کبھی کبھی کوئی ایک قدم تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے ،ایسا ہی ایک قدم ہندوستان میں ایسٹ انڈیاکمپنی کی آمدتھی جس نے ہندوستان کو غلامی کے اندھیروں میں دھکیل دیا ۔ ابتداء میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ایک تجارتی کمپنی کے طورپرکام کاآغاز کیا لیکن رفتہ رفتہ اس کا نفوذ اقتدار کی غلام گردشوں تک پھیل گیا ،مغلوں کے دم توڑتے اقتدار نے ایسٹ انڈیا کواس مقام تک پہنچادیا جہاں پہنچ کر وہ ہندوستان کے سیاہ وسفید کی مالک بن گئی اورپھرایک طویل عرصے تک چندہزار بدیسی حکمران کروڑوںہندوستانیوںکی قسمتوںسے کھیلتے رہے۔ ایسٹ انڈیاکمپنی کے معاشی استحصال سے پورے ملک میں غربت کی شرح میں خطرناک حدتک ا ضافہ ہو گیا۔ بدیسی راج نے مقامی ہندوستانیوں کی معاشرتی ،ثقافتی اورمذہبی زندگیوں کوبری طرح متاثر کیا۔ مسلمانوں کیلئے سب سے بڑاچیلنج انکے معاشی سٹیٹس میں اچانک تبدیلی تھی وہ جوکل تک ہندوستان کے حکمران تھے آج دوسروں کے دست نگر بن گئے تھے وہ تعلیم اورمعیشت میں سب سے پیچھے رہ گئے تھے۔ ہندوستان کے باشندوں نے من حیث المجموع ایسٹ انڈیاکمپنی کے تسلط کوکبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ ہندوستان کے مختلف علاقوں میں وقتاً فوقتاًکسانوں اورجاگیرداروں کی مزاحمتیں ابھریںجنہیں ریاستی تشددسے دبادیاگیا لیکن سامراج کے خلاف نفرت کی چنگاریاں اندر ہی اندر سلگ رہی تھیں اور پھر1857 میں ہوا کے ایک جھونکے نے ان چنگاریوں کوایک ایسے الائو میں بدل دیا جس کی لپیٹ میںہندوستان کے کئی علاقے آگئے یہ1857ء کی جنگ آزادی تھی جس سے برطانوی اقتدارکا سنگھاس کوڈول گیا۔
1857ء کی جنگ ِآزادی برطانوی سامراج کے خلاف سب سے بڑی مزاحمت تھی۔ اس جنگ میں معاشرے کے سبھی طبقوں نے حصہ لیا۔ ایک طرف آزادی کے متوالے تھے جن کے دلوں میں جذبوں کی سلگتی آگ نے انہیں جاں سے گزرنے کاحوصلہ دیاتھا۔ دوسری طرف ایسٹ انڈیا کمپنی تھی جس کے پاس تربیت یافتہ فوج، جدیداسلحہ، بہترجنگی حکمتِ عملی اورمرکزی قیادت کی قوت تھی۔اس جنگ میں سینکڑوں جوان آنکھوں میں آزادی کے خواب سجائے موت کی وادی میں اتر گئے۔ ہزار وں جیلوں میں قید کردیے گئے بہت سے سرپھروں کو پھندہ ڈال کر درختوں سے لٹکادیاگیا۔ سرِ عام پھانسیوں کامقصد عام ہندوستانیوںکو سامانِ عبرت فراہم کرناتھا۔
1857ء کی جنگ آزادی کے بعد کاوقت ہندوستان اورخصوصاً مسلمانوں کیلئے انتہائی پریشان کن تھا،اس صورتِحال میںایک مختلف طرز کی حکمتِ عملی درکار تھی ۔اب جوش سے نہیں ہوش سے کام لینے کا وقت تھا۔ ایسے میں سید احمد خان ،جو بعد میں سرسید کے نام سے مشہور ہوئے ،مسلمانوں کی زبوں حالی کاایک مختلف علاج لے کر سامنے آئے۔ ان کے خیال کے مطابق مسلمانوں کے زوال کی ایک بڑی وجہ جدیدسائنس اورٹیکنالوجی سے دوری تھی سرسیدکو اس حقیقت کابخوبی ادراک تھاکہ طاقت کا فرسودہ تصور اب بدل چکا ہے کسی زمانے میں توپ اور تلوار کوطاقت سے جوڑا جاتاتھا لیکن اب زمانہ بدل گیا تھا اور علم اورتعلیم طاقت کے استعارے بن کرابھرے تھے۔1857ء کی جنگ آزادی کے بعد نڈھال مسلمان قوم کی بحالی کاایک ہی طریقہ تھا ،تعلیم۔ ایسی تعلیم جوانہیں اپنی روایت کے ساتھ عالمی منظر نامے پرہونے والی تبدیلیوں سے بھی آشناکرے نصاب میں مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی کی اہمیت کوبھی اجا گر کیا گیا۔ اس سے پہلے کہ ہم سرسید کی علیگڑھ یونیورسٹی کی خدمات پرنظرڈالیں، یہ بات بہت اہم ہے کہ ہم یہ دیکھیں کہ اس وقت کے ہندوستان کوبرطانوی راج سے کون سے بڑے مسائل درپیش تھے۔ ایک تو برطانوی راج ہندوستان کا معاشی استحصال کررہاتھا اس کانتیجہ یہ نکلا کہ مقامی کسان اور دستکار نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ مقامی سطح پر تعلیمی میدان میں حکو متی سرپرستی سے محروم ہوگئے۔ متبادل تعلیمی نظام جوبرطانوی راج نے پیش کیا وہ ناہمواریوں پرمشتمل اوربحیثیت مجموعی ہندوستانیوں کی پہنچ سے بہت دورتھا۔
ایک اور چیلنج عیسائی مشزیوں کافعال کام تھا جس کی بدولت وہ غریب ہندوستانیوں کوتبلیغ کے ذریعے عیسائی بنارہے تھے۔ اسی سے متعلق درپیش ایک اہم چیلنج مغرب کے اسلام پر پے درپے حملے تھے جن کے ذریعے لوگوں کے اذہان متاثرہورہے تھے پہلے سے ہی مسلمانوں اوربرطانوی راج کے درمیان ایک قابل فہم دوری تھی جسے 1857ء کی جنگ آزادی نے مزید بڑھادیاتھا۔ اوراس دوری اورعلیحدگی کے مسلمانوں پرکچھ اچھے اثرات نہ تھے مسلمانوں کو نوکریوں کے میدان میں دور رکھاجارہاتھا اورطاقت کی غلام گردشوں میں ان کا گزر مشکل بنا دیا گیا تھا۔ اس سارے منظر نامے میں سرسیدنے مسلمانوں کوطاقتور بنانے کے لئے ایک الگ راستہ بنانے کافیصلہ کیا، ایک ایسارستہ جس کے نتیجے میں مسلمانوں کا راج سے تصادم بھی نہ ہو اور وہ اپنے آپ کوجدیدعصری علوم اورمہارتوں سے لیس کرکے ہندوستان میںاپنا کھویا ہواسماجی تشخص بھی بحال کرلیں ۔ سرسید اس حقیقت سے بخوبی آگاہ تھے کہ ان کو درپیش چیلنج بہت بڑا ہے اوراس کیلئے انہیں ایک جامع جواب کی ضرورت ہے، ایک ایسا جواب جو جذباتیت کے بجائے حقیقت پسندانہ تجزئے پر مبنی ہو علیگڑھ تحریک مسلمانوں کودرپیس مسائل کے حل کیلئے دانش پرمبنی ردعمل تھی۔ اس تحریک کے بہت سے اجزاء تھے۔ جن کاواحد مقصد مسلمانوں کوطاقتور بناناتھا۔ تحریک کاایک جزوایسے ادب کی تشکیل تھی جس کی بدولت مسلمانوں میںمعاشرتی وسیاسی تبدیلی آئے۔ اس مقصد کیلئے سرسید نے کئی کتابیں لکھیں۔ ان کارسالہ ''تہذیب الاخلاق‘‘ مسلمانوں کی سماجی تعلیم کاایک اہم آلہ تھا۔ ایک اورچیلنج جس کاسرسید نے سامنا کیا وہ اسلام اوراسلام کی نمایاں شخصیات پر تنقید تھی ۔
سیاسی میدان میں سرسید نے یہ بھانپ لیاتھا کہ اقلیت ہونے کے باعث ہندوستانی مسلمان روایتی جمہوریت میںپیچھے رہ جائیںگے اورسرسید کی یہی سوچ دوقومی نظریے کی بنیادتھی۔ سرسید کے اس خیال کوان کے جانشین نواب محسن الملک نے شملہ وفدکے دوران عملی جامہ پہنادیا جس میں انہوں نے مسلمانوں کی نمائندگی کیلئے ایک انتخاب کنندگان کامطالبہ کیا۔ دو قومی نظریے کی یہ آواز بعد میں علامہ اقبال اور قائدِاعظم محمد علی جناح کی آوازوں میں ڈھل کر ایک علیحدہ وطن کے پُر زور مطالبے کی شکل اختیار کر گئی۔ تحریک علیگڑھ کامرکزی نکتہ سرسید کے تعلیمی اقدامات تھے ۔1869کویورپ میںقیام کے دوران آپ نے وہاں کے تعلیمی نظام کابغورمشاہدہ کیا۔ ان کاخواب تھاکہ وہ ایک ایساادارہ قائم کریں جس میں مقامی اورعالمی نصاب کاامتزاج ہواوران کے اس خواب کی تعبیر 1875ء میںعلیگڑھ کے قیام سے ہوئی۔یہ سکول جلدہی درجہ ترقی پرفائز ہوکر اینگواورینٹل کالج بن گیا۔ یہ کالج ایک اقامتی درسگاہ تھا جس کامقصد طلبہ کو بامقصد تعلیم کی فراہمی تھی یہی وجہ تھی کہ اس ادارے میںتدریس کے ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں جیسے کھیل اورمباحثوں پربڑا زوردیاجاتاتھا۔ یہی کالج1920ء میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے درجے پرفائز ہوگیا۔ علیگڑھ کالج کامقصد مسلمانوں کوطاقتور بناناتھا اورمحمڈن ایجوکیشنل کانفرنس اورسائنٹیفک سوسائٹی جیسے اقدامات سے اس مقصد کو تقویت ملی۔
علیگڑھ یونیورسٹی تحریکِ علیگڑھ کاایک اہم ترین جزوتھی۔ اسی تحریک نے مسلمانوں کے دلوں میں یہ امید جگائی کہ وہ جدیدعلوم سے لیس ہوکر سیاسی وسماجی آگاہی حاصل کرسکتے ہیں۔ یہ اسی تحریک کااعجاز تھا کہ اس نے ایسے گریجویٹس پید اکئے جوایک موثر اورمنطقی انداز میںاپنا ذاتی نقطہ نظرپیش کرسکتے تھے۔یہ علی گڑھ کے طلبا ہی تھے جنہوں نے قائدِ اعظم محمدعلی جناح کی زیرِ قیاد ت پاکستان کی تحریک میں ہراول دستے کا کردار ادا کیا ۔ یہ وطن اسی بیج کاثمرہے جسے سرسید نے مدتوں پہلے بویاتھا۔سچ ہے کبھی کبھی کوئی ایک قدم تاریخ کا رخ موڑ دیتا ہے۔ علی گڑھ مدرسے کا قیام ہماری منزلِ یقیں کی جانب ایک ایسا ہی قدم تھاجس نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔