پاکستان میں سرکاری جامعات مکمل طور پر معیشت کے گرداب میں گھِرچکی ہیں۔ طوفانی لہریں انھیں تنکوں کی طرح ادھر سے اُدھر لیے پھرتی ہیں اور وہ اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اگر فوری مدد نہ کی گئی تو کتنی ہی جامعات معیشت کے بے رحم تھپیڑوں کی زد میں آ کر جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں گی۔ یہ اب سالوں نہیں مہینوں کی بات ہے۔ یوں لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔ پاکستان کے قیام کے وقت صرف دو جامعات تھیں‘ پنجاب یونیورسٹی جو 1882 میں قائم ہوئی تھی اور ڈھاکہ یونیورسٹی جو 1921 میں وجود میں آئی تھی۔ بہتر سالوں میں جامعات اور ڈگری جاری کرنے والی انسٹی ٹیوشنز کی تعداد 200کے لگ بھگ ہو گئی ہے۔ مقدار کے ساتھ ساتھ معیار کا معاملہ بھی بہت اہم ہے ہر تعلیمی پالیسی میں تعلیمی معیار میں بہتری لانے کے لیے اقدامات تجویز کیے گئے۔ انھیں میں ایک تجویز تھی کہ یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کی جگہ ایک نیا ادارہ ہائر ایجوکیشن کمیشن HEC) ( بنایا جائے جو یونیورسٹیوں کو فنڈز فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار میں بہتری کے لیے بھی اقدامات کر ے۔ 2002 میں ایچ ای سی وجود میں آ گیا۔ یہ ایک خود مختار ادارہ تھا جس کے سربراہ کا عہدہ وفاقی وزیر کے برابر تھا۔ یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ ایچ ای سی اپنی بیوروکریسی کے خار زار سے دامن بچاتے ہوئے براہِ راست ملک کے سربراہ سے بات کر سکے۔ اس وقت ملک میں پرویز مشرف کا دور تھا۔ ایچ ای سی کی سربراہی کے لیے قرعہ فال میں ڈاکٹر عطاالرحمن کا نام نکلا۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کا میدان کیمسٹری تھا اور وہ اس وقت کراچی یونیورسٹی کے کیمسٹری کے سینٹر آف ایکسیلنس میں کام کر رہے تھے۔
11 ستمبر 2001 میں 9/11 کا واقعہ ہو چکا تھا جس میں ٹریڈ سینٹر کے دو ٹاورز کو گرا دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں ان گنت لوگ مارے گئے تھے۔ 9/11 کے سلسلے میں بننے والے کمیشن کی رپورٹ میں آخری حصہ سفارشات کا تھا جس میں ایک سفارش یہ بھی تھی کہ تعلیم اور انتہا پسندی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اس لیے پاکستان میں تعلیم کو بہتر بنانے کے لیے مالی امداد کی جائے۔ اس سفارش کے نتیجے میں تعلیم کے لیے خطیر رقم پاکستان آنے لگی۔ ڈاکٹر عطاالرحمن اس لحاظ سے خوش قسمت تھے کہ ان کا براہِ راست تعلق جنرل پرویز مشرف کے ساتھ تھا لہٰذا وہ امریکی امداد کا ایک بڑا حصہ ہائر ایجوکیشن کے لیے مختص کرانے میں کامیاب ہو گئے۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کو یہ سہولت حاصل تھی کہ ایک طرف فنڈز کی کوئی کمی نہیں تھی کیونکہ 9/11 کے واقعے کے بعد امریکہ پاکستان کو تعلیم کی مد ایک خطیر رقم دے رہا تھا اور دوسری طرف ان کی رسائی براہِ راست پرویز مشرف تک تھی جن کے احکامات پر سرعت کے ساتھ عمل ہوتا تھا اور یوں چیئرمین ایچ ای سی کو مختلف وزارتوں کی بھول بھلیوں میں بھٹکنے کی ضرورت نہیں تھی۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کی تیسری خوش قسمتی یہ تھی کہ انھیں ایک انتہائی متحرک ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر سہیل نقوی کی خدمات حاصل تھیں۔ یوں ہائر ایجوکیشن ایک انتہائی پروفیشنل ادارے کے طور پر سامنے آیا‘ جہاں ہر ای میل کا جواب فوری ملتا۔ تحقیق کے فروغ کے لیے بہت سے اقدامات کا اعلان کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی جامعات میں اساتذہ کی تقرری کے لیے نئے معیار بنائے گے. یہ وہ زمانہ تھا جس میں جامعات نے عددی طور پر بلا شبہ واضح ترقی کی۔ یونیورسٹیوں میںتحقیقی مضامین اور پروجیکٹس کی تعداد میں ناقابلِ یقین اضافہ ہوا اس میں ڈاکٹر عطاالرحمن کی متحرک قیادت کے ساتھ فنڈز کی وافر اور لگاتار فراہمی کا بڑا ہاتھ تھا۔ ڈاکٹر عطاالرحمن کا دور ختم ہوا‘ ان کے بعد جناب جاوید لغاری صاحب اور ڈاکٹر مختار احمد کے ادوار آئے‘ جنہوں نے ڈاکٹر عطاالرحمن کے وژن کو آگے بڑھایا۔ ان سارے ادوار میں فنڈز کی فراوانی رہی۔ آئیے ایک نظر دیکھتے ہیں ایچ ای سی کے قیام کے بعد فنڈز کی فراہمی کی صورتِ حال کیا رہی۔ 2002 میں جب ہائر ایجوکیشن کمیشن وجود میں آیا‘ اسے 3.900 ارب کے فنڈز دیے گئے۔ فنڈز کی مقدار ہر سال بڑھتی گئی‘ اور 2017-18 میں ایچ ای سی کو ریکارڈ فنڈز (108.972 ارب روپے) دیے گئے۔ یوں ایچ ای سی اندرونی اور بیرونی سکالرشپس، ٹریول گرانٹس، کانفرنسز کے انعقاد، ریسرچ پروجیکٹس اور دیگر کئی Initiatives کے لیے جامعات کو رقوم فراہم کرتی رہتی۔ ایک مکتبۂ فکر ایچ ای سی کے اس دور پر تنقید بھی کرتا ہے کہ پورا زور مقدار پر رکھا گیا اور معیار کو نظر انداز کر دیا گیا۔ یوں تحقیقی مضامین کی اشاعت کی دوڑ شروع ہو گئی جس کے نتیجے میں غیر معیاری تحقیقی مجلے سامنے آئے اور تحقیق کے نام پر ایسے تحقیقی مضامین لکھے گئے‘ جن کا معاشرے کے زندہ مسائل کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا۔ اس دوران چونکہ ساری مراعات کا تعلق تحقیق سے جوڑ دیا گیا تھا‘ اس لیے کلاس رومز اچھی تدریس سے محروم ہو گئے۔ مقدار اور معیار کی یہ بحثیں ہر ملک اور ہر معاشرے میں ہوتی ہیں‘ جن کا مقصد تعلیمی نظام کو مزید بہتر بنانا ہوتا ہے۔
2018 میں نئی حکومت برسرِ اقتدار آ گئی اس سے ذرا پہلے ایچ ای سی میں نئے چیئرمین ڈاکٹر طارق بنوری کی تقرری ہوئی ڈاکٹر بنوری اپنے ساتھ سائنس اور سوشل سائنسز کا قیمتی تجربہ بھی لائے۔ انہوں نے پاکستان میں معروف ادارے ایس ڈی پی آئی کی بنیاد رکھی تھی۔ اس کے علاوہ انہیں پاکستان اور بیرونی ممالک میں تدریس و تحقیق کا وسیع تجربہ تھا‘ لیکن انھیں وہ سہولتیں میسر نہ تھیں جو ڈاکٹر عطاالرحمن کے حصے میں آئیں۔ اب چیئرمین ایچ ای سی اور وزیر اعظم کے درمیان وزارتوں کی بھول بھلیاں آ گئی تھیں۔ ایچ ای سی کے اندر انہیں ڈاکٹر سہیل نقوی جیسا کوئی دستِ راست نہ مل سکا اور سب سے بڑی بدقسمتی یہ کہ ان کے سفر کے آغاز ہی میں ایچ ای سی کے فنڈز میں ناقابلِ یقین حد تک کٹوتی کر دی گئی۔ یوں ڈاکٹر طارق بنوری کا سفر اتنا ہموار نہیں تھا‘ جتنا ان کے پیش روئوں کا۔ یونیورسٹیوں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کی توقعات یہی تھی کہ حسبِ روایت ایچ ای سی فنڈز میں ہر سال کی طرح اضافہ ہو گا کیونکہ ان کی نظر میں ایچ ای سی کو فنڈز کی فراہمی کے پیٹرن کا اندازہ تھا‘ لیکن اس وقت تعلیمی حلقوں کی حیرت کی انتہا نہ رہی جب یہ فنڈز زیادہ ہونے کے بجائے کم ہو گئے۔ 2017-16 میں یہ فنڈز 108.972 ارب روپے تھے جبکہ 2018-19 میں یہ کم ہوکر 84.30 ارب رہ گئے۔ ڈویلپمنٹ گرانٹ کی مد میں 2018-19 میںصرف 18.819 ارب روپے جاری کئے گئے۔ 2019-20 کی پہلی سہ ماہی (جولائی تا ستمبر) میں ابھی تک فنڈز جاری نہیں کئے گئے۔ فنڈز کی کمی کے جامعات پر اثرات براہِ راست اور فوری تھے‘ مثلاً -1 ایچ ای سی نے کئی پروجیکٹس کی فنڈنگ بند یا معطل کر دی۔ -2 ایچ ای سی نے یونیورسٹی کو فنڈز کی فراہمی میں کمی کر دی۔ -3 یونیورسٹیوں میں نئی تقرریوں پر پابندی عائد کر دی گئی۔ -4 یونیورسٹیوں نے فنڈز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے طلبا کی فیسوں میں اضافہ کر دیا جس سے ایک طرف طلبا پر معاشی بوجھ پڑا اور طلبا احتجاج کے لیے سڑکوں پر نکل آئے‘ دوسری طرف فیسوں میں اضافے کی وجہ سے بہت سے طلبا داخلوں سے محروم ہوگئے۔ -5 یونیورسٹیاں فیسوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ سیلف فنانس سکیمز، ویک اینڈ پروگرامز جیسے اقدامات پر مجبور ہو گئیں‘ جس سے تعلیمی معیار ایک سوالیہ نشان بن گیا ہے۔ -6 سرکاری یونیورسٹیاں محض طلبا کی فیسوں پر نہیں چل سکتیں۔ یہی وجہ ہے کہ کئی یونیورسٹیوں کے پاس تنخواہ دینے کے پیسے نہیں۔ اس پر مستزاد پنشن کی مد میں اخراجات۔ اسی لیے کچھ یونیورسٹیاں انڈومنٹ فنڈ سے پیسے نکال کر تنخواہ دینے پر مجبور ہوئی ہیں‘ کچھ کے پاس صرف اگلے دو مہینوں تک تنخواہ دینے کے فنڈز ہیں۔ -7 چند یونیورسٹیوں نے بینکوں سے رجوع کر لیا ہے تاکہ تنخواہوں کے پیسوں کے لیے ادھار لیا جا سکے۔ روپے کی قدر میں کمی اور تقریباً 11فیصد افراطِ زر نے ان کا کام اور بھی مشکل بنا دیا ہے۔
اس وقت معیشت کے گرداب میں گھِری سرکاری جامعات اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ ایچ ای سی اس سارے معاملے میں بے بس نظر آتی ہے۔ ان کے مطابق انھوں نے جتنے فنڈز کی درخواست کی تھی‘ اس سے بہت کم رقم انھیں ملی۔ اِدھر ہر گزرنے والا دن صورتحال کو مزید گمبھیر بنا رہا ہے۔ معیشت کے تھپیڑوں میں ڈوبتی ابھرتی جامعات کی نگاہیں ہم سے سوال کر رہی ہیں۔ کوئی ہے جو سرکاری جامعات کو ڈوبنے سے بچائے؟