑکیلے‘ شوخ لباسوں میں لڑکیاں پنجاب کا خواتین کا روایتی رقص ''گِدھا‘‘ ڈالنے پہنچ گئیں۔ پنجاب میں مردوں کا رقص بھنگڑا اور خواتین کا گِدھا ہے۔ پانچ دریاؤں کی سرزمین ہمیشہ سے زراعت پر انحصار کرتی رہی ہے۔ عام طور پر تہوار بھی فصلوں کے پکنے اور کٹنے یا بیج بونے سے متعلق ہوتے تھے‘ بلکہ شادی بیاہ بھی فصلوں پر موقوف ہوتے تھے اور زراعت پیشہ طبقے کے ہاں اب بھی ہیں۔ یہ بنیادی طور پر خوشی کا اظہار ہے جو شادی بیاہ یا پیدائش یا فصلیں پکنے کے وقت کیا جاتا ہے۔ گِدھا کے بعد بھنگڑے کیلئے گلابی دھوتی‘ سفید قمیص اور گلابی واسکٹ والے اور اسی امتزاج کے ساتھ اور نیلے اور پیلے رنگو ں کے لباس میں نوجوان سردار میدان میں اُترے۔ بھنگڑا بھی روایتی پنجابی رقص ہے جو دراصل اپریل سے مئی کے درمیان بیساکھی یا گندم کی کٹائی کے موقع پر خوشی کا اظہار ہے لیکن اب اس کیلئے کسی ماہ اور موسم کی قید نہیں رہی۔ بھنگڑا ڈھول کی تھاپ پر نوجوانوں کی چھلانگوں‘ ہاتھوں پیروں کی والہانہ حرکتوں کے ذریعے خوشی کا اظہار ہے۔ والہانہ کا لفظ بھنگڑے کیلئے شاید موزوں ترین ہے۔ کہا جاتا ہے کہ بھنگڑا سیالکوٹ اور گورداسپور کے علاقوں سے شروع ہوا اور رفتہ رفتہ مقبول ترین رقص بن گیا۔ اب یہ دنیا بھر میں پنجابی ثقافت کا مقبول ترین مظہر ہے۔
ایک ڈیڑھ گھنٹے بعد اُٹھے تو تازہ دم تھے۔ الوداعی کلمات کہتے‘ ہاتھ ہلاتے میزبانوں نے ہمیں اگلے سفر کیلئے رخصت کیا۔ قافلہ پھر روانہ ہوا تو شام کے سائے اس طرح لمبے ہو رہے تھے جیسے لپٹے ہوئے سرمئی کپڑے کے تھان کھلنے لگیں۔ دونوں طرف کھیت تھے جن میں شام اپنی اداسی لیے اُتر رہی تھی۔ ہریالی سیاہی مائل ہو رہی تھی۔ مویشی اپنی گھنٹیوں کے ساتھ گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ مٹی سے لپے ہوئے گھر اور تھپے ہوئے اپلوں والی دیواریں کھیتوں کے درمیان جابجا گزرتی تھیں اور گنے کی تیار فصلیں کھڑی تھیں۔ تنوروں سے دھواں اُٹھنا شروع ہو چکا تھا۔ یہاں وہاں کسی جوہڑ اور تالاب پر سفید پرندے بیٹھے تھے۔ الٰہی! یہ منظر کتنے خوبصورت اور کتنے اداس ہوتے ہیں۔
امرتسر سے پٹیالہ کا سفر لگ بھگ 235 کلو میٹر ہے۔ قافلے کے ساتھ یہ چھ گھنٹے سے زیادہ کا سفر تھا لہٰذا درمیان میں کہیں رکنا بھی ضروری تھا۔ ہم چلتے رہے اور رنجیت نگر کے قریب جی ٹی روڈ ہم سے آملی۔ رایا سے آگے نکل کر ہم نے دریائے بیاس عبور کیا۔ یہ پنجاب کے پانچ بڑے دریاؤں میں سے ہے۔ شاید پڑھنے والوں کو علم نہ ہو کہ کرتارپور نامی ایک بستی جالندھر سے پہلے بھی آتی ہے۔ امرتسر سے جالندھر 80 کلو میٹر کے قریب ہے اور یہاں پہنچتے ہوئے ہمیں تین گھنٹے لگ چکے تھے۔ ہمارے ہراول دستے نے جالندھر میں قدم روکے۔ آدھ گھنٹے کا وقت تازہ دم ہونے اور چائے کیلئے دیا۔ چائے کی شدید طلب تھی سو ایک نہیں‘ دو دو کپ پیے گئے۔ اسی جگہ پنجاب کی دیہی زندگی کے بہت سے منظر ایک میوزیم کی شکل میں بنائے گئے تھے۔ کہیں رہٹ چل رہا ہے‘ کہیں مدھانی سے لسی بلوئی جارہی ہے‘ کہیں چوپال میں حلقہ بنائے کسان بیٹھے ہیں اور حقہ درمیان میں گردش کر رہا ہے۔ کہیں لڑکیاں آپس میں ککلی کھیل رہی ہیں اور لڑکے گلی ڈنڈا میں مگن ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس ساری تہذیب میں وہی رنگ تھا جو بھارتی پنجاب کا ہے۔ پاکستانی پنجاب کے بہت سے رنگ مذہب کے فرق کی وجہ سے جدا ہیں۔ ہم اس میوزیم میں مٹی کے مجسموں کے بیچ کچھ دیر چلتے پھرتے رہے کہ یہ ٹانگیں سیدھی کرنے اور اگلے لمبے سفر کی تیاری کا موقع تھا۔
جالندھر کے بعد اگلا پڑاؤ سیدھا پٹیالہ ہی تھا۔ اگرچہ درمیان میں لدھیانہ کا بڑا شہر پڑتا ہے۔ ہم چلے تو شام مزید گہری ہو چکی تھی۔ ہریالی مسلسل ہمارے ساتھ تھی۔ جابجا گوردوارے نظر آتے تھے۔ کہیں کہیں مندر بھی۔ لیکن مجھے یاد نہیں کہ امرتسر سے پٹیالہ تک کوئی مسجد بھی نظر آئی ہو۔ پھلور شہر کے بعد ہم نے جب دریائے ستلج عبور کیا تو رات اپنا گہرا پردہ ڈال چکی تھی۔ کہیں تاریکی اور کہیں روشنیوں کے بیچ ہم لدھیانہ پہنچے۔ اس کی رونق سے اندازہ ہو رہا تھا کہ ہم کسی بڑے شہر سے گزر رہے ہیں۔ یہاں سے پٹیالہ لگ بھگ 150 کلو میٹر دور تھا۔ یعنی مزید دو گھنٹے کم از کم۔ قافلے کو پہلے ہی کافی دیر ہو چکی تھی۔ اور بار بار یہی سننے کو مل رہا تھا کہ کہیں رکے بغیر پٹیالہ پہنچنا ہے جہاں ہمارا شدت سے انتظار ہے۔