وہ سر ما کا ٹھٹھرتا ہوا دن تھا‘ جب مجھے اطلاع ملی کہ سکینہ اب اس دنیامیں نہیں رہی۔ مجھے یوں لگا اچانک ایک پورے عہدسے میرا رشتہ ٹوٹ گیاہے۔ نام تو اس کاسکینہ تھا‘ لیکن گائوں میں سب اسے کینوکے نام سے پکارتے تھے۔ بڑی بڑی خوبصورت سیاہ آنکھیں ‘جوسرمے سے اوربڑی لگتیں‘ سیاہ گھنے بال‘ ناک میں کوکا اورپائوں میں کھسہ۔اماں بتاتی تھیں‘ جب ان کی شادی ہوئی اوروہ ایک اجنبی گائوں میں آئیں‘ توزندگی اتنی آسان نہیں تھی۔ سولہ سال کی عمرمیں توکھیلنے کی عمرہوتی ہے۔اس عمر میں ماں گھر داری میں پڑ گئیں ۔ اب میں سوچتاہوں‘ توحیران ہوتاہوں کہ ماں اتنے سارے کام کیسے کرتی تھی؟ کھانا پکانا‘ چکی پیسنا‘ گھرکی صفائی اورکپڑوں کی دھلائی اور بچوں کی نگہداشت ۔ ایسے میں انہیں سکینہ مل گئی۔اس وقت اس کی عمرآٹھ دس سال ہوگی۔شوخ وشنگ سکینہ ‘میری ماں کی ہم جولی بن گئی ۔وہ ہرروز آتی اور اپنے ساتھ ڈھیروں باتیں لاتی۔ یوں ایک اجنبی گائوں کے اجنبی ماحول میں ماں کے لیے سکینہ تازہ ہوا کاایک جھونکاثابت ہوئی۔ وہ چھوٹے موٹے کاموں میں ہاتھ بٹاتی اور ہم بہن بھائیوں کواٹھاتی‘ بہلاتی اورمصروف رکھتی۔ ایسے میں سکینہ کاساتھ ایک غنیمت ہوتا۔ سکینہ کی زندگی کاپہلادن اس کی ماں کی زندگی کاآخری دن تھا۔ سکینہ کی ماں اپنی بیٹی کاچہرہ نہ دیکھ سکی۔ یوں پہلے دن سے ہی سکینہ کو اس کی پھوپھی نے گودلے لیا۔اگلے زمانے کی محبتیں بھی کیسی محبتیں تھیں !پھوپھی نے اپنی زندگی سکینہ کے لیے وقف کردی اورساری عمرشادی نہیں کی۔سکینہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھی کہ اس کے پاس جائیداد کی کمی نہیں تھی۔ گائوں میں زمین کسان کا زیورہوتی ہے۔ سکینہ کے پاس یہ زیور وافرمقدار میں موجودتھا۔ سکینہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولادتھی۔ یوں وہ ساری جائیداد کی بلاشرکت غیرے مالک تھی۔ اب اس کی عمراتنی ہوگئی تھی‘ جب ماں باپ لڑکیوں کی شادی کاسوچنے لگتے ہیں۔کئی بارپھوپھی نے شادی کا ذکر چھیڑا‘ لیکن ہربار سکینہ طرح دے جاتی۔ وہ پارہ صفت تھی؛ پل میں یہاں‘ پل میں وہاں۔ اس زمانے میں لڑکیوں کواختلاف رائے کی اجازت نہ تھی‘ لیکن سکینہ اس کے برعکس تھی۔ اپنی مرضی دھڑلے سے کرتی اور جس چیز کو صحیح سمجھتی ‘اس پرڈٹ جاتی۔اس کے شوق بھی عجیب تھے ؛مٹی کھانے میں اسے مزاآتا۔ ان دنوں گائوں کے اکثر مکانوں پرمٹی کالیپ ہوتا۔ مٹی کی دیواروں پرتیزدھوپ جب دراڑیں ڈالتی‘ تو کئی جگہوں سے مٹی اکھڑجاتی۔ مٹی کے یہ ٹکڑے سکینہ کی پسندیدہ خوراک تھی۔ مٹی کے علاوہ وہ کوئلے بھی کھاتی۔ معلوم نہیں مٹی اورکوئلے اس کے جسم پرکیسے ثرات ڈالتے ہوںگے؟ لیکن اس کے خوبصورت سفیددانت کوئلوں کے استعمال سے جگ مگ جگ مگ کرتے تھے۔
ماں نے اسے کئی بار سمجھایا اورڈرایا کہ اس کی صحت کے لیے مٹی اورکوئلے کتنے نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں۔ وہ بات سنتی‘ بظاہرمان بھی جاتی‘ وعدہ بھی کرلیتی اورکچھ دن اس وعدے پرعمل بھی کرتی‘ لیکن مٹی اورکوئلے اس کیAddictionبن چکے تھے۔ کبھی کبھی میں نے اسے حقہ بھی پیتے دیکھا اورکبھی سگریٹ کے کش لگاتے بھی۔یہ سکینہ تھی‘ جسے اردگرد کے لوگوں کی پروا نہیں تھی۔ وہ ان کی باتوں کوہنسی میں اڑادیتی۔ اس کے خیال میں لوگوں کی اکثریت منافقت کی چادراوڑھے ہوئے تھی۔ وہ کہتی تھی کیوں نہ اندر اورباہر کی دنیا ایک جیسی ہو؟ کہنے کو بہت سے لوگ یہ بات زبانی کہتے ہیں‘ لیکن عملی طور پراس پرعمل کرنا بہت مشکل ہے۔ معاشرے کادبائو فرد کی شخصیت کواپنی مٹھی میں لے لیتا ہے اور معاشرے کے رسوم ورواج سے بغاوت کی صورت میں فرد کوالگ تھلگ کردیاجاتا ہے۔
ہاں تومیں ان دنوں کی بات کررہاتھا ‘جب سکینہ شادی کی عمرکوپہنچ گئی تھیں۔ وہ گلیوں‘ کھیتوں‘ کھلیانوں میں بے دھڑک گھومتی نظرآتی‘ پھر ایک روز وہ خبرآہی گئی‘ جس کاسب کوانتظارتھا۔ سکینہ کی شادی کی خبر گائوں میں ہرگھرکوجیسے موضوع مل گیا۔ گائوں کی دوبھٹیوں ‘جہاں ہم دانے بھنوانے جاتے‘ وہاں اس روزسکینہ کی شادی کاذکرتھا ‘اسی طرح گائوں میں تین چارہٹیوں(دکانوں) میں بھی سب کی
گفتگوکاموضوع یہی تھا۔ پتا چلا کہ سکینہ کی شادی اس کے کزن سے ہورہی ہے۔ میں چھوٹاساتھا‘ لیکن آتے جاتے گلیوں میں ‘میںنے سکینہ کے کزن دیکھاتھا۔ وہ ایک درازقد‘ وجیہہ نوجوان تھا۔گائوں میں شادی کے انتظامات میں سب سے بڑا eventلوگوں کودعوت کاہوتا ہے۔ اس کے لیے سکینہ کے والدنے بھرپوراہتمام کیاتھا ۔سوداسلف خریدلیاگیا۔ لکڑیوں کاانتظام کرلیاگیا۔ گائوں کی کسی بھی شادی میں پورا گائوں مہمان ہوتا ہے۔ سکینہ کی پھوپھی اوروالد چاہتے تھے‘ دعوت اتنے بڑے پیمانے پر ہوکہ لوگ یادرکھیں۔ پھوپھی کے ذہن پہ یہ بات بھی تھی کہ سکینہ کویہ احساس نہ ہو کہ اس کی ماں زندہ نہیں‘ تو شادی کے انتظامات میں کمی رہ گئی۔ سکینہ ایک جنگلی پرندے کے مانندتھی‘ آزادہوائوں کی عادی‘ جس کی پرواز کھلی فضائوں میںتھی۔ سب سوچ رہے تھے کہ یہ پرندہ جب شادی کے پنجرے میں آئے گا‘ توکیسے کھلے آسماں کے لیے کیسے پھڑپھڑائے گا۔ ہم گائوں کے بچے اس انتظار میںتھے کہ سکینہ کی شادی کے موقع پر جب اس کی ڈولی پرپیسے لٹائے جائیںگے۔ کیسے ہم بچے بھاگ کرہوامیں اڑتے ہوئے سکوں اورنوٹوں کوپکڑیںگے‘ لیکن ہمارا یہ خواب خواب ہی رہا۔ عین شادی والے دن سکینہ نے کہا؛وہ شادی نہیں کرے گی۔ اس زمانے میں گائوں میںکسی لڑکی کاشادی سے انکارایک ان ہونی بات تھی۔ خاص کرجب شادی کے سارے انتظامات کرلیے گئے ہوں۔ گائوں کی فضامیں یہ ایک دھماکا تھا۔ عورتوں نے اپنی انگلیاں دانتوں میں دبالی تھیں۔ سرگوشیاں اب بلندآواز میں بدل گئی تھیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی لڑکی یہ جرأت کرے۔ آخرانکار کی وجہ کیاہے؟سب کے ہونٹوں پر ایک ہی سوال تھا۔ اس کاجواب صرف سکینہ کے پاس تھا۔ وہ شادی والے دن ہمارے گھرآگئی تھی۔ اس نے ماں کوبتایا کہ انکار کی دووجوہ ہیں۔ ایک تولڑکا مجھ سے زیادہ خوبصورت ہے اوردوسرا اس شادی کی وجہ میں نہیں‘ میری جائیداد ہے۔ اس فیصلے کی گونج گائوں کے کھیتوں اورکھلیانوں میں دیرتک رہی۔ سکینہ نے سب کی باتیں سنیں‘ لیکن اپنی بات پرقائم رہی۔ آزادی کی محبت میں گرفتار پرندے نے شادی کے بندھن میںگرفتار نہ ہونے کاعہدکیا اورپھرساری عمراس عہدکونبھایا۔
وعدہ کرکے بھول جانا ‘اس کے لیے عام سی بات تھی۔ ایک دفعہ ہم گائوں سے شہرآرہے تھے۔ یہ سرسوں کے کھلنے کا موسم تھا۔ ان دنوں گائوں سے ایک دوبسیں شہر کے لیے چلتی تھیں۔ ماں نے گائوں سے پگڈنڈی پراڈے کی طرف جاتے ہوئے سکینہ سے کہا: سرسوں کا ساگ مل سکتا ہے؟ سکینہ ہمیشہ کی طرح رضاکارانہ انداز میں کہا: آپ اڈے پرپہنچیں‘ میں ابھی ساگ چن کرلاتی ہوں ۔ہم اڈے تک پہنچے بس آنے کاوقت ہورہاتھا ‘لیکن سکینہ کا دوردورتک اتا پتا نہیں تھا ۔آخر بس آگئی اورہم سب پربیٹھ کرشہرآگئے۔ ماں ہمیشہ کی طرح پریشان تھیں ‘خداخیرکرے سکینہ اڈے پرکیوں نہیں پہنچی؟ہم شہرآگئے۔ اس زمانے میں موبائل توکیا عام فون بھی ناپیدتھے۔ کچھ دنوں بعدہی سکینہ اچانک کھلھلاتی ہوئی شہر میںہمارے گھرآئی‘ سرسوں کے ساگ کے ہمراہ ۔کہنے لگی: اس روز میں کھیتوں میں چھپ کر آپ لوگوں کی بے چینی دیکھ رہی تھی۔ گاڑی رک کرچلی تومیںکھیتوں سے نکل آئی میںنے سوچا آج آپ میرا بھی توانتظارکریں۔ماں اس کی بات سن کر ہنسنے لگیں۔اس روز میں سکینہ کے جنازے میں شرکت کے لیے گائوں کے اڈے پرپہنچا‘تو ہلکی ہلکی بارش نے موسم اورسردکردیاتھا۔ بس اڈے کے قریب ہی میدان میںجنازے کے لیے لوگ اکٹھے ہوچکے تھے ۔میںنے چارپائی پرپڑے خاموش بے حرکت جسم کودیکھا‘ پھرمیری نگاہ سکینہ کے چہرے پرپڑی۔ بڑی بڑی خوبصورت آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوچکی تھیں۔ بالوںمیںکہیں سفیدی کہیں مہندی تھی۔ چہرے کاگندمی رنگ زرد پڑ چکا تھا‘ بالکل سرسوں کے زرد پھولوں کی طرح ۔میںنے نگاہ اٹھاکر سڑک کے اس پار دیکھا ‘جہاں دوردور تک سرسوں کے پھول بارش کی پھوارمیں بھیگ رہے تھے۔ مجھے وہ دن یادآگیا جب سکینہ سرسوں کے انہیں کھیتوں میں چھپ گئی تھی۔ اسے بڑی خواہش تھی کہ اس کا بھی کوئی انتظار کرے۔ میں سوچنے لگا‘ اب اسے دیکھے کے لیے کتنا انتظار کرنا پڑے گا‘معلوم نہیں‘ یہ انتظارکب ختم ہوگا!!۔