بہت دنوں کے بعد ہاکی کی دنیا میں دو اہم واقعات ہوئے۔ پہلا یہ کہ ایک زمانے بعد میں نے دو ہاکی میچ دیکھے۔ دوسرا یہ کہ ایک زمانے کے بعد پاکستان کسی بڑے ہاکی ٹورنامنٹ کے فائنل تک پہنچا۔ کوالالمپور‘ ملائیشیا میں ایف آئی ایچ نیشنز ہاکی ٹورنامنٹ سیمی فائنل میں فرانس کو شکست دینے کی جو ہماری خوشی تھی‘ وہ فائنل میں آگے نہ بڑھ سکی بلکہ سچ یہ ہے کہ نیوزی لینڈ نے فائنل میں پاکستان کو 6-2 سے ہرا کر آئوٹ کلاس کر دیا‘ ورنہ پول میچ میں پاکستان نے اس کا کافی سخت مقابلہ کیا تھا۔ بہرحال ٹرافی اٹھانے کی خواہش تو پوری نہ ہو سکی لیکن یہ توقع کسے تھی کہ کچھ ماہ پہلے رینکنگ میں اٹھارہویں نمبر پر موجود ٹیم اس بڑے ٹورنامنٹ کا فائنل کھیل سکے گی۔ اگرچہ پاکستان سیمی فائنل میں پوائنٹس کی نہیں بلکہ بہتر گول اوسط کی بنیاد پر پہنچا لیکن فرانس جیسی ٹیم کو‘ جو بہرحال رینکنگ میں پہلی دس ٹیموں میں سے ایک ہے‘ شکست دینا بھی بڑی کارکردگی ہے۔ سیمی فائنل میں گول کیپر منیب نے پنلٹی شاٹس میں قابل تعریف دفاع کیا۔ فیلڈ پلیئرز میں حنان‘ افراز‘ سفیان اور رانا وحید وغیرہ کا کھیل دیکھ کر خوشی ہوئی۔ ان لڑکوں میں وہ جان ہے کہ مناسب تربیت اور اچھی سہولتیں ملیں تو قومی ہاکی ٹیم دوبارہ عروج حاصل کر سکتی ہے۔ اس جملے کو بس دعا اور خواہش کا سنگم سمجھ لیجیے‘ کیونکہ یہ پاکستانی ٹیم اور میرے محبوب ترین کھیل ہاکی کے بارے میں ہے۔
میں نے دو کھیل بہت مدت تک کھیلے۔ ہاکی اور ٹیبل ٹینس۔ یہ اب تک میرے محبوب کھیل ہیں۔ اگرچہ مجھے فٹ بال‘ ٹینس اور کرکٹ سے بھی دیکھنے کی حد تک بہت دلچسپی ہے لیکن ہاکی اور ٹیبل ٹینس میں نہ صرف خود کافی مدت تک حصہ لیا بلکہ ان کھلاڑیوں کے ساتھ بھی کھیلنے کا موقع ملا جو یا تو اس وقت بھی نامور تھے یا جنہوں نے بعد میں نام کمایا۔ سلیمانیہ ہائی سکول سمن آباد میں نویں جماعت میں داخل ہوا تو ملک بھر میں ہاکی کا شہرہ تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہاکی کے کھلاڑی سپر سٹار تھے اور کرکٹ کا گلیمر ابھی شروع نہیں ہوا تھا۔ یہ سمجھیے کہ اسد ملک اور خالد محمود وغیرہ ہیرو تھے اور اصلاح‘ شہناز‘ سلیم شیروانی‘ منور الزماں وغیرہ کی آمد میں کچھ سال باقی تھے۔ اس دور میں شاید ہی کوئی اچھا سکول رہا ہو جس کی ہاکی ٹیم نہ ہو۔ ہمارے سکول کی ٹیم پریکٹس کرتی یا میچ کھیلتی تھی تو میں باہر بیٹھ کر انہماک سے دیکھا کرتا۔ ڈربلنگ یا سٹک ورک کے ذریعے‘ جسے کیری کرنا بھی کہتے تھے‘ مخالف کھلاڑیوں کو ڈاج کرنا مجھے خاص طور پر بہت پسند تھا۔ رفتہ رفتہ میں نے بھی پریکٹس میں حصہ لینا شروع کر دیا اور جلد ہی ٹیم میں جگہ بنا لی۔ میرے ہم جماعت عقیل کی بہت حوصلہ افزائی ملتی رہی جو خود ایک بہترین کھلاڑی تھا۔ ایک سال کے اندر اندر جب ایک ٹورنامنٹ آیا تو میں سنٹر فارورڈ بن چکا تھا۔ ہم نے کئی اچھے ٹورنامنٹ کھیلے اور جیتے۔ ان فتوحات کا نشہ اب تک یاد ہے۔
اُس وقت کا جنون بھی اب تک یاد ہے۔ تھوڑا تھوڑا جیب خرچ جمع کر کے اور کچھ والد صاحب سے پیسے مانگ کر اچھی ہاکی خریدنا‘ اسے جان سے زیادہ عزیز رکھنا۔ پتا نہیں درست تھا یا مبالغہ کہ ہاکی کے بلیڈ کو تیل پلایا جائے تو اس کی شاٹس بہتر ہو جاتی ہیں‘ چنانچہ مسلسل کئی راتیں ہاکی بلیڈ تیل میں رکھا جاتا۔ میں اس زمانے میں گھر کے کمروں میں بال لے کر کرسیوں‘ میزوں‘ پلنگوں اور آتے جاتے لوگوں کو ڈاج کرتا پھرتا تھا۔ چنانچہ سٹک ورک بہت بہتر ہو گیا اور میں سکول کے علاوہ بھی کئی ٹیموں میں کھیلنے جانے لگا۔ سمن آباد موڑ پر گھر تھا اور قریب چوبرجی کوارٹرز گرائونڈ تھی۔ یہ گرائونڈ جو اب مرحوم ہو چکی‘ اُس وقت ہاکی اور کرکٹ کی اچھی ٹیموں کی نرسری تھی۔ میں اپنی ڈربلنگ اور پاسز کی وجہ سے ٹیم میں شامل ہو گیا۔ اسی طرح پی اینڈ کوارٹرز چوبرجی کے پیچھے گرائونڈز‘ جو ایم اے او کالج گرائونڈز کہلاتی تھیں‘ یہاں کرکٹ کا مشہور کلب پی اینڈ ٹی جم خانہ بھی تھا۔یہاں میرے کزن سعادت علی اور اشرف علی بھی کھیلتے تھے۔ جنہوں نے بعد میں بطور بیٹسمین اور وکٹ کیپر پاکستانی ٹیم میں جگہ بنائی اور ٹیسٹ کیپ حاصل کی۔ انہی گرائونڈز میں ہاکی ٹیم بھی کھیلتی تھی۔ ایک بہت اعلیٰ کھلاڑی‘ جس کا نام شاید ذکی تھا‘ اس کے بارے میں سب کہتے تھے کہ وہ کھیلتا رہے تو بہت اوپر جائے گا۔ ٹھیک معلوم نہیں لیکن غالباً تعلیم کی وجہ سے اس نے ہاکی چھوڑ دی تھی۔
یہ وہ زمانہ تھا جب قومی ہاکی ٹیم اپنے عروج پر اور ناقابلِ شکست تھی۔ اصلاح‘ شہناز شیخ‘ منظور الحسن‘ منور الزماں‘ منظور جونیئر‘ اختر رسول‘ حنیف خان‘ سمیع اللہ ہمارے ہیرو تھے۔ بعد میں حسن سردار‘ کلیم اللہ اور کچھ بعد شہباز سینئر بھی ان ہیروز میں شامل ہو گئے۔ نیشنل ہاکی چیمپئن شپ کا لاہور میں میچ دیکھنے ضرور جاتا تھا۔ کئی بار یونیورسٹی گرائونڈز چوبرجی میں اس کا فائنل ہوا۔ پی آئی اے‘ کسٹمز اور آرمی بہترین ٹیموں میں شمار ہوتی تھیں اور سارے بڑے کھلاڑی انہی تین چار ٹیموں میں شامل ہوتے تھے۔ کچھ عرصے بعد میں فجر کے بعد علی الصباح باغ جناح یعنی لارنس گارڈن جانے لگا۔ یہاں کافی اچھے کھلاڑی تھے اور اولمپین تنویرڈار کا بھتیجا توقیر ڈار بھی آتا تھا۔ توقیر ڈار بعد میں پاکستانی ہاکی ٹیم میں بھی شامل ہوا۔ میں اسلامیہ کالج سول لائنز میں داخل ہوا تو اس کی بھی ایک اچھی ٹیم تھی۔ سلیم شیروانی نامی فارورڈ یہیں کھیلتا تھا۔ وہ بعد میں نیشنل ٹیم میں شامل ہوا۔ اسی زمانے میں میری آنکھوں کو مستقل عینک اوڑھنا پڑی اور عینک کے ساتھ کھیلنا بہت مشکل تھا؛ چنانچہ رفتہ رفتہ یہ شوق دیکھنے تک محدود ہو گیا۔
اب ہاکی بہت بدل چکی ہے۔ پاکستانی ٹیم بھی بہت نیچے جا چکی ہے اور کھیل کے طور پر ہاکی کا حسن بھی گہنا گیا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اب کئی سہولتیں بھی ہیں جن سے اُس وقت کی ہاکی محروم تھی۔ اب امپائر کے فیصلے کے خلاف وڈیو ریفرل کی اپیل کر کے اسے بدلوانے کی سہولت ہے جو پہلے نہیں تھی۔ کھیل میں تبدیلیاں اسی وقت سے شروع ہو گئی تھیں جب مصنوعی گھاس یعنی آسٹرو ٹرف پہلی بار آئی تھی۔ اگرچہ بعد میں ہونے والی ہر تبدیلی بری نہیں لیکن بنیادی مسئلہ یہ ہوا کہ یورپی فیصلہ ساز اور بااختیار لوگ ہاکی کو فٹ بال‘ کرکٹ اور دوسرے مقبول کھیلوں کے برابر لانا چاہتے تھے۔ ہاکی کو مقبول تر بنانے کے لیے انہوں نے بہت سی تبدیلیاں کیں۔ پہلے 45‘ 45 منٹ کے دو ہاف میں ڈیڑھ گھنٹے کا کھیل ہوتا تھا۔ اب 15‘ 15 منٹ کے چار کوارٹرز ہیں جن میں کل ایک گھنٹے کا کھیل ہے۔ یہ کافی کم دورانیہ ہے جس میں تشنگی محسوس ہوتی ہے۔ آسٹرو ٹرف کی تبدیلی اچھا فیصلہ تھا۔ ہموار سطح پر گیند زیادہ بہتر کنٹرول کیا جانے لگا اور پاسز بھی بہت بہتر ہو گئے۔ نیلی گرائونڈ پر سفید گیند میڈیا پر بھی زیادہ واضح نظر آتی ہے۔ اس پر جسمانی فٹنس بھی بہتر چاہیے۔ لیکن قواعد اور کھیل کے دورانیے میں جو تبدیلیاں کی گئیں‘ ان میں سے کئی ایک سے کلاسیکل ہاکی کی خوبصورتی خراب ہو گئی۔ باڈی ڈاجز‘ شارٹ پاسز اور ڈربلنگ کی گنجائش کم رہ گئی۔ لانگ پاسز اور ٹیکنیکل کھیل نے زیادہ حصہ گھیر لیا جس میں پانچ فارورڈ‘ تین ہاف بیک اور دو فل بیک کی ترتیب اور جگہ ختم ہو کر رہ گئی۔ اب بعض اوقات کھلاڑی فارورڈ اور فل بیک دونوں جگہ ہوتا ہے۔ گیند لے کر گھومنا یعنی ٹرننگ اب فائول ہی نہیں۔ آبسٹرکشن یعنی گیند حاصل کرنے میں مخالف کھلاڑی کا جسم رکاوٹ بن جانا‘ اب ڈھیلا ڈھالا سا فائول ہے۔ پنلٹی کارنر حاصل کرنا آسان ہو گیا ہے۔ پہلے آف سائیڈ ایک اہم فائول تھا‘ اب یہ فائول ہے ہی نہیں۔ اور بھی کئی فائولز ختم ہو گئے ہیں۔ یہ سب تبدیلیاں اس لیے کی گئیں کہ زیادہ سے زیادہ گول سکور کیے جائیں اور تماشائیوں میں زیادہ دلچسپی پیدا ہو سکے۔ اس چکر میں ہاکی فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ کے برابر تو نہ آ سکی لیکن اس کا بہت سا حسن برباد ہو گیا۔ میرے خیال میں یہ حسن اسی خراب سوچ نے خراب کیا ہے جس نے زندگی کا ہر شعبہ مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔ یعنی زیادہ سے زیادہ شہرت اور زیادہ سے زیادہ پیسہ۔ سچ یہ ہے کہ ہاکی اب گہنایا ہوا حسن ہے۔