وقت بھی کیسے پَر لگا کر اُڑتا ہے۔ یہی ستمبر کا مہینہ تھا اور 1965 کا سال جب ہم نے بطور 'قوم‘ اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کیا تھا۔ میں اس وقت پرائمری سکول میں پڑھتا تھا۔ ان دنوں ہم راولپنڈی کے ایک علاقے ٹینچ بھاٹہ میں کرائے کے ایک مکان میں رہتے تھے‘ جس کے کچے صحن میں شہتوت کا ایک درخت تھا‘ جس پر رس بھرے شہتوت لگتے تھے۔ ہمارے گھر کے سامنے دور دور تک کھیت تھے۔ گھر کے بائیں طرف ایک میدان تھا جہاں لڑکے دن بھر کھیلتے اور مغرب کی اذانوں کے ہوتے ہی اپنے گھروں کی راہ لیتے تھے۔
اس وقت تک ٹی وی ہماری زندگیوں نہیں آیا تھا ۔ ہمارے گھر میں ایک ریڈیو تھا جو خبروں کے لیے استعمال کیا جاتا۔ ان دنوں خبر کے ذرائع صرف ریڈیو اور اخبارات تھے۔ زندگی کی رفتار اتنی تیز نہیں تھی۔ پھر ایک روز اچانک اس ٹھہری ہوئی زندگی میں ارتعاش آ گیا جب اعلان ہوا کہ ہندوستان نے پاکستان پر حملہ کر دیا ہے۔ ہم سب ریڈیو کے ارد گرد اکٹھے ہو گئے۔ دن کے دو بج رہے تھے جب صدر فیلڈ مارشل ایوب خان نے قوم سے خطاب شروع کیا ''پاکستان کے دس کروڑ عوام جن کے دلوںکی دھڑکنیں اللہ اکبر کی صدا سے گونج رہی ہیں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک دشمن کی توپیں ہمیشہ کے لیے خاموش نہ ہو جائیں۔ ہندوستانی حکمران شاید ابھی یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے کس قوم کو للکارا ہے۔ ہمارے دلوں میں ایمان اور یقین محکم ہے اور ہمیں یہ معلوم ہے کہ ہم سچائی کی جنگ لڑ رہے ہیں...‘‘ اس تقریر نے سب کے دلوں میں ایک نیا جذبہ جگا دیا تھا۔ مجھے یاد ہے‘ ان دنوں شہریوں کو ہدایت کی گئی تھی کہ گھروں میں رات کے وقت بلیک آئوٹ کریں۔ ہم نے کھڑکی کے شیشوں کے آگے گتے لگا دیے تھے۔ گھر کے صحن میں شہتوت کے درخت کے نیچے ایک مورچہ کھودا گیا تھا۔ تمام قوم یک جان ہو چکی تھی۔ شاعر اور ادیب نغمے لکھ رہے تھے اور ہمارے گلوکار بغیر معاوضے کے نغمے گا کر جذبوں کو بیدار کر رہے تھے۔ جس سڑک سے فوجی گاڑی گزرتی عوام پھولوں سے ان کا استقبال کرتے۔ لوگ رضا کارانہ طور پر اشیا جمع کر کے محاذوں پر بھیج رہے تھے۔
محاذ کا مرکز لاہور کی سرحد تھی جہاں دشمن ٹینکوں کی بڑی تعداد سے حملہ آور ہوا تھا۔ لاہور کی سرحد پر برکی کا گائوں ہے‘ جس کے قریب بی آر بی نہر بہتی ہے۔ دشمن کو اپنے ساز و سامان کا اتنا گھمنڈ تک کہ ان کے سپہ سالار نے اعلان کیا تھا کہ وہ شام کی چائے لاہور جم خانہ میں پئیں گے۔ اس دعوے کے پیچھے ان کی عسکری ساز و سامان کی برتری تھی۔ دشمن کا مقابلہ پنجاب رجمنٹ کے میجر راجہ عزیز بھٹی سے تھا‘ جو اس وقت اپنی کمپنی کو کمانڈ کر رہے تھے۔ اس کمپنی کی دو پلاٹونیں پیچھے تھیں لیکن راجہ عزیز بھٹی پیچھے رہنے کے بجائے سب سے اگلی پلاٹون کی قیادت کر رہے تھے۔ اب پاکستان کے دفاع کا سارا دار و مدار پنجاب رجمنٹ کے عزیز بھٹی پر تھا۔
عزیز بھٹی ایک نوجوان افسر تھا‘ انتہائی ذہین اور چوکس، جس کے بال گھنگریالے تھے اور جس کی آنکھیں اس کو دوسروں سے ممتاز بناتی تھیں‘ جس نے کاکول اکیڈمی میں اپنی بہترین کارکردگی پر نارمن گولڈ میڈل فار سٹڈیز اور بہترین آل رائونڈر کارکردگی پر اعزازی تلوار حاصل کی تھی۔ دوسرے لفظوں میں وہ پاکستانی فوج کا بہترین افسر تھا‘ جسے اس محاذ پر دفاع کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔ بہت بعد میں مجھے عزیز بھٹی کے چھوٹے بھائی سردار احمد بھٹی کی انگریزی زبان میں لکھی ہوئی کتاب ''عزیز بھٹی شہید: میرا بھائی، میرا ہیرو‘‘ سے عزیز بھٹی کے بارے میں اہم معلومات حاصل ہوئیں‘ جس سے عزیز بھٹی کی شخصیت کے وہ پہلو سامنے آتے ہیں‘ جو آج تک ہماری نگاہوں سے اوجھل رہے۔ عزیز بھٹی ہانگ کانگ میں پیدا ہوئے تھے‘ جہاں ان کے والد ایک سکول میں سینئر ٹیچر تھے۔ ان کا آبائی گائوں گجرات کے قریب لادیاں تھا۔ عزیز بھٹی نے میٹرک تک تعلیم ہانگ کانگ میں حاصل کی۔ جنگ عظیم دوم کے بعد جب اس کے والد عبداللہ صاحب‘ جنھیں وہ بائو جی کہتے تھے‘ ہانگ کانگ سے واپس گجرات آ گئے تو عزیز بھٹی ایئر فورس میں منتخب ہو گیا‘ جہاں اس کی شاندار کارکردگی دیکھ کے اس کے سخت گیر ڈرل انسٹرکٹر نے کہا تھا: یہ میرا کمانڈر ان چیف ہے۔ اس کی سفارش جی ڈی پائلٹ برانچ کے لیے کی گئی لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ 1947 میں پاکستان وجود میں آ گیا تو نور خاں نے عزیز بھٹی کا انٹرویو کیا‘ اور آرمی میں کمیشن کی سفارش کی‘ جہاں اس کی بہترین کارکردگی پر اسے گولڈ میڈل اور اعزازی تلوار دی گئی۔ پھر اسے کینیڈا میں ٹریننگ کے لیے بھجوایا گیا۔ اس ٹریننگ نے اس کی صلاحیتوں کو جلا بخشی۔ قدرت غیر محسوس طریقے سے عزیز بھٹی کو ایک بڑے مقصد کے لیے تیار کر رہی تھی اور آج وہ بڑا مقصد اس کے سامنے تھا۔
وہ اپنی ماں کا سب سے ہونہار بیٹھا تھا‘ جسے ماں راجہ کہتی تھی اور جو بعد میں اس کے نام کا حصہ بن گیا تھا۔ وہ اپنے ڈرل انسٹرکٹر کا کمانڈر ان چیف تھا۔ وہ کروڑوں پاکستانیوں کی امیدوں کا مرکز تھا۔ آج اس کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آ پڑی تھی۔ عزیز بھٹی کو قدرت نے ایک موقع فراہم کیا تھا‘ جہاں اس کی صلاحیتوں کا امتحان تھا۔ یہ برکی کا محاذ تھا‘ جہاں دشمن اپنی پوری طاقت کے ساتھ حملہ آور ہوا تھا۔ چھوٹے بڑے ہتھیاروں کی فائرنگ سے کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ دشمن کی طرف سے شدید شیلنگ جاری تھی۔ عزیز بھٹی کی ایک پلاٹون کے مقابلے میں دشمن نے ایک بٹالین جھونک دی تھی۔ عزیز بھٹی نے اپنے جوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: ہم دشمن کو کسی صورت بی آر بی عبور نہیں کرنے دیں گے۔ جنگ میں دن اور رات کی تمیز ختم ہو جاتی ہے‘ دن ہو یا رات دشمن کے حملے کے لیے چوکنا رہنا پڑتا ہے۔ عزیز بھٹی مسلسل چھ راتوں سے جاگ رہا تھا۔ اس کی خوبصورت آنکھیں مسلسل کئی راتوں تک جاگنے کی وجہ سے سرخ ہو چکی تھیں۔ ادھر دشمن اپنی عددی برتری کی وجہ سے تازہ دم دستے محاذ پر بھجوا رہا تھا۔ پاکستانی فوج کے کمانڈر افسر نے عزیز بھٹی سے کہا کہ تمھیں مسلسل لڑتے ہوئے کئی دن ہو گئے ہیں‘ تم چاہو تو تماری جگہ کسی اور کو بھیج دیں۔ عزیز بھٹی نے جواب دیا ''سر پلیز مجھے واپس نہ بھیجیں، میں واپس نہیں جائوں گا‘ اپنی زمین کا دفاع کرتے ہوئے اپنی جان دے دوں گا‘‘ اگلے روز دشمن کی شیلنگ اور تیز ہو گئی۔ راجہ بھٹی نے ایک خطرناک فیصلہ کیا۔ وہ اپنے مورچے سے نکل کر اونچی جگہ پر جا کر او پی کے فرائض انجام دینے لگا۔ میدانِ جنگ میں توپوں اور ٹینکوں کے گولوں کے سامنے کھڑے ہونا معمولی بات نہیں تھی‘ لیکن راجہ عزیز بھٹی ایک غیر معمول افسر تھا۔ آج اس کے ہم وطنوں کی امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ اس نے ایک بار پھر اپنے نوجوانوں سے کہا ''دشمن چاہے کتنا ہی زور لگا لے میری زندگی میں وہ کبھی بی آر بی پار نہیں کر سکے گا‘‘۔
راجہ عزیز بھٹی جوانوں کو جوش دلا رہے تھے اور دشمن کے ٹھکانوں پر فائرنگ کے احکامات دے رہے تھے۔ اسی اثنا میں دشمن کے ٹینک کا گولہ ان کے جسم سے ٹکرایا۔ راجہ عزیز بھٹی گر پڑے۔ ان کے جسم سے خون تیزی سے بہنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد ان کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ اب اس محاذ پر پاکستانی فوج کی تازہ کمک پہنچ چکی تھی۔ شہید عزیز بھٹی کی کھلی آنکھوں میں اطمینان کا رنگ تھا۔ اس نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کو بی آر بی کے اس پار نہیں آنے دیا تھا۔ شجاعت کے اس کارنامے پر اسے سب سے بڑا عسکری اعزاز نشانِ حیدر دیا گیا۔ آج عزیز بھٹی کی شہادت کو چون برس گزر چکے ہیں۔ وقت بھی کیسے پَر لگا کر اُڑتا ہے۔ یہی ستمبر کا مہینہ تھا اور 1965 کا سال‘ جب ہم نے بطور قوم اپنے آپ کو نئے سرے سے دریافت کیا تھا۔