"SSC" (space) message & send to 7575

حرف ِ تمنا

وہ بھی مانچسٹر کے عام دنوں کی طرح ایک ابرآلو د دن تھا۔ صبح سے ہلکی ہلکی پھوار وقفوں سے جاری تھی۔ اتوار کی چھٹی تھی اورمیں راج کے گھر بیٹھا تھا ۔راج یونیورسٹی کے سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں پڑھاتا تھا ۔اس کا تعلق ساؤتھ انڈیا سے تھا اور میں یہاں انگریزی میں ایم اے کر رہاتھا۔ہماری دوستی کی بنیاد سوشل تھیوری میں دونوں کی دلچسپی تھی۔راج یونیورسٹی کا ایک نوجوان اور مقبول ٹیچر تھا۔ ہم دونوں کی عمروں میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ اس لیے میری راج سے بے تکلف دوستی تھی اور ہم ہر موضوع پر بات کر سکتے تھے ۔اس روز اس کے گھر بیٹھے میں نے راج سے کہا :اپنی زندگی کا کوئی انوکھا واقعہ سناؤ۔ اس کے سانولے چہرے پر بڑی بڑی روشن آنکھیں اور روشن ہوگئیں‘ وہ مسکرایا اور کہنے لگا: ہاں ہے تو سہی۔ اس کے ساتھ ہی وہ اٹھا ایک پرانے بریف کیس میں کچھ کاغذوں میں سے ایک لفافہ تلاش کر کے لایا اور مجھے کہنے لگا میں اکثر خطوں کو ضائع کر دیتا ہوں‘ لیکن اس خط کو سنبھال کر رکھا ہے‘ کیونکہ اس کے لکھنے والے کو میں کبھی نہیں ملا اور شاید باقی زندگی بھی ملاقات نہ ہو‘ تم نے انوکھے واقعے کا کہا ‘تو مجھے اس خط کا خیال آگیا۔ یہ تم لے جاؤ پڑھ کر کل مجھے واپس کر دینا۔ اس روز میں آکسفرڈ سٹریٹ پر واقع مابرلی ٹاورکی پانچویں منزل پر اپنے ہاسٹل کے کمرے میں واپس آیا‘ توشام اندھیرے میںڈوب رہی تھی‘ میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا دیا شیشے پر بارش کی جلترنگ جاری تھی‘ میں نے لفافے سے خط نکالا ‘ یہ خوبصورت ہینڈ رائٹنگ میں انگریزی میں لکھا ہوا خط تھا۔ میں اس کا اردو ترجمہ آپ کو سناتا ہوں:
'' ڈیئر پروفیسر راج !میرا نام ایشاہے اور میرا تعلق سری لنکا سے ہے ۔میں کبھی آپ کی سٹوڈنٹ نہیں رہی کیوں کہ میرا مضمون انگریزی ادب ہے اور آپ سوشیالوجی کے پروفیسر ہیں ۔میں یہ سطریں محض آپ کی گرم جوش اور علمی شخصیت کی وجہ سے نہیں لکھ رہی۔ سچی بات یہ ہے کہ میں نے کسی اور شخص کے حوالے سے کبھی یہ محسوس نہیں کیا کہ جیسے آپ کے بارے میں ۔مجھے یوں لگتا ہے جیسے میں آپ کو کسی اور جنم سے جانتی ہوں ‘لیکن یہ کیسے ممکن ہے؟ یقینا ہماری پیدائش سے پہلے ہماری روحیں ایک دوسرے سے آشنا تھیں۔ میں نے پہلی بار ایک سیمینار میں آپ کودیکھا سیمینار کے بعد جس طرح آپ کے دوست آپ کے ساتھی اساتذہ‘ اور آپ کے طالبعلم آپ سے مل رہے تھے‘ وہ آپ کی شخصیت کا پہلا تعارف تھا ۔ آپ کا سیمینار امرتیا سین (Amartya Sen) کی تھیوری کے حوالے سے تھا۔ امرتیا سین میرا بھی پسندیدہ رائٹر ہے‘ خاص طور پر اس کا یہ کہنا کہ ڈیویلپمنٹ محض آمدنی کی افراط کا نام نہیں ‘بلکہ ان آزادیوںسے عبارت ہے ‘ جو آپ کو حاصل ہوتی ہیں۔مجھے تو ایک واقعہ نہیں بھولتاجو امرتیا سین نے کئی بار سنایا کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی اس وقت ان کی عمر بارہ‘تیرہ سال تھی مختلف شہروں میں فسادات شروع ہو گئے تھے‘ امرتیا سین ہندو اکثریت والے علاقے میں رہتے تھے‘ جہاں ایک غریب مسلمان قادر میاں کام کرنے کے لیے آتا تھا۔ ایک روز اسے چھرا گھونپ دیا گیا۔ امرتیا سین اور اس کے والد گھائل قادر میاں کو ہسپتال لے گئے جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ امرتیا سین کہتے ہیں راستے میں‘ میں نے اس سے پوچھا کہ تمہیں پتا بھی تھا کہ فسادات شروع ہو چکے ہیں اور مسلمانوں کیلئے یہ ایک خطرناک علاقہ ہے ‘اس کے باوجود تم یہاں کیوں آئے ؟اس نے جواب دیا کہ میری بیوی نے بھی منع کیا تھا‘ لیکن میں نے اسے کہا تھا کہ اگر میں کام پر نہ گیا تو گھر کا چولہا کیسے چلے گا؟
امرتیا سین نے یہ واقعہ سنا کر کہا کہ اگر قادر میاںکے پاس Economic Freedom ہوتی تو وہ کبھی یہ خطرہ مول نہ لیتا۔ لیں میںبھی کہاں بھٹک گئی ‘تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میر آپ سے پہلا تعارف آپ کے سیمینار کے ذریعے ہوا۔مجھے یوں لگا کہ ضرور کوئی بات ایسی ہے جو ہم دونوں میں مشترک ہے۔ شاید یہ کہ آپ کی طرح مجھے بھی تدریس کے پیشے سے بے پناہ لگاؤ ہے ۔اس کے بعد میں تلاش میں رہتی کہ آپ کا سیمینار کب ہے۔ آپ کو تو پتا ہی ہے‘ آپ کا سوشیالوجی کا ڈیپارٹمنٹ میرے ڈیپارٹمنٹ کے سامنے والی عمارت میں ہے ۔ آپ کے سیمینار میں میری دلچسپی کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ آپ انگریزی ادب کے بر محل حوالے دیتے تھے‘ خاص طور پر انگریزی شاعری سے۔ میرا اپنا دلچسپی کا میدان انگریزی فکشن ہے‘ لیکن سچ پوچھیں تو آپ کو سننے کے بعد اب میری شاعری میں دلچسپی بڑھ گئی ہے۔ہے نا عجیب بات کہ ایک سوشیالوجسٹ انگریزی ادب اور خاص کر شاعری میں اتنی دلچسپی رکھتا ہو ‘ پھر یہاں کے ایک اخبار کے لٹریری سپلیمنٹ میں میں نے آپ کی ایک شارٹ سٹوری پڑھی تو خوشگوار حیرت ہوئی کہ آپ کہانیاں بھی لکھتے ہیں۔ اس کہانی میں ایک لڑکی وعدہ کر کے بھول جاتی ہے اور کہانی کا مرکزی کردار وہ شہر اور وہ ملک چھوڑ کر کہیں اور چلا جاتا ہے‘ جس روز میں نے یہ کہانی پڑھی میں سینٹ گیبریل ہال میں اپنے ہاسٹل کے کمرے میں بیٹھی تھی۔ کہانی پڑھ کر میں اداس ہو گئی اور دیر تک اپنے کمرے کی کھڑکی سے باہر برستی رم جھم کو دیکھتی رہی۔ اچانک مجھے خیال آیا کہیں کہانی کا مرکزی کردار آپ ہی تو نہیں۔ آپ کی بڑی بڑی روشن آنکھوں میں ایک بے نام سی اُداسی دیکھ کر مجھے تو ایسا ہی لگتا ہے۔ اس کہانی سے آپ کی شخصیت کا ایک اد ر رُخ سامنے آیا۔ کیسے ایک شخص چاہنے والوں کے ہجوم میں بھی تنہا رہ جاتا ہے ۔
مانچسٹر کے بے رحم موسم میں‘میں کبھی کبھار ہوم سک (HomeSick)ہو جاتی ہو ں‘ لیکن اب تو میری پڑھائی کا دورانیہ ختم ہو رہا ہے۔ اس دوران میں نے آپ کے کم از کم پانچ سیمینار تو اٹینڈکئے ہوں گے اور ہر دفعہ مجھے ایک نئی طرح انسپریشن ملی‘ لیکن کیسی عجیب بات ہے کہ میں آپ سے آج تک نہیں ملی‘ لیکن شاید میں ان کئی لوگوں سے آپ کوزیادہ جانتی ہوں ‘جو آپ سے کئی بار ملے ہوں گے۔ اگر کوئی مجھے آپ کا تعارف کرانے کو کہے تو میںاسے بتاؤں گی کہ آپ کو اپنے پیشے سے عشق ہے‘ آپ کا مطالعہ صرف اپنے مضمون تک محدود نہیں‘ آپ کی شخصیت میں ایک عاجزی ہے ‘ایک شائستگی ہے ۔ آپ کے بارے میں یونیورسٹی میں عام رائے ہے کہ آپ بہت اچھے استاد ہیں اور میں اس سے پوری طور پر متفق ہوں‘ لیکن شاید اس سے بڑھ کر آپ بہت اچھے انسان بھی ہیں۔ کہتے ہیں؛کسی کی شخصیت میں حلم اور مہربانی ہو تواس کے اردگرد کے لوگ اس پر اپنی محبتیں نچھاور کرتے ہیں۔ میرے خیال میں جن لوگوں کے دامن میں انسانیت کیلئے محبت‘پیار‘ شفقت اور مہربانی کے پھول ہوتے دراصل یہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں۔آپ کی شخصیت کی عاجزی ‘شفقت اور محبت نے کتنے ہی لوگوں کو آپ کا گرویدہ بنایا ہوا ہے ۔مجھے تو آپ کی محبت اور مہربانی کا اندازہ آپ کے لوگوں سے برتاؤ کے ذریعے ہوا ‘خاص طور پر عام لوگوں کے ساتھ آپ کا گھل مل جانا اور پھر آپ کا اپنے تدریس کے پیشے سے بے پناہ لگاؤ اور اپنے فرائض مذہبی سے عبادت کی حد تک لگاؤ۔ 
کل مانچسٹر میں میرا آخری دن ہے۔ کل میں یونیورسٹی آئوںگی صرف آپ کے ڈیپارٹمنٹ۔ جہاں میں اپنا یہ خط آپ کے Pigeon Hole میں رکھوں گی وہیں سے مجھے پکاڈلی ریلوے سٹیشن جانا ہوگا‘ جہاں سے لندن جانے والی ٹرین کے لئے میری بکنگ ہے۔ لندن سے میری ڈائریکٹ فلائٹ سری لنکا کی ہے جہاں کولمبو کے شہر میں میرا ایک بڑا سا گھر ہے‘ جس کے ٹیرس سے دور تک ناریل کے درخت نظر آتے ہیں ۔ٹیرس پر بیٹھے جب میں مانچسٹر کو یاد کروں گی تو مجھے آپ کا خیال بھی آئے گا آپ جو میرے Mentorتھے ۔ پرانے قصے کہانیوںکے ہیرو جیسے نہیں بلکہ ایک جیتے جاگتے کردارکی طرح‘ جو میرے سامنے تھا ‘جس نے میری رہنمائی کی‘ جس نے مجھ میں دور فضاؤں میں پھیلے خوش رنگ منظروں میںپرواز کی خواہش جگائی۔جس سے میں کبھی نہیں ملی لیکن جس سے میں کبھی جدا نہ ہوں گی۔ یہ خط وہ حرفِ تمنا ہے جس کا اظہار شاید رُو برُو مشکل ہوتاـ‘‘۔میں نے خط میز پر رکھ دیا اور کھڑکی سے باہر بارش میں جھلملاتی روشنیاں دیکھنے لگا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ روشنیاں نہیں رات کے بہتے سمندر میں راج کی آنکھیں ہیں جو بارش میں دُھل کر اور اجلی ہو گئی ہیں۔عام دنوں سے زیادہ روشن ‘ شانت اور سرشار۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں