"SUC" (space) message & send to 7575

فروری 2019ء سے مئی 2025ء تک

چھ مئی کو رات گیارہ بجے کے قریب خبریں اور وڈیوز دیکھتے دیکھتے نیند آ گئی اور موبائل بھی میرے ہاتھ ہی میں سو گیا۔ ڈیڑھ بجے کے قریب گھر کے ایک فرد کا فون آیا تو جاگتے ہی دل کسی ناگہانی خبر کے اندیشے سے تیز دھڑکنے لگا۔ بھارت کے میزائل حملوں کی خبر ملنے کے ساتھ ہی یہ خبر بھی ملی کہ بھارت کے دو جنگی طیارے گرا لیے گئے ہیں۔ اس بہت بڑی خبر کے بعد نیند کسے آ سکتی تھی۔ لحظہ لحظہ نئی خبریں ملنا شروع ہوئیں اور فجر کے وقت تک معلوم ہو گیا کہ لائن آف کنٹرول پر مختلف بھارتی چوکیوں کو اڑا دینے کے ساتھ ساتھ پانچ بھارتی طیارے اور ایک ڈرون مار گرانے کی تصدیق وزیر دفاع خواجہ آصف‘ وزیر اطلاعات عطا تارڑ اور آئی ایس پی آر نے بھی کر دی ہے۔ تمام پاکستانی چینلز یہی خبریں دے رہے تھے لیکن مجھے انتظار تھا کہ بھارتی میڈیا اور بین الاقوامی میڈیا ان خبروں کی تصدیق کریں۔ بھارتی میڈیا کا تو اندازہ تھا کہ وہ اپنے نقصان کو نہیں مانے گا۔ ویسے تو ہر ملک اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے دعوے کیا ہی کرتا ہے لیکن پاکستانی وزرا خواجہ آصف اور عطا تارڑ نے بلوم برگ‘ رائٹرز‘ سکائی نیوز اور سی این این کو جس اعتماد کے ساتھ یہ اطلاعات دیں اس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ خبریں درست ہیں۔ تمام بین الاقوامی میڈیا گروپس نے پاکستان کے حوالے سے رات ہی میں یہ خبریں نشر کرنا شروع کر دیں تاہم ان کی تصدیق کے بارے میں محتاط طرزِ عمل اختیار کیا‘ البتہ ان کا رات ہی میں نشر ہونا بھی ایک طرح کی تصدیق تھا۔ ان سے بھی پہلے آذربائیجان کی خبر رساں ایجنسی نے دو بھارتی طیارے گرائے جانے کی خبر دے دی تھی۔ اس کے بعد ترک میڈیا نے بھی نمایاں طور پر یہ خبر شائع کی۔ اُس وقت تک دو طیاروں کی خبر ہی چل رہی تھی۔ بعد میں طیاروں کی تعداد بڑھتی گئی اور پانچ تک پہنچ گئی۔ دوسری طرف بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستان کی جوابی کارروائی اور طیارے گرانے کے بارے میں مکمل سکوت اختیار کیے رکھا۔ ایل او سی کے اُس پار بھارتی چوکیوں کو تباہ کرنے کی تفصیلات اور وڈیوز بھی آ رہی تھیں جن سے اندازہ ہو رہا تھا کہ بھارتی حملے کیساتھ ہی پاکستان نے اپنی کارروائیاں شروع کر دی ہیں۔ صبح ہوتے ہوتے وہ وڈیوز بھی سوشل میڈیا پر شامل ہونے لگیں جن میں بٹھنڈا‘ بھارتی پنجاب‘ اکھنور اور وویان‘ پلوامہ کے علاقوں میں جہازوں کے جلنے اور انکے ملبے کی تفصیلات ملتی تھیں۔ بھارتی میڈیا کی طرف سے بہت دیر تک سکوت رہا لیکن زیادہ دیر خامشی ممکن نہیں تھی۔ بھارت کے سب سے بڑے اخبار ''دی ہندو‘‘ نے ایک ٹویٹ کی کہ ایک سرکاری ذریعے کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں تین بھارتی جہاز کریش ہوئے ہیں۔ اس نے یہ کہنے سے گریز کیا کہ انہیں پاکستان نے مار گرایا ہے۔ ایک بڑے اخبار کی طرف سے یہ اعتراف بھی کافی تھا مگر کچھ دیر بعد یہ ٹویٹ ڈیلیٹ کر دی گئی اور ایک بہت کمزور ٹویٹ کی گئی کہ مذکورہ خبر کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ صاف ظاہر تھا کہ یہ ٹویٹ دبائو پر ڈیلیٹ کی گئی ہے۔ دی ہندو کے علاوہ بھی سوشل میڈیا پر سرکاری حوالوں سے کہا جارہا تھا کہ تین بھارتی جہاز مقبوضہ کشمیر میں کریش ہوئے ہیں لیکن ان کی وجوہات معلوم نہیں۔ رائٹر نے بھی مقامی حکومت کے حوالے سے یہ خبر شائع کی۔
ویسے تو بھارتی چوکیوں اور بریگیڈ ہیڈکوارٹر تباہ ہونے کی خبریں بھی بہت بڑی تھیں لیکن طیاروں کی خبر زیاہ بڑی ہے۔ اس لیے بھی زیادہ بڑی کہ پانچ بڑے پرندوں میں رافیل طیارے بھی شامل ہیں۔ 2019ء میں آپریشن سوئفٹ ریٹارٹ کے وقت بھارت کے پاس رافیل نہیں تھے اور مودی نے کہا تھا: کاش ہمارے پاس رافیل ہوتے تو معاملہ کچھ اور ہوتا۔ چنانچہ اسکے فوری بعد بہت بھاری قیمت دے کر رافیل طیارے حاصل کیے گئے۔ اب مودی کی یہ حسرت بھی نکل گئی ہے۔ اُس وقت مگ 21 بائسن کو پاکستان نے اپنی حدود میں گرایا تھا‘ پائلٹ ابھینندن کو گرفتار کیا گیا تھا اور بھارتی فضائیہ کو سخت شرمندگی اٹھانا پڑی تھی۔اب جو تین رافیل طیارے گرائے گئے ہیں‘ اس کے بعد بھارتی فضائیہ اور حکومت کیلئے یہ سیاہ رات سے کم نہ ہو گی۔ پانچ طیاروں میں روسی جدید ترین طیارہ سخوئی 30 بھی شامل تھا اور ایک مگ 29 بھی۔ یہ سب شاندار طیارے ہیں۔ رافیل آنے کے بعد سے بھارت کو ان پر بہت گھمنڈ تھا لیکن تین انتہائی مہنگے طیارے کاغذی جہازوں کی طرح زمین پر آ گرے۔ ایک رافیل طیارے کی قیمت 288ملین امریکی ڈالر ہے۔ یعنی لگ بھگ 2500 کروڑ بھارتی روپے۔ اسی طرح ایک سخوئی 30 کی قیمت پچاس ملین ڈالر ہے۔ یہ بہت قیمتی طیارے ہیں لیکن یہ سب گزشتہ رات خاک چاٹنے پر مجبور ہو گئے۔ رافیل گرنے کی اطلاعات کیساتھ ہی رافیل بنانیوالی فرانسیسی کمپنی ڈسالٹ کے شیئر ایک دم گر گئے جبکہ جے ایف 17 کی طیارہ ساز چینی کمپنی کے شیئر 18 فیصد بڑھ گئے۔ یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ دنیا رافیل طیارے گرائے جانے کو تسلیم کر رہی ہے۔ یہ معرکہ ایک بار پھر اس مسلمہ حقیقت کا ثبوت ہے کہ طیاروں کی اہمیت اپنی جگہ‘ طیارے کا پائلٹ اور اس کی ذہنی وعملی تربیت انتہائی اہم ہے۔ عددی لحاظ سے کم ہونے کے باوجود پاک فضائیہ نے ہمیشہ اس اہمیت کو ثابت کیا ہے۔
اس وقت 26 شہادتوں کے دکھ اور مسلط کی گئی جنگ کے بڑھنے کے خدشات کے باوجود پاکستانی قوم اپنی افواج خاص طور پر فضائیہ کی کارکردگی پر بہت خوش ہے۔ میرے خیال میں اتنے ہی خوش چین اور چینی طیارہ ساز کمپنی بھی ہوں گے۔ چینی طیاروں جے ایف 17 بلاک تھری اور جے 10 نے رافیل پر اپنی برتری ثابت کر دی ہے اور ان پر لگے میزائل پی ایل 15 نے رافیل کے یورپی میزائل میٹیور پر اپنی فوقیت بھی جتا دی ہے۔ اس معرکے سے نہ صرف دنیا جے ایف 17 کی اہمیت مزید تسلیم کرے گی بلکہ چینی طیاروں کی مانگ میں بھی اضافہ ہوگا۔ 27 فروری کی طرح 7 مئی بھی فضائیہ کا ایک یادگار دن قرار دیا جانا چاہیے کہ یہ پاکستان اور پاک ایئر فورس کیلئے فخر کا دن ہے۔ اس سے پہلے 7 ستمبر یوم فضائیہ کے طور پر ذہنوں میں نقش ہے۔ چند گھنٹوں ہی میں حملہ آور طیاروں میں سے پانچ کا گرایا جانا رافیل اور دیگر بھارتی طیاروں کے پائلٹوں پر بہت بُرا نفسیاتی اثر ڈال چکا ہوگا۔ یہی معاملہ مودی حکومت اور انکے ساتھیوں کا بھی ہو گا۔ انہیں بہت بُری نفسیاتی اور اخلاقی شکست کا سامنا ہے۔ یہ برتری بھی پاکستان کیلئے بہت اہم ہے۔ پلوامہ کے بعد جھڑپ میں پاکستان نے بھرپور ہم آہنگی اور اعتماد کا مظاہرہ کیا تھا۔ آج مئی 2025ء میں یہ ہم آہنگی مزید زیادہ نظر آ رہی ہے۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر بھی بھرپور کارکردگی دکھائی ہے اور دنیا کے سامنے عمدہ انداز میں اپنا مقدمہ پیش کیا ہے۔ اسی طرح انفارمیشن کی جنگ میں بھی پاکستان نے بہت اچھا اور طاقتور بیانیہ پیش کیا ہے اور اخلاقی فوقیت حاصل کی ہے۔ اللہ کرے بڑی جنگ کی نوبت نہ آئے اور اگر یہ مقدر ہے تو پاکستان کو مثالی فتح نصیب ہو۔جنگ انسانوں کیلئے بُری چیز ہے لیکن آپ کی سالمیت اور عزت پر بن پڑے تو اس سے بھاگنا بدترین بزدلی ہے۔ دینِ اسلام نے ہمیں یہی نصیحت کی ہے کہ دشمن سے مقابلے کی تمنا نہ کرو لیکن مقابلہ پیش آ ہی جائے تو پھر پوری قوت اور شجاعت سے مقابلہ کیا جائے۔ اس وقت جب میں یہ کالم تحریر کر رہا ہوں‘ نیشنل سکیورٹی کونسل کا اجلاس ختم ہو گیا ہے اور سکیورٹی اداروں کو کارروائی کا مکمل اختیار دے دیا گیا ہے۔ اسمبلی میں وزیراعظم نے تقریر بھی کی ہے۔ قوم سے خطاب بھی متوقع ہے۔ پورا پاکستان پُرسکون ہے۔ فوج‘ حکومت‘ عوام اور سیاسی پارٹیاں سب یکجان ہیں‘ بازار کھلے ہیں۔ کسی بھی دل میں کوئی خوف وہراس کا شائبہ بھی نہیں۔ روزمرہ کی مصروفیات حسبِ معمول چل رہی ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ کسی بھی طبقے میں کوئی خوف نہیں پایا جاتا۔ کہا تو نہیں جا سکتا کہ یہ جنگ کس طرف جائے گی اور پاکستان کی جوابی کارروائیوں کے بعد کیا ہو گا لیکن جو بھی مقدر ہوگا‘ ان شاء اللہ بہتر ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں