9/11کے واقعے پربننے والے کمیشن کی رپورـٹ جب سامنے آئی تو اس کے آخری حصے میں کمیشن نے کچھ سفارشات بھی کی تھیں۔ان میں سے ایک پاکستان کی تعلیم بہتر بنانے کے لیے مالی امدادکی سفارش تھی۔رپورٹ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا تھاکہ مدرسے طلبا کے ذہنوں میں ایک خاص طرح کی محدود سوچ کے ذریعے ممکنہ دہشت گرد پیدا کر رہے ہیں۔ اس سے پیشتر کہ ہم تعلیم اور انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ممکنہ ربط کا ذکر کریںیہ ضروری ہے کہ ہم انتہاپسندی کی اصطلاح کا جائزہ لیں ۔لغت کے مطابق ؛انتہا پسندی دراصل اس میلان یا رجحان کا نام ہے‘ جو لوگوںکو انتہا ؤںتک لے جاتا ہے ‘لیکن ہر لفظ کالغوی کے علاوہ ایک معنی وہ ہوتا ہے‘ جو سیاسی اور معاشرتی فضا سے جنم لیتا ہے ۔
معروف ماہرسماجیات فوکو ((Foucault کے مطابق ؛طاقت اور زبان کا گہرا تعلق ہے ۔ایک طاقتور فرد‘گروہ یا ملک ایک خاص طرح کے ڈسکورس کو تشکیل دیتا ہے ‘اس کو اعتبار فراہم کرتا ہے اور اس کی موثر ترویج کرتا ہے۔ اس کے عوض تشکیل کردہ ڈسکورس انہیں طاقت ورفرد‘گروہ یا ملک کے تمام اعمال کو جواز فراہم کرتا ہے ‘لہٰذا یہ ضروری ہے کہ ہم انتہاپسندی کے ان معانی پر غور کریں‘ جو معاشرتی اور معاشی طور پر مضبوط گروہ یا ملک نے تجویز کیے ہیں۔
یہاںیہ امر دلچسپی کا باعث ہے کہ انسانوں کا ایک گروہ کچھ لوگوں کے نزدیک حریت پسند ہوتاہے اور کچھ کے نزدیک دہشت گرد‘لیکن آخر میں ان لوگوں کے معانی معتبر ہوتے ہیں‘ جن کے پاس علم کی پیداوار کے ذرائع (Sources of Production of (Knowledge ہوتے ہیں ۔دلچسپ بات یہ ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے معانی طاقت ورگروہوں کی ضروریات اور مفادات کے مطابق بدلتے رہتے ہیں۔انتہاپسندی کی مختلف شکلیں ہو سکتی ہیں‘ مثلاً: مذہبی یا سیاسی۔ اسی طرح انتہاپسندی کے اظہار کے بھی کئی طریقے ہیں۔ انتہا پسندی کی مختلف شکلیں دیکھنے کے بعد یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم ان وجوہ کو جاننے کی کوششیں کریں ‘جن کی وجہ سے انتہا پسندی وجود میں آتی ہے ‘جو بعض اوقات تشدد کے راستے پر لے جاتی ہے ۔
انتہاپسندی کی سب سے اہم وجہ جائز حقوق کا نہ ملنا ہے۔اس کا مطلب سیاسی‘معاشی‘تعلیمی اور قانونی مواقع کی عدم دستیابی ہے‘ دوسرے لفظوں میں کچھ افراد پر سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں۔یہاں ہم صرف تعلیمی مواقع کا ذکر کریں گے‘ جس کی بدولت آزادی ‘ڈیویلپمنٹ اور سماجی انصاف کے در کھلتے ہیں۔تعلیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ سکول ہیں ۔سکول وہ سماجی ادارہ ہے‘ جو معاشرے کی سوچ پر اثرانداز ہونے کی طاقت رکھتا ہے ۔
ماضی میں سکول کی بطورسماجی ادارہ اس لیے بھی اہمیت تھی کہ اس کے ہمراہ دو اور سماجی ادارے‘ مذہب اور خاندان بھی تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ سکول کے سماجی ادارے پر کیا گزری اس کاذکر ہم آگے کریں گے۔ اب ہم ان اعدادوشمار کو دیکھتے ہیں‘ جو کسی بھی معاشرے کے لیے انتہائی تشویشناک ہیں۔اس وقت تقریباً اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں ‘اسی طرح تقریباً 35 فیصد بچے پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے ڈراپ آوٹ ہو جاتے ہیں۔اس لحاظ سے پاکستان دنیا میں دوسرا بڑا ملک ہے‘ جس میں اس کثیر تعداد میں بچے ڈراپ آوٹ ہوتے ہیں۔ایجوکیشن ایمرجنسی رپورٹ کے مطابق میلینئم ڈویلپمنٹ ''Education for All‘‘یعنی تعلیم سب کے لیے کا ہدف 2015ء میں پورا ہونا چاہیے تھا‘اب 2019ء شروع ہو چکا ہے اور ہنوز ہم اس ہدف سے کوسوں دورہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق؛ اب ہم یہ ہدف پنجاب میں 2041ئ‘ سندھ میں 2049ئ‘خیبر پختونخوامیں 2064 ء اور بلوچستا ن میں 2100 ء میں حاصل کر سکیں ۔اس صورتحال سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ حکومتی سطح پر تعلیم کبھی حکومتو ں کی ترجیح نہیں رہی۔تعلیم پر ہم جی ڈی پی کا صرف 2.2 فیصدخرچ کر رہے ہیں ‘جو جنوبی ایشیا کے ممالک میں کم ترین فنڈنگ ہے۔
اب ہم ان بچوں کی تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں ‘جو سکولو ں تک پہنچ جاتے ہیں۔ ہمارے زیادہ تر سکولوں میں گھساپٹا نصاب‘ بے رنگ کتابیں‘ دقیانوسی تدریسی عمل اور رٹے پر مبنی نظامِ امتحان رائج ہے ۔اس سارے نظام میں تخلیقی سوچ کا گزر مشکل ہے۔یوں محدود سوچ کا الزام صرف مدرسوں کو دینا جائز نہیں‘ اس طرح کی سوچ ہمارے ان سکولوں میں بھی پیدا ہونے کے امکانات ہیں‘ جہاں استاد کی رائے سے اختلاف کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔بچوں کو آزادانہ سوچنے کی بجائے لکیر کا فقیر بنا دیا جاتا ہے۔آزادی ٔ فکر اور آزادیٔ رائے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔ یوں تخلیق کی بجائے تقلید کی بنیاد رکھی جاتی ہے۔ طالب علم کے کلاس میں سوال کرنے یا استاد کی رائے سے اختلاف کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
اگرہمیں واقعی تعلیم کو ڈیویلپمنٹ تک پہنچنے کا زینہ بنانا ہے اور اسے آزادی اور سماجی انصاف کے خوابوں سے جوڑنا ہے تو ہمیں تعلیم کے سلسلے میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لانا ہو ں گی۔ طریقۂ تدریس کو جدید اور تخلیقی بنیادوں پر استور کرنا ہو گا ‘جہاں استاد کا کام صرف علم کی منتقلی نہ ہو‘ بلکہ سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی لانا استاد کے فرائض میں شامل ہو ‘ جو اس کے طالب علموں کی زندگیوں اور معاشرے میں نظر آئیں۔ جہاں انہیں امن‘ روداری اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے محبت کا سبق دیا جائے‘ لیکن ایک بڑا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ صرف سکول کر سکتے ہیں ؟ کیا ہمارے سکول سماجی انصاف کی عدم دستیابی اور معاشی نہ ہمواری کے چیلنج کا مقابلہ کر سکتے ہیں ؟اس سوال کا جواب اثبات میں نہیں اور اس کی کئی وجوہ ہیں۔ سب سے پہلی وجہ تو یہ ہے‘ سکول بطورِایک سماجی ادارہ پچھلی دہائیوں میں کمزور ہوا ہے۔ اس کی دوسری اہم وجہ میڈیا کا بطور اہم سماجی ادارہ ابھرنا ہے‘ کیونکہ اس کے ذریعے پیغام کو کم وقت میں زیادہ لوگوں تک پہنچایا جا سکتا ہے ۔تیسری اہم وجہ یہ ہے کہ خارجی طور پر سماجی ‘معاشی‘اور سیاسی قوتیں ہیں ‘جو معاشی اور معاشرتی ناہمواریوں کا باعث بنتی ہیں ؛اگر ہم انتہا پسندی کا مقابلہ کرنا چاہتے ہیں تو صرف رسمی تعلیم کافی نہیں‘ اس کے لیے ہمیں غیر رسمی تعلیم کے ذرائع سے بھی مدد لینا ہو گی۔ ہمیں اپنی تدریس کے روایتی طریقوں کو دوسرے سماجی اداروںسے ‘مثلاً :میڈیا سے جوڑنا ہوگا۔انتہا پسندی کے چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے اس بات کو یقینی بنانا ہو گاہے کہ معاشرے میں افراد کو تعلیمی ‘ معاشرتی ‘معاشی ‘اور قانونی مواقعوں میں برابر کا حصہ ملے ۔
اگرہمیں واقعی تعلیم کو ڈیویلپمنٹ تک پہنچنے کا زینہ بنانا ہے اور اسے آزادی اور سماجی انصاف کے خوابوں سے جوڑنا ہے تو ہمیں تعلیم کے سلسلے میں بنیادی اور انقلابی تبدیلیاں لانا ہو ں گی۔ طریقۂ تدریس کو جدید اور تخلیقی بنیادوں پر استور کرنا ہو گا ‘جہاں استاد کا کام صرف علم کی منتقلی نہ ہو‘ بلکہ سوچ اور رویوں میں بھی تبدیلی لانا استاد کے فرائض میں شامل ہو ‘ جو اس کے طالب علموں کی زندگیوں اور معاشرے میں نظر آئیں‘جہاں انہیں امن‘ روداری اور اپنے ارد گرد بسنے والے لوگوں سے محبت کا سبق دیا جائے۔