کیا کبھی کبھی آپ کیساتھ ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھیں ایک اور منظر دیکھ رہی ہوں اور ذہن کے سامنے ایک دوسرا منظر اپنی جزئیات سمیت روشن ہو؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ بیک وقت دو موسموں میں سانس لے رہے ہوں اور دونوں کی سانسیں آپ کی سانسوں میں گھل مل رہی ہوں؟ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو زمانے ایک دوسرے کو چھوتے‘ چھیڑتے‘ کھیلتے ایک دوسرے کیساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بھاگے چلے جاتے ہوں اور آپ بس ان کے پیچھے پیچھے انہیں دیکھنے اور محسوس کرنے کیلئے ساتھ ساتھ اُڑے جاتے ہوں؟ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے رنگین فلم چل رہی ہو اور حافظے میں سفید وسیاہ فلم۔ کیا کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ حال میں چلتے چلتے ایک لمحے میں ماضی میں جا رہے ہوں اور پھر ایک پل میں اپنے حال میں واپس آ رہے ہوں۔ ہوتا تو ضرور ہوگا ایسا آپ کیساتھ اور دنیا میں اور لوگوں کیساتھ۔ اور اگر ایسا صرف میرے ساتھ ہوتا ہے تو کیا کرنا چاہیے؟ لیکن سچ یہ ہے کہ میں اس میں خوش ہوں۔ اگر یہ کیفیت صرف میری ہے تو میں اسے کیوں ختم کروں کہ یہ مجھے بیک وقت خوش اور اداس رکھتی ہے۔
کچھ دن پہلے کی بات ہے۔ میں نے شدید گرمی کی دوپہر میں گاڑی ایک طرف کھڑی کی اور اپنی پوتی امامہ عثمانی کا ہاتھ پکڑے ان لوگوں کی طرف چل پڑا جو کافی تعداد میں بیچنے کیلئے بکرے لے کر کھڑے تھے۔ امامہ اور دوسرے بچے کئی دن سے مسلسل اصرار کر رہے تھے کہ فوراً بکرے لے کر آئیں۔ ان کا اصرار وہی تھا جو بقر عید کے دنوں میں ہر بچے کا ہوا کرتا ہے۔ بکروں کو پیار کرنے‘ انہیں کھلانے‘ ان سے کھیلنے کے خواب بقر عید کے دنوں میں ہر بچے کی آنکھوں میں تیرنے لگتے ہیں۔لاہور میں زیادہ تر جانوروں والے قریبی شہروں سے آتے ہیں۔ قصور‘ چونیاں‘ پتوکی‘ دیپالپور‘ بہاولنگر وغیرہ کے علاقوں سے آئے ہوئے یہ لوگ ہر بقر عید پر اپنے اپنے جانور لیے رزق کمانے چلچلاتی دھوپ میں دن گزارتے ہیں۔ اس سال دنبوں‘ بکروں‘ بچھڑوں وغیرہ کا نرخ اندازوں سے کہیں زیادہ تھا۔ میں نے ایک بکرے پر ہاتھ رکھا اور قیمت پوچھی تو کانوں پر یقین نہیں آیا۔ ایک درمیانہ سا بکرا اور سوا لاکھ روپے قیمت؟ کچھ آگے ایک اور بکرے کی قیمت ڈیڑھ لاکھ روپے بتائی گئی۔ جلد ہی اندازہ ہونے لگا کہ کوئی صحتمند دو دانت والا یعنی جوان‘ درمیانہ سا بکر ا اگر لینا ہے تو لکھ پتی ہونا لازمی ہے۔ پچھلے سال ایسے ہی بکرے چالیس سے پچاس ہزار کے درمیان خریدے تھے۔ تو اس سال ایسی کیا مار ہے کہ دگنے سے بھی زیادہ قیمت ہو گئی؟ میں نے نسبتاً کم قیمت بکرے دیکھنے شروع کیے۔ امامہ عثمانی کا جوش وخروش دیدنی تھا۔ اسے ہر بکرا اپنا خریدا ہوا بکرا لگ رہا تھا لیکن خریداری کی نوبت آ ہی نہیں رہی تھی۔ اتنے میں قریب سے ایک قد آور اور فربہ بکرا گزرا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس کی قیمت دو لاکھ کے لگ بھگ ہوگی لیکن امامہ بولی: ابی! یہ بکرا دیکھ لیں۔ میں نے کہا: امامہ! یہ بہت مہنگا ہوگا۔ بولی: ابی! قیمت پوچھ تو لیں‘ کیا حرج ہے۔ ایک جملے نے ایک لمحے میں مجھے پچاس پچپن سال پہلے پہنچا دیا۔ میں شام کے وقت اپنے کم عمر بڑے بھائیوں کا ہاتھ پکڑے اپنے والد کیساتھ چوبرجی‘ لاہور کی بکرا منڈی میں گھومتا تھا۔ ہمارا جوش وخروش دیدنی تھا۔ ہر بکرا ہمیں اپنا خریدا ہوا بکرا لگتا تھا لیکن خریداری کی نوبت آ ہی نہیں رہی تھی۔ میرے والد جنہیں ہم بھائی جی کہتے تھے‘ دو سے ڈھائی ہزار روپے قیمت کے مناسب سے بکروں کی تلاش میں تھے۔ قد آور اور فربہ بکرے سات آٹھ ہزارکی قیمت میں تھے۔ ایک خوبصورت قد آور بکرا قریب سے گزرا۔ میں نے کہا: بھائی جی! یہ دیکھ لیں۔ بولے: بیٹا! یہ مہنگا ہوگا۔ میں نے کہا: بھائی جی ! قیمت پوچھ تو لیں‘ کیا حرج ہے ۔
امامہ عثمانی نے بکرے خرید لیے ہیں۔ گاڑی میں گھر جاتے ہوئے میں نے بکرے والے سے پوچھا۔ اس سال جانور اتنے مہنگے کیوں ہیں‘ اس سال تو سیلاب والا مسئلہ بھی نہیں تھا۔ بولا: مہنگائی کو تو بہانہ چاہیے۔ ابھی جنگ کے دنوں میں اچانک چنے اور دانہ بہت مہنگا ہو گیا‘ یہی حال چارے کا ہے۔ بھلا بتائیں جنگ کا چنوں کی قیمت سے کیا تعلق ہے۔ ہم کیا کریں کہ مال ہی بہت مہنگا ملتا ہے۔ اوپر سے بلدیہ والوں نے منڈی کی جگہیں متعین کر دی ہیں۔سب دور دور ہیں۔ رہائشی علاقوں میں جانور نہیں لے جا سکتے۔ بلدیہ والے مسلسل جرمانے کر رہے ہیں۔ 40‘ 40 ہزار روپے جرمانے ہو رہے ہیں۔ آپ بتائیے اتنی گرمی میں اتنی دور منڈی میں کون جا سکتا ہے۔ خاص طور پر خواتین۔
بقر عید کے دن قصائی میسر ہو جانا بڑا کارنامہ ہے۔ شکر ہے آج کل مجھے یہ مسئلہ نہیں ہوتا۔ میں نے اپنے پرانے قصائیوں سے اس سال بکرا ذبح کرنے اور گوشت بنانے کی قیمت پوچھی۔ پتا چلا چھ سے سات ہزار روپے تک۔ خاموشی کے ایک وقفے میں میری آنکھوں میں سمن آباد موڑ والے اپنے آبائی گھر کاشانۂ زکی کی فلم چل رہی ہے۔ میرے والد کا خیال ہے 50 روپے ٹھیک ہیں۔ قصائی 60 روپے پر اڑا ہوا ہے۔ گائے کے قصائی 300 روپے مانگ رہے ہیں۔ بھائی جی اور امی اتنی مہنگائی ہو جانے پر تبصرے کر رہے ہیں۔ 2025ء میں جب بکرے کا گوشت 2900 روپے کلو مل رہا ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ میں پتھر کے زمانے کا انسان ہوں جس نے یہی گوشت 16 روپے سیر خود خریدا ہوا ہے۔ افضال کی دکان‘ سمن آباد موڑ پر سب سے اچھا گوشت اسی قیمت میں بیچتی تھی جو قدرے مہنگا تصور ہوتا تھا۔ اگر قارئین مجھے قبل از وقت زمانوں کا آدمی نہ سمجھیں تو اپنی آنکھوں سے اس سے بھی پرانی وہ فلم دکھا سکتا ہوں جس میں اپنے پھوپھی زاد بھائی سید مشرف حسین حسینی کا ہاتھ پکڑے میں دھنی رام روڈ‘ انارکلی لاہور کی ذیلی گلیاں گھومتا تھا۔ ہم بکرے کے گوشت کی دکان پر رکتے ہیں جہاں چار روپے سیر گوشت بکتا ہے۔ ہم شاید ایک پاؤ گوشت خرید سکتے تھے۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ چار روپے سیر گوشت بھی کم کم لوگوں کی پہنچ میں تھا‘ اور متوسط گھرانوں میں کم کم ہی پکتا تھا۔ آج کی طرح اس وقت بھی گھر کے بڑوں کا یہی خیال تھا کہ مہنگائی حد سے زیادہ ہو چکی ہے اور سفید پوش گھرانوں کا زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے۔
بقر عید ہر سال پرانی یادیں ساتھ لیے آتی ہے۔ میرے مرحوم والدین‘ اللہ انہیں اپنے اعلیٰ ترین درجات میں رکھے‘ ہمیں خوش دیکھ کر خوش ہونے والوں میں تھے۔ اب یہی کیفیت ہماری ہے۔ بھائی جی یعنی میرے والد مرحوم جناب زکی کیفی کی روایت تھی کہ وہ ہمیشہ تین بکروں کی قربانی کرتے تھے۔ دو فرض قربانیاں اور ایک بکرا نبی اکرمﷺ کی خدمتِ اقدس میں ایصال ثواب کیلئے نفلی قربانی کے طور پر۔ مجھے یاد نہیں کہ اس روایت اور اس تسلسل میں ان کی زندگی میں کبھی کوئی فرق آیا ہو۔ یہ روایت ان کی اولاد نے بھی سنبھالی اور اللہ کرے اس کی برکت اگلی نسلوں میں بھی جاری رہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ خود نبی اکرمﷺ نے بھی اپنی امت کی طرف سے مینڈھے کی قربانی کی تھی۔ بعد میں صحابہ کرام میں بھی اور امتِ مسلمہ میں بھی نبی کریمﷺ کی طرف سے قربانی کی روایت جاری رہی اور مجھے ہر بار اس روایت کا حصہ بننے پر فخر ہوتا ہے۔زمانہ بدل گیا ہے۔ قیمتیں بدل چکی ہیں۔ منظر بدل چکے ہیں۔ ذبیحہ ہاؤس اگرچہ بہت عام نہیں ہوئے لیکن بن چکے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ اگلے دس پندرہ سال میں جانوروں کی خریداریوں اور ذبح کرنے کے رنگ ڈھنگ بالکل ہی بدل جائیں۔ تغیر کو روکا نہیں جا سکتا‘ سیلاب اپنا راستہ بنا لیتا ہے۔ لیکن خدا کرے اگلی نسلوں میں یہ روایتیں جاری رہیں۔ خدا کرے میری اولاد جب میری عمر کو پہنچے تو وہ حال اور ماضی‘ دونوں زمانوں میں جینا نہ چھوڑے۔ دونوں موسم ان کی سانسوں میں سانس لیتے رہیں۔ بیک وقت دو زمانے ایک دوسرے کو چھوتے‘ چھیڑتے‘ کھیلتے ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بھاگے چلے جاتے ہوں اور اگلی نسلیں ان کے پیچھے پیچھے انہیں دیکھنے اور محسوس کرنے کیلئے ساتھ ساتھ اڑی جاتی ہوں۔ خدا کرے! خدا کرے!