"SUC" (space) message & send to 7575

مودی۔ ایک دشمن محسن …(2)

مودی کے احسانات میں سے ایک احسان مسئلہ کشمیر کو دوبارہ اجاگر کرنا ہے۔ بھارت دہائیوں سے کشمیر کو اپنا اندرونی مسئلہ قرار دیتا اور اس میں کسی بیرونی مداخلت کو اندرونی معاملے میں دخل اندازی قرار دیتا رہا ہے۔ کشمیر کے مسلمانوں پر جو ظلم ہوتا رہا ہے اور وادی کی مسلم شناخت بدلنے کی جو کوششیں مسلسل ہوتی رہی ہیں‘ وہ سب کے سامنے ہیں۔ بھارت نے شملہ معاہدے میں بھی اس تنازع کو دو ممالک کے بیچ تنازع منوا لیا تھا‘ یعنی تیسرے فریق کی ثالثی اور فیصلے کی ضرورت نہیں۔ البتہ پاکستان اس مؤقف پر قائم رہا کہ یہ متنازع معاملہ ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔ کئی دہائیوں سے پاکستان کی حکومتی اور سفارتی کمزوریوں کی وجہ سے یہ معاملہ پس منظر میں چلا گیا تھا۔ حتیٰ کہ جب اگست 2019ء میں مودی حکومت نے آرٹیکل 370 ختم کرکے مقبوضہ کشمیر کو ضم کر لیا تب بھی پاکستان کوئی مؤثر حکمت عملی بنانے میں کامیاب نہیں ہوا۔ کشمیر ہائی وے کو سرینگر ہائی وے کا نام دینے سے کون سا بڑا فرق پڑ سکتا تھا؟ پاکستان کا کمزورہونا خود کشمیریوں کے مؤقف کا کمزور ہونا تھا؛ چنانچہ وہاں بھی تحریک آزادی میں بہت فرق پڑ گیا۔ اس کے بعد گزشتہ چھ برس میں ایسا محسوس ہوتا رہا کہ اب مسئلہ کشمیر عالمی سطح پر کبھی سامنے نہیں آئے گا اور نہ حل ہو سکے گا۔ لیکن پہلگام واقعے کے بعد سے کشمیر ایک بار پھر مرکزی تنازع بن کر سامنے آ گیا۔ چار روزہ جنگ نے اسے پھر دنیا اور اقوام متحدہ تک پہنچا دیا اور یہ بھارت کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس جنگ اور پاکستان کی فتح نے ایک بار پھر کشمیریوں کو حوصلہ دیا ہے۔ آرٹیکل 370 ختم ہونے کا بھارت کو ایک بڑا نقصان یہ ہوا کہ چین‘ جو کشمیر کے ایک حصے کا دعویدار ہے‘ پاکستان کے مزید قریب آ گیا اور بھارت کیلئے دو محاذوں پر جنگ کا خطرہ حقیقی صورت میں سامنے آنے لگا۔ خود راہول گاندھی اور بھارت کے سنجیدہ مبصرین نے اسے مودی حکومت کی غلط پالیسی کا شاخسانہ قرار دیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ‘ جو امریکی اسٹیبلشمنٹ اور پینٹاگون سے الگ سوچ رکھتے ہیں‘ اس پورے عرصے میں پاکستان اور بھارت کو برابری کا درجہ دیتے رہے اور بار بار کہتے رہے کہ کشمیر کا قضیہ پرانا جھگڑا ہے جس کی ثالثی کیلئے میں تیار ہوں‘ دونوں ملکوں کو مذاکرات کرنے چاہئیں۔ یہ وہی مؤقف ہے جو پاکستان کا دیرینہ مؤقف ہے۔ برابری کا درجہ‘ بھارت کا عملی طور پر ساتھ نہ دینے اور مسئلہ کشمیر کا بار بار ذکر کرنے پر مودی حکومت پیچ وتاب کھانے کے سوا کچھ کر بھی نہیں سکتی۔ دوسری طرف پاکستان نے ٹرمپ کی ثالثی کی تجویز مان لی ہے اور ان کا شکریہ ادا کیا ہے۔ یہ سفارتی طور پر بھارت کی بڑی ہزیمت ہے۔
پہلگام واقعے پر عالمی برادری کا الگ رہنا اور بھارت کا ساتھ نہ دینا عالمی سطح پر بہت بڑی تبدیلی ہے۔ رسمی طور پر مذمت کے سوا کسی ملک نے پاکستان کا نام نہیں لیا‘ نہ اس دہشت گردی کو پاکستان سے جوڑا۔ بھارت اس کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ اسرائیل کے سوا کوئی ملک بھارت کے ساتھ کھڑا نہیں ہوا جبکہ چین‘ ترکیہ اور آذربائیجان عملی طور پر اور کئی مسلم ممالک اخلاقی طور پر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ بھارت کا وہ بیانیہ زمین بوس ہو گیا کہ پاکستان اکیلا ہے اور بھارت کے ساتھ پوری دنیا کھڑی ہے۔ اس طرح پاکستان کو یہ حوصلہ ملا کہ وہ تنہا نہیں اور اپنے مؤقف پر جم کر بات کر سکتا ہے۔ یہ اعتماد بھی مودی حکومت کا ایک احسان ہے۔
پاکستان کی دفاعی صلاحیت میں اضافہ مودی حکومت کا ایک اور احسان ہے جس کیلئے مودی کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ ماضی میں مغرب کی طرف سے جدید اسلحے کیلئے پاکستان کوصاف انکار یا طرح طرح کی پابندیاں لگا نے کا تجربہ بار بار ہو چکا تھا۔ اس صورتحال میں پاکستان کیلئے دفاعی خود کفالت کے سوا کوئی راستہ نہیں بچتا تھا۔ اگر آپ غور کریں تو مودی کے آنے کے بعد اور اس کے عزائم آشکار ہونے کے بعد سے دفاعی ساز وسامان کی تیاری اور ٹیکنالوجی کے حصول کیلئے پاکستان میں تیز رفتار پیش قدمی کی گئی۔ گولہ بارود‘ اسلحہ‘ ٹینکوں‘ بکتر بند گاڑیوں‘ جنگی جہازوں‘ ڈرونز اور میزائلوں سے متعلق ہر کچھ دن بعد ایک نئی خوشخبری ملنے لگی۔ معیار کی عمدگی کے باعث پاکستان جلد ہی اس قابل ہوگیا کہ وہ یہ سامان برآمد بھی کر سکے۔ اس سے ایک طرف تو پاکستان کی دفاعی صلاحیت بہتر ہوئی دوسری طرف زرمبادلہ ملنے لگا۔ جے ایف 17 تھنڈر طیارہ کئی ممالک خرید چکے اور کئی سے بات چل رہی ہے۔ اس منزل کیلئے مودی کی پاکستان دشمنی کا احسان ماننا پڑتا ہے۔ اگر پاکستان کی بقا سے متعلق مودی خطرہ سر پر نہ منڈلا رہا ہوتا تو اتنی تیز رفتار ترقی ممکن نہ ہوتی۔ اسی خطرے کا ایک پہلو یہ ہے کہ دفاعی خود کفالت کے ساتھ چینی اسلحے‘ جہازوں اور میزائلوں کے حصول پر بھی غیر معمولی توجہ دی گئی۔ جے 10 سی کے جدید جہاز ہوائی بیڑے میں شامل کیے گئے۔ ففتھ جنریشن کے جنگی جہازجے 31 کا‘ جو سٹیلتھ ٹیکنالوجی یعنی ریڈار پر نظر نہ آنے کی خوبی سے لیس ہے‘ معاہدہ ہو چکا ہے۔ ویسے تو ان جہازوں کو پاک فضائیہ میں شامل ہونے میں کچھ وقت لگتا لیکن موجودہ صورتحال میں یہ بہت جلد پاکستان کو مل سکتے ہیں۔ اسی طرح ایک مؤثر ایئر ڈیفنس سسٹم کی بھی پاکستان کو سخت ضرورت ہے جس میں میزائلوں کو روکنے کی قابلِ اعتماد صلاحیت ہو۔ ڈرونز حملوں کے سدباب کیلئے ایک الگ نظام کی ضرورت ہے۔ اس چار روزہ جنگ نے جو نتائج اور آئندہ ساز وسامان کا لائحہ عمل مرتب کیا ہے اس کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے اور یقینا یہ سامان ہمیں جلد مل سکے گا۔ اس کیلئے بھی مودی کا احسان ماننا چاہیے۔
ماضی کی بات چھوڑئیے۔ مئی 2025ء کی جنگ ہی میں مودی کے بہت سے احسانات ہیں۔ بھارتی ایئر فورس کے بار بار اعلان کے باوجود کہ بھارتی فضائیہ جنگ کیلئے تیار نہیں ہے‘ مودی کے اصرار پر کارروائی کی گئی۔ پہلی ہی رات پانچ بھارتی طیارے‘ جن میں تین دنیا کے بہترین رافیل طیارے تھے‘ گرا لیے گئے۔ یہ شرمناک شکست بھارتی فضائیہ کیلئے ایسی شرمندگی ہے جو تاریخ میں یادگار رہے گی۔ اس کے بعد بھارتی فضائیہ تمام رافیل جہازوں کو تین سو میل دور لے گئی اور اس کے بعد کسی بھی بھارتی جنگی جہاز کی ہمت نہیں ہوئی کہ وہ فضا میں آ سکے۔ یہ غیر معمولی برتری دنیا میں مانی گئی‘ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ سب سے بڑی جہازوں کی لڑائی تھی‘ ساری دنیا پاک فضائیہ کی غیر معمولی کارکردگی کو مسلسل سراہ رہی ہے اور کہہ رہی ہے کہ انہوں نے ہوائی جنگوں کا معیار اور انداز ہی بدل کر رکھ دیا ہے۔ اگر مودی یہ جنگ نہ کرتا تو ہمیں اپنی صلاحیتیں آزمانے کا موقع کیسے ملتا‘ دنیا کیسے متحیر ہوتی اور پاک فضائیہ کیلئے نئے راستے کیسے بنتے؟
مودی کا ایک بہت بڑا احسان یہ ہے کہ اس نے بھارت کا اصل چہرہ ہماری نئی نسلوں کو دکھا دیا۔ پاکستان کیوں بنا؟ ہمارے لیے کیوں ناگزیر تھا؟ بھارت کیسے پاکستان سے مختلف ہے؟ اور پاکستان کیسے اسے ٹکر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے‘ ان باتوں کا نئی نسلوں کو صرف نصابی علم تھا اور اس پر بھی بہت سے شکوک وشبہات پائے جاتے تھے۔ پاکستانی افواج کا برابرکی سطح پر طاقتور ہونا کیوں اشد ضروری ہے؟ اس پر بہت سے سوالات اٹھتے تھے۔ کوئی نصابی علم عملی تجرے کے بغیر سمجھ نہیں آتا۔ مئی 2025ء کی جنگ نے یہ تجربہ کروا دیا اور بہت سے سوالات کے جوابات دیدیے۔ بہت سے شکوک ختم کرکے رکھ دیے۔ بہت سے لائحہ ہائے عمل طے کر دیے۔ وہ جو ایک احساسِ مرعوبیت پایا جاتا تھا کہ بھارت ہم سے بہت برتر اور بہتر ہے‘ یہ جو خیال تھا کہ وہ آئی ٹی کی دنیا کا بلا شرکت غیرے بادشاہ ہے‘ یہ جو احساسِ کمتری تھا کہ اس کے پاس جنگی جہاز‘ اسلحہ تعداد میں بہت زیادہ ہے‘ یہ سب مفروضے خاک چاٹنے لگے۔ بہت سے لوگ احساسِ مرعوبیت سے باہر آئے‘ فوج اور عوام یک جان ہوئے‘ اُس طرح جیسے یکجان ہونا چاہیے۔ یہ سب مودی کی مہربانیاں ہیں۔ نریندر مودی‘ ہم تمہارے شکر گزار ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں