"SUC" (space) message & send to 7575

پاکستان ایک سنہری موقع کی دہلیز پر

میرے خیال میں خدائے کریم نے پاکستان کو ایک بار پھر ایک بہت بڑا اور قیمتی موقع فراہم کر دیا ہے کہ یہ خطے اور اقوام عالم میں اپنے آپ کو معاشی‘ دفاعی ‘ علاقائی اور عالمی اہمیت کا ملک ثابت کرے اور ایک بار پھر وہ ملک بن جائے جس کی طرف خاص طور پر امتِ مسلمہ امید بھری نگاہوں سے دیکھتی ہے۔ اس موقع کی دہلیز پر کھڑا پاکستان اگر اس بات کا ادراک کر لے اور یہ فیصلہ کر لے کہ ذرا سی کوشش اور مؤثر حکمت عملی سے وہ بہت بڑی طاقت کے طور پر ابھر سکتا ہے؛ چنانچہ اس جہت میں پوری طاقت صرف کی جائے‘ تو یہ نادر اور سازگار صورتحال پاکستان کا مستقبل بدل سکتی ہے۔
میں یہ بات محض خوش فہمی کی بنیاد پر نہیں کہہ رہا۔ پاکستان کو قدرت نے ایک سنہری موقع فراہم کر دیا ہے کہ وہ اپنے معاملات کو سنبھال کر عالمی برادری اور مسلم دنیا میں قائدانہ کردار ادا کر سکتا ہے۔ ذرا عالمی حالات پر ایک نظر ڈالیں۔ دنیا گزشتہ دس سالوں میں بہت زیادہ بدل چکی ہے۔ بہت سی قوتیں پس منظر میں چلی گئی اور کئی نئی طاقتیں ابھرکر سامنے آئی ہیں۔ 90ء کی دہائی میں شکست وریخت کے بعد روس کی وہ حیثیت نہیں رہی تھی کہ امریکہ جیسی سپر پاور کی برابری کر سکے۔ اس کے حامی ممالک اس سے دور ہو گئے اور دنیا میں سوشلسٹ بلاک ختم ہو کر رہ گئے۔ ولادیمیر پوتن نے روس کو سنبھالا اور کھوئی ہوئی قوت کی بحالی کا کام کیا۔ اگرچہ سابقہ قوت بحال نہیں ہو سکی تاہم روس بہرحال ایک ایسی طاقت کے طور پر سامنے آیا جو دنیا کے بہت سے معاملات میں اپنی بات منوا سکتا اور حریفوں کو خوفزدہ کر سکتا ہے۔ پوتن نے اپنی طاقت کو بڑھانے کیلئے چین کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ چین نظریاتی ہم آہنگی اور اپنی دوررس پالیسی کے باعث پہلے ہی اس بات کا خواہاں تھا۔ ان دونوں کے مشترکہ حریف امریکہ اور یورپ کے سرمایہ دارانہ نظام کے حامل ممالک تھے۔ چنانچہ روس اور چین کے مابین دفاعی ساز وسامان کے معاہدے شروع ہوئے۔ روس کی ضرورت تھی کہ جدید چینی ٹیکنالوجی اس کے دفاعی ساز وسامان میں کام آئے اور چین روسی ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنا چاہتا تھا۔ باہمی ضرورت دونوں کو اس طرح قریب لے آئی کہ چین اپنے طیاروں میں روسی ساختہ انجن استعمال کرنے لگا اور جدید روسی طیاروں میں‘ مثلاً ایس یو 57‘ جو سٹیلتھ ٹیکنالوجی کا حامل روسی طیارہ ہے‘ میں چینی ٹیکنالوجی شامل ہو گئی۔ اگرچہ یوکرین روس جنگ کا آغاز 2014ء میں ہوگیا تھا تاہم اس میں شدت 2022ء میں آئی۔ یہ ایک لحاظ سے روس کی مجبوری تھی‘ وہ اپنی سرحد پر یوکرین کی صورت میں نیٹو افواج کو برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ تین سال سے جاری اس جنگ نے یوکرین کو بہت سے علاقوں سے محروم کر دیا اور بہت سا جانی نقصان بھی ہوا لیکن اس نے روس کی حیثیت کو بھی کافی نقصان پہنچایا۔ دنیا حیران ہوئی کہ اتنی بڑی طاقت ایک چھوٹے سے ملک کو اب تک شکست نہیں دے سکی۔ چنانچہ روس بظاہر برتری کی پوزیشن کے باوجود نقصان اٹھا رہا ہے۔ اس صورتحال نے چینی طاقت کو مزید نمایاں کر دیا۔ امریکہ اور یورپ چین کو حریف کی صورت میں دیکھ رہے ہیں اور روسی مخالفت اب پس منظر میں جا چکی ہے۔ روس اور چین کے ہم مؤقف ہو جانے سے پاکستان کو یہ فائدہ ہوا کہ وہ ہمیشہ سے چین کا مضبوط حلیف ہے؛ چنانچہ روس پاکستان کے خلاف نہیں جائے گا۔ دوسری طرف امریکی گود میں چلے جانے سے روس بھارت سے ویسے ہی ناراض ہے۔ بہت عرصے سے بھارت‘ جو دنیا میں اسلحے کا ایک بڑا خریدار ہے‘ روس سے بہت کم اسلحہ خرید رہا ہے جبکہ ماضی میں 70 سے 80 فیصد روسی اسلحہ خریدتا رہا ہے۔ بھارت کی کئی عشروں سے سب سے مفاد سمیٹنے کی کوششوں نے اب اسے دنیا میں تنہا کر دیا ہے۔ امریکہ سے اس کے معاہدے ہیں لیکن حالیہ چار روزہ جنگ میں واضح ہو گیا کہ امریکہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کی عملی مدد نہیں کرے گا بلکہ الٹا بھارت کو ان دنوں ٹرمپ کے بیانات سے مسلسل شرمندگی کا سامنا ہے۔ خلاصہ یہ کہ دنیا کی تین بڑی طاقتوں میں سے پاکستان کو ایک کی مضبوط حمایت حاصل ہے اور باقی دو اس کی مخالف نہیں جبکہ بھارت کے معاملے میں ایک طاقت اس کی بڑی مخالف ہے اور باقی دو اس کی پشت پناہی نہیں کرتیں۔ یہ صورتحال پاکستان کے آئندہ کردار میں بہت معاون ثابت ہو سکتی ہے۔
جنوبی ایشیا کے باقی ممالک کو دیکھیں تو سب بھارت سے ناراض ہیں۔ مالدیپ اور بنگلہ دیش میں عوامی مخالفت سب سے زیادہ ہے۔ میانمار نے پاکستان سے جے ایف 17 طیارے خریدے ہیں اور ممکنہ طور پر بنگلہ دیش بھی یہی فیصلہ کرے گا۔ یہ ذہن میں رکھیے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے جانے کے بعد سے صورتحال چین اور پاکستان کے حق میں پلٹ چکی ہے۔ بھارت کی سلی گوری کوریڈور کے قریب بنگلہ دیش ایک متروکہ ایئر فیلڈ لال منیر ہاٹ کو چین کے خرچ پر‘ اُسی کیلئے فضائی اڈے میں تبدیل کرنے کے معاملے پر غور کر رہا ہے‘ پاکستان بھی اس معاملے میں شامل ہے۔ اگر یہ فیصلہ ہو جاتا ہے تو بھارت کیلئے دفاعی لحاظ سے بہت بڑا خطرہ پیدا ہو جائے گا۔ دوسری طرف حالیہ پاک بھارت چار روزہ جنگ میں ثابت ہو گیا کہ پاکستان روایتی ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی میں نہ صرف بھارت کے ہم پلہ بلکہ کئی شعبوں میں فوقیت رکھتا ہے اور اپنے وجود کے تحفظ کی بھرپور صلاحیت رکھتا ہے۔ جوہری طاقت اس پر مستزاد ہے۔ ان دنوں بھارت کی شرمناک شکست نے جنوبی ایشیا کے اُن چھوٹے ممالک کو خوشی بخشی ہے جو بھارت کی طاقت سے گھبراتے تھے۔ اس طرح پاکستان جنوبی ایشیا میں نسبتاً چھوٹے ممالک کے رہنما کا کردار ادا کرنے کے قابل ہوگیا ہے۔ یہ تو اس خطے کی بات ہوئی۔ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل تاریخی طور پر جتنا تنہا اس وقت ہے‘ پہلے کبھی نہ تھا۔ یورپ کیلئے بھی اسرائیل کی حمایت آسان نہیں رہی۔ اگرچہ امریکہ اب بھی اسرائیلی پشت پناہ ہے لیکن ٹرمپ کے آنے کے بعد سے مسلسل وہ فیصلے بھی ہو رہے ہیں جو اسرائیلی مفادات کے خلاف ہیں۔ دنیا بہرحال دیکھ رہی ہے کہ غزہ کے 60 ہزار نہتے شہریوں‘ عورتوں اور بچوں کو شہید کر دینے ‘غزہ کو ملبے کا ڈھیر بنا دینے اور ہر قسم کی امداد مسدود کر دینے کے باوجود اسرائیل جیت نہیں سکا۔ امریکہ اور اسرائیل کے فاصلے بڑھنے سے اسرائیل کے ہمسایہ ممالک کو نیا حوصلہ ملا ہے۔ سعودی عرب‘ قطر‘ عرب امارات وغیرہ ٹرمپ کو اسرائیلی حمایت سے دست کش کر دینے کیلئے ٹرمپ کا دل جیتنے میں لگے ہوئے ہیں۔ مصر جدید ترین جنگی جہاز خریدنے کے معاہدے کر رہا ہے اور شام میں جنگجو پس منظر کا حامل احمد الشرع صدر بن چکا ہے۔ میرا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں شام ایک بار پھر طاقتور بننا شروع ہو گا۔ بشرطیکہ وہ اپنی اندرونی محاذ آرائی پر قابو پا لے۔
ان دنوں عرب ممالک کو دفاعی لحاظ سے مضبوط ہونے کی ضرورت کا ادراک ہوتا جا رہا ہے؛ چنانچہ عرب بادشاہتیں اب دفاع پر زیادہ توجہ دے رہی ہیں۔ یہ صورتحال پاکستان کو بہت اہم بناتی ہے کہ اس کی افواج شاندار کارکردگی کی حامل رہی ہیں۔ اس لیے پاکستان عرب ممالک سے نہ صرف اسلحے اور طیاروں وغیرہ کے معاہدے کر سکتا ہے بلکہ انہیں بھرپور تربیت بھی دے سکتا ہے۔ یہ تربیت پہلے بھی دی جاتی رہی ہے۔ ترکیہ کے ساتھ پاکستان کے دفاعی منصوبے پہلے سے چل رہے ہیں اور اردوان کے منصوبے کے تحت انڈونیشیا اور ملائیشیابھی ان منصوبوں کا حصہ ہیں۔ پاکستان کی افواج ان سب ملکوں میں رہنما کے طور پر کردار ادا کر سکتی ہیں کہ یہاں ان کے لیے بہت احترام پایا جاتا ہے۔ ان کے علاوہ دنیا کے دیگر خطوں میں ترقی پذیر اور دفاعی لحاظ سے کمزور ممالک کی طرف بھی توجہ کرنی چاہیے۔ یہ سب تربیت اور دفاعی ساز وسامان کے لحاظ سے توجہ کے حقدار ہیں۔ پاکستان کو اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ موقع ضائع کرنا بہت بڑا قومی نقصان ہو گا۔ امید ہے کہ یہ منظر نامہ پاکستان کے فیصلہ سازوں کے سامنے بھی ہوگا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں