دروازے پر دستک سُن کر بریگیڈیئر رفیق نے سوچا اس وقت کون ہو سکتا ہے؟ ''کم ان‘‘ انہوں نے کہا۔ دروازہ کھلا تو ان کا ملازم تھا‘ اس کے ہاتھ میں سگریٹ کا پیک تھا ''سر آپ کے سگریٹ ختم ہو گئے تھے ابھی بازار سے لے کر آیا ہوں‘‘۔ بریگیڈیئر رفیق کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ انہوں نے ملازم کا شکریہ ادا کیا۔ اس وقت واقعی انہیں سگریٹ کی طلب ہو رہی تھی۔ انہیں اپنے کالج کے بچوں سے محبت تھی۔ اتنی ہی محبت جو انہیں اپنے اکلوتے بیٹے ریاض سے تھی لیکن وہ اس بات کے قائل تھے کہ زندگی کا ایک مقصد ہونا چاہئے اور پھر اس مقصد کے حصول کے لیے انتھک محنت کرنی چاہئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے بیٹے ریاض کو‘ جو لارنس کالج گھوڑا گلی کا طالب علم تھا‘ چھٹیوں میں ملٹری کالج لے آتے اور پھر سردیوں کی ٹھٹھرتی صبحوں میں اسے پی ٹی کے لیے گراؤنڈ میں آنا پڑتا۔
وہ محبت میں بھی رعایت کے قائل نہ تھے۔ کالج کے ماحول کو مثبت رکھنے کے لیے ضروری تھا کہ ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے والوں کو قرار واقعی سزا ملے۔ اتنی بڑی تعداد میں کالج کے طلبا کے اخراج پر شدید رد عمل متوقع تھا لیکن بریگیڈیئر رفیق بحرانوں سے نپٹنا جانتے تھے۔ انہیں اپنی ذات سے زیادہ کالج کا مفاد عزیز تھا۔ انہوں نے میز سے پین اٹھایا اور فائل پر دستخط کر دئیے۔ ان کے دل سے ایک بوجھ اتر چکا تھا۔ وہ اپنے ضمیر کی عدالت میں سرخرو ہو چکے تھے۔ انہوں نے سگریٹ سلگایا اور کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر باہر دیکھنے لگے۔ باہر تیز ہوا چل رہی تھی اور یوں لگتا تھا‘ کچھ دیر میں بارش شروع ہو جائے گی۔ بریگیڈیئر رفیق نے سگریٹ کا کش لگایا۔ انہیں اپنے گھر والے یاد آ رہے تھے‘ اپنی بیگم، بیٹیاں اور بیٹا۔ عجیب بات تھی کہ زندگی کا زیادہ حصہ وہ تنہا ہی رہے۔ ان کے مرحوم بھائی کی فیملی لاہور میں بریگیڈیئر رفیق کی فیملی کے ساتھ رہتی تھی جہاں بریگیڈیئر رفیق کی والدہ بھی تھیں۔ شاید بڑے لوگوں کی زندگی کا مقصد اپنے گھر والوں کی دلداری سے زیادہ عزیز ہوتا ہے۔ پھر انہیں قیام پاکستان کے وہ دن یاد آنے لگے جب مسلمانوں کے کٹے پھٹے قافلے پاکستان آ رہے تھے جن میں ان کے اپنے خاندان کے لوگ بھی شامل تھے‘ جو کپور تھلہ سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے۔ بریگیڈیئر رفیق نے ان قربانیوں کو قریب سے دیکھا تھا‘ جو پاکستان کے حصول کے لیے دی گئی تھیں۔ ملٹری کالج جہلم میں قدرت نے ان کو ایک سنہری موقع دیا تھا کہ وہ پاکستان کی نئی نسل میں مقصد کی لگن پیدا کریں اور اس کے حصول کے لیے انہیں محنت و مشقت کا عادی بنائیں۔ اس سلسلے میں وہ کسی سمجھوتے کے قائل نہ تھے۔
اگلے روز کالج سے 80 طلبا کے ڈسپلن کی خلاف ورزی پر کالج سے اخراج کے احکامات دے دیئے گئے اور انہیں بسوں میں سوار کرکے ان کے گھروں کو بھجوا دیا گیا۔ بریگیڈیئر رفیق طلبا میں اعتماد، سچائی، بہادری، ایمانداری، پابندیٔ وقت اور محنت کے اوصاف پیدا کرنا چاہتے تھے اور اس سلسلے میں کسی رعایت کے قائل نہ تھے۔ ایک روز کالج میں باکسنگ کا مقابلہ تھا۔ رنگ کے اردگرد بیٹھے لوگوں نے دیکھا کہ ایک باکسر ہر وار پر ڈک ان کر رہا ہے۔ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ مقابلے سے فرار اختیار کر رہا ہے۔ بریگیڈیئر رفیق یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے۔ انہوں نے اسی وقت کالج انتظامیہ سے کہا کہ اس لڑکے کو کالج سے خارج کر دیا جائے۔ جب انہیں یہ بتایا گیا کہ وہ کالج کا بہت لائق لڑکا ہے تو بریگیڈیئر رفیق بولے: مجھے اس کا علم ہے لیکن بزدل لوگوں کے لیے کالج میں کوئی جگہ نہیں۔
بریگیڈیئر رفیق کے اندر ایک بے قرار روح تھی‘ جو انہیں بے چین رکھتی تھی۔ وہ صحیح معنوں میں ملٹری کالج کے درودیوار کا حصہ بن گئے تھے۔ وہ صرف تین سے چار گھنٹے سوتے لیکن صبح تازہ دم پی ٹی گرائونڈ میں سب سے پہلے پہنچ جاتے۔ بریگیڈیئر رفیق Leading from front کے قائل تھے۔ وہ سب کے لیے رول ماڈل تھے۔ یوں ان کے ساتھی خوش دلی سے ان کے احکامات پر عمل کرتے۔ جیسا کہ پہلے ذکر ہوا ہے‘ وہ لباس کی تراش خراش اور جوتوں کی چمک دمک پر خاص توجہ دیتے۔ ایک بار انہوں نے دیکھا کہ ایک بچے کے جوتے صحیح طرح سے پالش نہیں ہوئے تھے۔ وہ اس کے پاس گئے اور اسے پالش کی ڈبیا میں پانی لانے کو کہا۔ پھر خود زمین پر بیٹھ کر بچے کے جوتے پالش کئے۔ اسی دوران کالج کے باقی لڑکے انہیں حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ جوتوں کو چمکا کر انہوں نے کہا: اب تم خود بھی ایسے ہی جوتے چمکائو گے۔ بریگیڈیئر رفیق ایسے لیڈر تھے جنہیں دیکھ کر بچے ان جیسا بننے کی تمنا کرتے تھے‘ لیکن یہ آسان کام نہیں تھا۔ ایک روز کالج کا سب سے اچھا باکسر اقبال سندھو‘ جو ایک کڑیل نوجوان تھا‘ باکسنگ رنگ میں آیا اور سب کو چیلنج کیا۔ ایک بار، دو بار، کسی کو اس کے مقابل آنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ اس نے طنزیہ انداز میں تیسری بار مقابلے کے لیے پکارا تو بریگیڈیئر رفیق آستینیں چڑھاتے ہوئے کھڑے ہو گئے۔ سب کے چہرے فق ہو گئے کیونکہ وہ کالج کے باکسر سے واقف تھے۔ ادھر بریگیڈیئر رفیق کی عمر بھی زیادہ تھی لیکن بریگیڈیئر رفیق کو کون روک سکتا تھا۔ وہ رنگ میں جا کر کھڑے ہو گئے۔ ریفری نے دونوں کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور دونوں کا ایک ہاتھ پشت سے باندھ دیا گیا۔ رنگ کے ارد گرد کالج کے لڑکے اور اساتذہ دم بخود تھے کہ اس میچ کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ ریفری نے گھنٹی بجائی اور سندھو اپنے دائیں ہاتھ کا آہنی مکہ تانے بریگیڈیئر رفیق کی طرف بڑھا۔ باکسنگ رنگ کے ارد گرد کالج کے طلبا اور اساتذہ سانس روک کر بیٹھے تھے۔ ملٹری کالج جہلم میں ایسا انوکھا منظر انہوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ کالج کے بہترین باکسر کے چیلنج کو کمانڈنٹ نے خود قبول کیا تھا اور کالج کا بہترین باکسر اقبال سندھو مکہ تول کر آگے بڑھا اور پوری قوت سے وار کیا‘ جو بریگیڈیئر رفیق نے اپنے ہاتھوں پر روکا۔ ان کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ انہوں نے اندازے سے وار کیا جو اتنا شدید تھا کہ کالج کا باکسر رنگ سے فرش پر جا گرا۔ بریگیڈیئر رفیق نے جلدی سے آنکھوں سے پٹی اتاری‘ سندھو کے پاس جا پہنچے اور پوچھنے لگے آریو اوکے؟ آر یو او کے؟ رنگ کے اردگرد بیٹھے لوگ سکتے میں آ گئے۔ بریگیڈیئر رفیق کی شخصیت کا مرکزی تاثر Awe کا تھا۔ اس واقعے سے مجھے معروف ناول (اور بعد میں فلم) To Sir with Love یاد آ گیا‘ جس کا مرکزی کردار اپنی Writ قائم کرنے کیلئے اسی طرح باکسنگ کا چیلنج قبول کرتا ہے اور پھر کچھ ہی عرصے میں وہاں کا ہر دلعزیز استاد بن جاتا ہے۔ ایک زمانے میں وہ ایبٹ آباد میں تعینات تھے۔ ان کے پلاٹون کو اٹک فورٹ موو کرنے کا حکم ملا۔ ان کا ٹو آئی سی ان کے پاس خبر لایا اور ساتھ ہی بتایا کہ ٹرانسپورٹ کا انتظام کیا جا رہا ہے۔ بریگیڈیئر رفیق تڑپ کر اٹھے اور بولے ٹرانسپورٹ کیوں؟ یہاں سے اٹک فورٹ سو، سوا سو میل ہی تو ہے‘ ہم پیدل جائیں گے اور سب جوان اپنی لیڈر بریگیڈیئر رفیق کی قیادت میں ہری پور اور حسن ابدال میں پڑائو کرتے ہوئے بینڈ کی دُھنوں میں اٹک فورٹ میں داخل ہوئے۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے علاقے باغ میں رات کے وقت شدید برف باری ہو رہی تو وہ حسب معمول معائنے اور جوانوں کو حوصلہ دینے کیلئے علاقے کا دورہ کر رہے تھے کہ انھوں نے دیکھا کہ سخت برف باری میں بھی ایک نوجوان مستعد کھڑا اپنی ڈیوٹی دے رہا۔ بریگیڈیئر رفیق نے اس سے پوچھا: تمھیں سردی نہیں لگتی اس نے نفی میں سر ہلایا اور بولا: جب میرے کمانڈر کو سردی نہیں لگتی تو مجھے کیوں لگے۔ یہ جواب سُن کر بریگیڈیئر رفیق کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ وہ آگے بڑھے اور بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔ عین اسی لمحے فضا مشین گن کی گولیوں سے لرز اٹھی۔ )جاری(