جب غاروں میں رہنے والے انسان نے خوراک کیلئے پتھر یا لکڑی کا پہلا نیزہ بنایا ہو گا‘ پہلی بار دور کھڑے جانور پر پھینک کر مارا ہو گا اور اس کے شکار ہو جانے پر خوشی کی چیخیں بلند کی ہوں گی۔ پھردوسرا بہتر نیزہ بنایا ہو گا‘ زیادہ دور تک پھینکنے کی مشق کی ہو گی تو اس کے ذہن میں دور دور تک نہیں ہو گا کہ اسی زمین پر کبھی انسان نیزہ دور تک پھینکنے کے فن کا مظاہرہ کرے گا اور اسے کھیل کا نام دیا جائے گا۔ یہ نیزہ کسی جاندار کو مارنے کیلئے نہیں‘ زورِ بازو کے مظاہرے کیلئے ایک ہتھیار ہو گا۔
8 اگست کی رات گھر پہنچا تو بنگلہ دیش کی صورتحال اور او آئی سی اجلاس کے ساتھ ساتھ جو بہت سی خبریں ذہن میں چل رہی تھیں‘ ان میں نیزہ پھینکنے کے مقابلے کا فائنل بھی تھا۔ بظاہر یہی لگ رہا تھا کہ اس بار بھی اصل مقابلہ پاکستان کے ارشد اور بھارت کے نیرج چوپڑا کے مابین ہو گا۔ نیرج کے طلائی تمغہ جیتنے کے زیادہ امکانات تھے‘ کیونکہ 2016ء سے 2024ء تک زیادہ مقابلوں میں وہی آگے رہے اور کوالیفائنگ رائونڈ میں ارشد ندیم 86.59 تک جا سکے تھے۔ اس لیے طلائی تمغے کی امیدیں کم تھیں بلکہ سچ یہ ہے کہ نہیں تھیں۔ لیکن ہر طرف بات یہی ہو رہی تھی۔ سوشل میڈیا پر بھی ہر طرف ارشد ندیم سے متعلق پوسٹس موجود تھیں۔ ارادہ تھا کہ یہ مقابلہ براہِ راست دیکھوں‘ لیکن سارے دن کی تھکن نے آنکھوں پر ہاتھ رکھے تو پلکیں خود بخود مندتی چلی گئیں۔
رات دو بجے کے قریب اچانک آنکھ کھلی تو پہلا خیال ہی ارشد ندیم کا آیا۔ موبائل اٹھا کر دیکھا تو جیسے ایک لہر سی پورے جسم میں دوڑتی چلی گئی۔ میں اٹھ کر بیٹھ گیا۔ ارشد ندیم نے نہ صرف طلائی تمغہ جیت لیا تھا بلکہ نیا اولمپک ریکارڈ بھی بنا دیا تھا۔ اس فائنل مرحلے میں جہاں 12 کھلاڑیوں میں کوئی ایک بھی 90 میٹر کی لکیر عبور نہیں کر سکا تھا‘ ارشد ندیم نے دو مرتبہ 90 میٹر سے زیادہ فاصلے تک نیزہ پھینکا‘ جن میں ایک فاصلہ92.97 میٹر تھا۔ یعنی نیا اولمپک ریکارڈ! اس سے قبل یہ ریکارڈ بیجنگ اولمپکس 2008ء میں ناروے کے اینڈریاس نے 90.57 کے فاصلے تک نیزہ پھینک کر قائم کیا تھا۔ یہ سابقہ ریکارڈ سے 2.40 میٹر زیادہ فاصلہ تھا‘ جو ایسے بڑے مقابلوں کے لحاظ سے بڑا فرق ہے اور ممکن ہے بہت مدت تک یہ ریکارڈ ٹوٹ نہ سکے۔ اگرچہ میری خواہش تو یہی ہو گی کہ ارشد اسے خود ہی مزید بہتر کرکے ناقابل رسائی بنا دیں۔
رات گئے بھی سوشل میڈیا تہنیتی پوسٹس سے بھرا پڑا تھا۔ لگ رہا تھا کہ پوری قوم جاگ رہی ہے۔ دنیا میں ایک ہی خبر ہے اور وہ ہے ارشد ندیم کی جیت۔ اور صر ف پاکستانی ہی نہیں‘ کروڑوں بھارتی بھی اس جیت پر مبارکبادیں دے رہے تھے۔ اگرچہ ان کی بہت امید نیرج سے وابستہ تھی کہ وہ انہیں اس اولمپکس میں سنہرا تمغہ دلائے گا۔ بھارت کو ایک بڑے اولمپک سکواڈ کے باوجود اس وقت تک سونے یا چاندی کا کوئی تمغہ نہیں ملا تھا‘ البتہ چار کانسی کے تمغے مل چکے تھے؛ چنانچہ 8 اگست کی رات سرحد کے دونوں طر ف کروڑوں آنکھیں سکرین پر ٹکی ہوئی تھیں‘ اور کروڑوں دل انتظار میں دھڑک رہے تھے۔ لیکن یہ دن نیرج کا نہیں‘ ارشد ندیم کا تھا۔ نیرج کی چھ باریوں میں صرف ایک قاعدوں اور ضابطوں پر اتری اور یہ 89.94 میٹر کی وہ تھرو تھی جس نے اسے نقرئی تمغہ دلایا۔ باقی پانچ تھرو فائول ہوئیں اور یہ بڑی تعداد ہے۔ وہ بہرحال 90 کی لکیر کو عبور نہیں کر سکے۔ ارشد ندیم کی ایک تھرو فائول ہوئی لیکن باقی پانچ باریوں میں سے دو 90 میٹر کی لکیر کے باہر گئیں‘ اور خاص طور پر 92.97 کی تھرو تو ناقابلِ یقین اور حیران کن تھی۔ ارشد ندیم کے کوچ نے بھی اسے حیران کن کہا۔ البتہ ارشد ندیم نے بعد میں کہا: میں پورے ردھم میں تھا اور اس سے زیادہ فاصلے پر بھی پھینک سکتا تھا۔ یہ نیا اولمپک ریکارڈ تھا اور طلائی تمغہ ان کا حق تھا۔ یہ 40 سال بعد پاکستان کیلئے کوئی بھی طلائی تمغہ اور 32 سال کے بعد اولمپک تمغہ ہے۔ اسی سے کئی اور ریکارڈ بھی بنے‘ مثلاً یہ کہ ایتھلیٹکس میں یہ پہلا پاکستانی طلائی تمغہ ہے اور انفرادی مقابلوں میں بھی پہلا سونے کا تمغہ۔ نیرج چوپڑا چاندی کے تمغے کے حقدار ٹھہرے اور یہ بھارت کا اس اولمپکس میں پہلا چاندی کا تمغہ ہے۔ نیرج بھارتی فوج میں حاضر سروس صوبیدار میجر ہیں۔ ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا اچھے دوست بتائے جاتے ہیں۔ ہریانوی لہجے میں بولتی نیرج کی ماں اور میاں چنوں کے ایک مزدور طبقے سے مقامی لہجے میں بولتی ارشد کی ماں نے خوشی کا اظہار کیا اور یہ بھی کہا کہ دونوں بچے ہمارے اپنے ہیں اور دونوں دوست بھی ہیں۔
لیکن خبریں اور بھی ہیں۔ اولمپکس کے حوالے سے تنہا یہی خبر نہیں ہے۔ چند ماہ پہلے پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عارف حسین نے بیس سال تک اس نشست پر متمکن رہنے کے بعد خرابیٔ صحت کی بنیاد پر استعفیٰ دے دیا تھا۔ وہ 2004ء میں جب اس کرسی پر بیٹھے تھے تو حاضر سروس تھے اور 20 سال یہیں بیٹھے رہے۔ 74 سال کی عمر میں استعفے کے وقت ان کی چوتھی مدت کی تکمیل میں چند ماہ باقی تھے۔ ان بیس سالوں میں پاکستان نے کسی بھی طرح کا کوئی تمغہ نہیں جیتا۔ لیکن اتنی طویل خدمت کے بعد جنرل صاحب کو تمغہ بہرحال دیا جانا چاہیے۔ اسی قسم کے تمغے کھیلوں کیلئے قائم تمام سرکاری اداروں کے سربراہوں کو بھی ملنے چاہئیں کہ یہاں تک پہنچنے میں ان کی محنت بھی کھلاڑیوں سے کم نہیں ہوتی۔ ان کی کارکردگی اس بات سے نہیں ناپنی چاہیے کہ ان کے دور میں کھیلوں کی کتنی ترقی ہوئی‘ بلکہ اس سے طے ہونی چاہیے کہ باہمی سیاست اور زور آزمائی میں وہ کتنی دیر کرسی پر بیٹھے رہے۔ یہ تھوڑی قابلیت ہرگز نہیں ہے۔
ارشد ندیم کے حوالے سے یہ خبر چل رہی تھی کہ 118 سالہ اولمپک ریکارڈ ٹوٹا ہے‘ یہ درست نہیں ہے۔ 1906ء میں جیولن تھرو کا کھیل اولمپکس میں شامل ہوا تھا اس لیے یہ خبر تو بن سکتی ہے کہ نیزہ پھینکنے کے اولمپک مقابلوں کی 118سالہ تاریخ کی یہ سب سے لمبی تھرو تھی لیکن جو ریکارڈ ٹوٹا ہے‘ وہ بیجنگ اولمپکس کا ہے جس کا ذکر اوپر کر چکا۔ ارشد ندیم نے میرے دل میں بھی اس کھیل کو جاننے کی خواہش بیدار کی تو پتا چلا کہ یہ تو واقعی بڑا فن ہے۔ سخت مخصوص قواعد ہیں۔ مردوں کے نیزہ پھینکنے کے مقابلے میں نیزے کی لمبائی 2.5 میٹر سے 7.2 میٹراور وزن 800 گرام ہونا چاہئے۔ وہ گرپ جہاں نیزہ تھاما جاتا ہے‘ نیزے کے درمیان میں سنٹر آف گریوٹی پر ہونی چاہیے۔ جس راستے یعنی رن وے پر نیزہ باز کو بھاگ کر آنا ہے وہ 4 میٹر چوڑا اور 30 میٹر لمبا ہو گا۔ نیزہ کندھے کے اوپر سے مخصوص زاویے سے کم یا زیادہ پر نہیں پھینکا جا سکتا۔ رن وے کی انتہائی حد والی لکیر کو نہیں چھوا جانا چاہئے۔ نیزہ پھینکنے سے پہلے نہ کھلاڑی گھوم سکتا ہے‘ نہ پھینکنے کے بعد نیزے کی طرف پشت کی جا سکتی ہے۔ درست تھرو وہی مانی جائے گی جس میں نیزے کی نوک پہلے زمین کو چھوئے‘ وغیرہ وغیرہ۔ خواتین کے مقابلوں کے کئی اصول مختلف ہیں‘ مثلاً نیزے کا سائز اور وزن کم ہے۔
دیکھا آپ نے! کوئی اپنا جیت جائے تو اس کھیل سے محبت ہونے لگتی ہے۔ ہم جیسے جنہوں نے کبھی کوئی نیزہ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا‘ خواہ مخواہ اس کے بارے میں جاننے لگتے ہیں۔ محمد علی نے باکسنگ میں دل جیتے تھے تو اس سے دلچسپی ہو گئی تھی۔ محمد یوسف سنوکر میں عالمی چیمپئن بنے تھے تو ہر نوجوان سنوکر میز کے گرد نظر آتا تھا۔ ہاکی اور کرکٹ کی تو بات ہی الگ ہے۔ میں ارشد ندیم پر انعامات کی بارشوں کی خبریں پڑھ رہا ہوں۔ اتنے لاکھ‘ اتنے کروڑ‘ فلاں ایوارڈ‘ فلا ں گاڑی۔ ہر پاکستانی کی خوشی امڈتی محسوس ہو رہی ہے۔ سب اختلافات بھول کر یکجان ہیں۔ سو پیارے ارشد ندیم! تم سے تین باتیں کہنی ہیں: ایک تو یہ کہ تم نے وہ خوشی پورے ملک کو دی ہے جس کی اشد ضرور ت تھی۔ دوسرے یہ کہ تم نے خود کو ہی نہیں اس کھیل کو بھی دلوں تک پہنچا دیا ہے اور تیسری یہ کہ پیارے! یہ فاصلہ 95 میٹر تک پہنچا دو۔ شہزادے! تمہارے لیے کون سا مشکل ہے؟