میں نے بٹن دبایا اور سینیٹ میں بحث کا رُخ موڑا۔ مجھ سے پہلے کئی حکومتی ہیوی ویٹ اور اکثر اپوزیشن ارکان نے ایک سی زبان بولی۔ نیب کا ادارہ بحث کا موضوع تھا‘ جس کا تحرک صاحبِ طرز سینیٹر فرحت اللہ بابر نے کیا۔
عرض کیا: جنابِ چیئرمین آج کی بحث سے یوں لگتا ہے جیسے پارلیمنٹیرین اور سیاستدان نیب کے وِلن ہیں۔ اس کا ایک اور مفہوم بھی بنتا ہے‘ یہی کہ پارلیمنٹ کرپشن مکاؤ مہم چلانے کی بجائے کرپشن بچاؤ مہم کے لیے اپنے ہی اداروں پر چڑھ دوڑی ہے۔ اگر گزشتہ 8 سال میں نون لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر چارٹر آف ڈیموکریسی کی ایک شِق پر بھی عملدرآمد نہیں کروا سکے تو قصور کس کا ہے؟ پھر میں نے چارٹر آف ڈیموکریسی لہرایا اور کہا: اس پر وزیر اعظم نواز شریف اور شہید بینظیر بھٹو کے دستخط موجود ہیں۔ اگر نیب مشرف کی یادگار ہے‘ تو پھر وہ احتساب کا ادارہ جس کا وعدہ کیا گیا تھا‘ کیوں نہیں بن سکا؟ آج دنیا کی تاریخ میںکرپشن کے خلاف سب سے اہم موڑ آیا ہے‘ جو دنیا بھر کے غریبوں کے حالات بدل سکتا ہے اور جس کے دو سنگِ میل ہیں۔
پہلا یہ کہ، تاریخ انسانی میں کرہ ارضی پر سب سے بڑا یعنی میگا کرپشن کیس پانامہ سے شروع ہوا‘ جس میں ہماری سیاسی اشرافیہ، حکمران اور ان کے نابالغ بچے، سیاست کے نام پر بزنس کرنے والے کئی نام اور مشرق و مغرب کے بڑے بڑے جغادری سامنے آئے۔
دوسری جانب، بغداد میں مقتدیٰ الصدر سے لے کر لندن میں ڈیوڈ کیمرون کے گھر تک‘ عوام کا ایک سمندر کرپشن کے خلاف شاہراہوں پر اُمڈ آیا ہے۔ ایسے ماحول میں الٹی گنگا مت بہائیں‘ سب احتساب چاہتے ہیں۔ آج نہیں تو کل احتساب ہونا ہی ہے۔
پھر اگلے روز سینیٹ میں مشرف کی بیرون ملک روانگی اور آرٹیکل 6 کی بحث میں حصہ لے کر باہر نکلا تو پارلیمنٹ کے دروازے پر کیمرہ بردار رپورٹروں نے روک لیا۔ سوال تھا: جنرل راحیل شریف کے بیان پر تبصرہ کر دیں‘ جس میں سپاہ پاکستان کے سپہ سالار نے کہا کہ ہر سطح پر سب کا احتساب ہونا چاہیے۔ رنگ برنگے سوال اکٹھے کر کے میں نے ایک ہی تبصرہ یوں کیا: یہی تو ہاؤس آف فیڈریشن نے کہا ہے۔ گزشتہ 4 ماہ سے یہی بات تو چیف جسٹس سپریم کورٹ انور ظہیر جمالی کہہ رہے ہیں۔ سوائے چند ''پاکٹ‘‘ دانشوروں کے پہلی بار کرپشن کے خلاف الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور سوشل میڈیا کا سوادِ اعظم بیک آواز احتساب کا مطالبہ کر رہا ہے۔ بے رحم، بے لاگ، بے پروا، فوری اور منصفانہ احتساب۔ راحیل شریف نے قوم، میٖڈیا، پارلیمنٹ اور چیف جسٹس کی ہی زبان بولی ہے۔ ماسوائے اِن کے جن کی چوری پکڑی گئی‘ یا ان کے چند بے روزگار مگر تاحیات ذاتی خادموں اور ملازموں کے، کون ہے جو بلا امتیاز احتساب کے بجائے پتلی گلی ڈھونڈ رہا ہے۔
بات ہو رہی تھی احتساب کے اداروں کی۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے میں سٹریٹ کرائمز سے لے کر اغوا برائے تاوان‘ قتل سے لے کر ریاست کے خلاف جرائم کے انسداد کا ادارہ دیکھ لیں، پنجاب پولیس۔ سیاست اور سیاستدانوں نے اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ ایس ایچ او سے اعلیٰ ترین عہدوں تک اکثریت کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی خاندان سے ہے۔ 13 ڈاکوؤں کے ساتھ گرفتار ہونے والا چھوٹو گینگ کا سربراہ ایک طرف‘ پنجاب کی گڈ گورننس، بڑھک باز کابینہ اور سیاسی تعیناتیوں کے عادی پولیس افسران دوسری جانب۔ راجن پور کچا کے علاقے میں آپریشن کی کچھ جھلکیاں یہ ہیں:
نمبر1، آپریشن 23 روز پہلے شروع ہوا۔ ظالمانہ مذاق ہوا‘ یہ کہ آپریشن کے آغاز کے 7 دن بعد تک نہ آپریشنل کمیٹی بنی اور نہ ہی آپریشن کا کمانڈر لگایا گیا۔
نمبر2، آپریشن کے آغاز کے 9 روز بعد 7 اپریل 2016ء کے دن آئی جی پنجاب پولیس نے پہلے سے جاری آپریشن کو ''کمانڈ‘‘ کرنے کے لئے 9 رکنی آپریشنل کمیٹی تشکیل دی۔ 9 روز بعد ایڈیشنل آئی جی پنجاب آپریشنز کے دستخطوں سے جاری نوٹیفکیشن اس بے رحم‘ مجرمانہ غفلت کا کھلا ثبوت ہے۔
نمبر3، اہم ترین سوال یہ ہے کہ جلدی جلدی کس کے کہنے پر یہ ناکام آپریشن شروع کیا گیا؟ اور ''ڈسپلنڈ فورس‘‘ کا دعویٰ کرنے والے پولیس کے بڑے‘ آپریشن کے شہید اہلکاروں کو لیڈ کرنے کے لئے آپریشن والی جائے واردات پر کیوں نہ پہنچے تھے؟ حالانکہ متاثرہ علاقے کے رپورٹر اور صحافی موقع پر موجود رہے۔
نمبر4، اس گینگ کی دہشت اور وارداتوں کے پیچھے مضبوط سیاسی ہاتھ ہیں۔ یہ بات میں نے آپریشن کے پہلے روز ٹی وی سکرین پر کھل کر کہہ ڈالی۔ پھر اسی صفحے پر لکھا کہ چھوٹو کے سہولت کار پکڑے جائیں۔ پھر سہولت کار پکڑے گئے‘ اور پاک فوج کی موجودگی میں اصلی آپریشن کو ہوتا دیکھ کر ڈاکوؤں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ پھر سر جھکا کر پاک فوج کے سامنے ہتھیار رکھ دیے۔ ڈاکوؤں کو مکمل یقین تھا کہ پاک فوج ان کے گینگ کا ڈرامہ نہیں چلنے دے گی۔ دوسرا یہ بھی اعتماد کہ انہیں جعلی مقابلے میں مارا نہیں جائے گا۔
اب چھوٹو گینگ فوج کی تحویل میں ہے۔ آئی ایس پی آر نے یہ وعدہ کر کے اچھا کیا۔ تفتیش کی تکمیل تک پنجاب میں بھارتی اسلحے سے مسلح ریاست سے لڑنے والا گینگ فوج کی کسٹڈی میں ہی رہے گا۔ پنجاب کے عوام نے یہ سن کر بھی سکھ کا سانس لیا کہ پنجاب میں ڈاکو راج کے خلاف آپریشن جاری رہے گا۔ چھوٹو گینگ کا انجام دیکھ کر لوگ پُرامید ہو ئے ہیں اب ''موٹو گینگ‘‘ کی باری بھی آئے گی۔ وہی موٹو گینگ جو 200 سے زیادہ ناموں پر مشتمل ہے‘ جس کے پیٹ کا سائز پہلے انچوں میں، پھر میٹروں سے کلومیٹروں میں اور اب کئی براعظموں تک پھیل چکا ہے۔
ایک دن پہلے وزارتِ سمدھی امور نے ہاؤس آف فیڈریشن کے سامنے اعتراف کیا: آج پاکستان پر مجموعی قرضے کا بوجھ 180کھرب سے بھی باہر ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ حکومت نے جون 2013ء سے لے کر جنوری 2016ء کے دوران عالمی مالیاتی فنڈ کے بنئے کو10 ارب 73 کروڑ ڈالر سود کی مد میں ادا کیے۔
فوجی ترجمان نے کہا: ملک میں کوئی نو گو ایریا نہیں بچے گا۔ ساتھ اس عزم کا اظہار بھی کیا: چھوٹو گینگ کے سہولت کار بھی بچ نہیں پائیں گے۔ اس تناظر میں دو اہم باتیں سامنے آئی ہیں۔ جو آپریشن تک نہ کر سکی اس پنجاب حکومت نے چھوٹو گینگ کے خلاف جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ اس کا سبب تازہ انکشافات ہیں۔ چھوٹو کے ابتدائی بیان میں 12 سیاسی نام سامنے آئے۔ پنجاب میں برسر اقتدار پارٹی کے لوگ سرفہرست ہیں۔ انتہائی مؤثق ذریعہ کہتا ہے: چھوٹو کے وہ ثبوت برآمد کر لئے گئے‘ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ڈاکو کن سیاسی لوگوں کے ساتھ رابطے میں تھے‘ اور کون ان کا پیغام رساں تھا۔
قوم انتظار میںہے کہ قانون چھوٹو گینگ سے موٹو گینگ تک یکساں لاگو ہو گا‘ یا انصاف کی ایک آنکھ آج بھی بند ہے؟