بر صغیر میں ایسٹ انڈیا کمپنی اور پھر برطانیہ کے عہدِ جبر کی ایک طویل تاریخ ہے جس نے اس خطے کی معیشت، معاشرت، اور تہذیب پر منفی اثرات مرتب کیے۔ عہدِ غلامی کے اس تاریک دور میں مزاحمت کے چراغ یہاں وہاں جلتے رہے۔ بعض اوقات لوگوں کا جذبۂ مزاحمت کی تحریکوں میں ڈھل گیا۔ یہ تحریکیں عام طور پر ہندوستان کے مختلف حصوں میں مقامی شہنشاہوں، کسانوں، ملازمین، مذہبی رہنمائوں اور عام شہریوں نے شروع کی تھیں۔ مزاحمت کی یہ تحریکیں ہندوستان کے مختلف حصوں میں اٹھتی رہیں اور تاجِ برطانیہ کے لیے مسلسل خطرے کی علامت بنی رہیں۔ مزاحمت کا اہم مرکز وہ سرحدی علاقے تھے جہاں مختلف روحانی پیشوائوں نے متعدد مزاحمتی تحریکیں شروع کیں اور اپنے پیروکاروں سے مل کر برطانوی سامراج کو چیلنج کیا۔ یہ روحانی پیشوا فرنگی حکمرانوں کے لیے ایک ڈرائونا خواب بن گئے تھے کیونکہ ان کے پیروکار مذہبی جذبے سے سرشار‘ اور اپنے امیر کے لیے کٹ مرنے کو تیار تھے۔
ابتدائی مزاحمتی تحریک‘ جو پشاور، ہزارہ اور بالا کوٹ کے شہروں میں ایک زبردست لڑائی میں بدل گئی‘ کی قیادت سید احمد شہید نے کی۔ یہاں اس بات کا تذکرہ اہم ہے کہ سید احمد قبائلی علاقوں کے رہائشی نہیں تھے بلکہ ان کا تعلق رائے بریلی (اودھ) سے تھا۔ ان کی پیدائش 1786ء میں ہوئی تھی اور انہوں نے شاہ عبدالقادر سے تعلیم حاصل کی تھی جو شاہ عبدالعزیز کے چھوٹے بھائی اور 19ویں صدی میں ہندوستان کی سب سے با اثر شخصیات میں سے ایک شاہ ولی اللہ کے بیٹے تھے۔ سید احمد، نے 22 سال کی عمر میں شاہ عبدالعزیز کے ہاتھ پر بیعت کی۔ انہوں نے 1810ء میں ٹونک کے نواب عامر خان کی فوج میں ملازمت حاصل کی اور 1816ء تک وہ وہاں رہے۔ جب وہ ملازمت چھوڑ کر واپس شاہ عبدالعزیز کے پاس آئے تو ان کی بلند روحانی حیثیت کا ادراک کرتے ہوئے دو نامور دینی علماء شاہ اسماعیل سید اور عبدالحئی نے سید احمد شہید کے ہاتھ پر بیعت کی۔ 1822ء میں انہوں نے اپنے پیروکاروں کے ایک بڑے گروہ کے ساتھ حج پر جانے کا فیصلہ کیا۔ حج کے بعد ہندوستان واپس آ کر سید احمد نے عوام کو متحرک کیا اور مسلح مقابلوں کا آغاز 1826 میں ہوا۔ ایک طویل جدوجہد کے بعد سید احمد کی فوج نے پہلی فتح اس وقت حاصل کی جب مجاہدین نے 1830 ء میں سکھوں کے زیرِ تسلط پشاور پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت پنجاب میں سکھوں کی حکومت تھی جو وسیع علاقے پر پھیلی ہوئی تھی۔ پشاور کی فتح ایک غیر معمولی واقعہ تھا‘ جس سے مجاہدین کے حوصلے اور بڑھ گئے۔ سقوطِ پشاور کے وقت محمد خان، وہاں کا حکمران تھا جسے سکھوں کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ مجاہدین نے پشاور کو فتح کرنے کے بعد وہاں کے حکمران محمد خان کو حکمران کی حیثیت سے کام جاری رکھنے کی اجازت دے دی‘ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلامی قوانین کے مطابق فیصلے کرنے کے لیے مولوی ظفر علی کو قاضی مقرر کیا گیا۔
سید احمد کی اگلی منزل بالا کوٹ تھی۔ ان کے مجاہدین پشاور سے روانہ ہو کر بالا کوٹ کے رستے میں تھے کہ انہیں خبر ملی کہ پشاور کا حکمران اور ان کا مقررہ کردہ امیر دونوں کو قتل کر دیا گیا ہے۔ یہ خبر تشویش ناک تھی لیکن انہوں نے پشاور واپس جانے کے بجائے بالا کوٹ کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ بالا کوٹ میں مجاہدین اور سکھوں کے مابین زبردست جنگ ہوئی۔ مجاہدین ایک مقام پر سکھوں کے نرغے میں آ گئے۔ گھمسان کا رن پڑا جس میں سید احمد شہادت سے ہمکنار ہوئے۔ یہ 5 مئی 1831ء کا دن تھا جب مجاہدین کے عظیم سپہ سالار نے آخری سانس لی۔ آج بھی آپ اس علاقے میں جائیں تو یہاں وہاں ایسی قبریں نظر آ ئیں گی جنہیں لوگ شہیدوں کی قبریں کہتے ہیں اور جہاں باقاعدگی سے دیے جلائے جاتے ہیں۔ سید احمد شہید ہو گئے لیکن مزاحمت کا سفر تمام نہیں ہوا۔ نئے قافلے مزاحمتوں کے نئے سفر پر نکلنے کے لیے بے قرار تھے۔
سرحد میں ایک اور نمایاں نام اخوند عبدالغفور (1793ء-1878ء) کا تھا جو سکھ حکومت کے خلاف جنگ میں پیش پیش تھے؛ تاہم، ان کے پیروکار، ملا نجم الدین، جو ہدا ملا کے نام سے مشہور تھے‘ کو زیادہ شہرت ملی۔ انہوں نے چترال میں برطانوی تجاوزات کی کوششوں کے خلاف سخت مزاحمت کی جو اس وقت فرنگی حکمران ریلوے لائنوں کے قیام اور علاقے میں اپنے مضبوط گڑھ قائم کرنے کے لیے کر رہے تھے۔ ہدا ملا نے اپنی سحر انگیز شخصیت کی مدد سے بونیر اور مہمند کے لوگوں کو تحریک دی اور 1897-98ء میں برطانوی افواج کے خلاف بے خوف جنگ لڑی۔ ہدا ملا کی کامیابی کی وجہ ان کے روحانی اثر و رسوخ اور اپنے پیروکاروں میں قوم پرستی کے جذبات پیدا کرنے کی اہلیت کو قرار دیا جاتا ہے۔
ایک اور نمایاں شخصیت جس نے برطانوی سامراج کو چیلنج کیا اور برطانوی افواج کو طویل عرصے تک تگنی کا ناچ نچائے رکھا‘ وہ تھے حاجی صاحب تورنگزئی۔ حاجی صاحب، جن کا اصل نام فضل واحد تھا، 1858ء میں چار سدہ ضلع میں واقع تورنگزئی گائوں میں پیدا ہوئے تھے۔ اپنی دینی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ ہندوستان میں دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے، جہاں وہ شیخ الہند مولانا محمودالحسن سے ملے اور ان کی شخصیت اور ان کے انقلابی پیغام کے سحر میں آ گئے۔ مولانا محمودالحسن حج کے لیے روانہ ہوئے تو حاجی صاحب تورنگزئی بھی ان کے قافلے میں شامل ہو گئے۔ محمودالحسن کے ساتھ حج کے دوران ان کی ملاقات حاجی امداد اللہ سے ہوئی‘ جن کے ہاتھ پر انہوں نے بیعت کر لی۔ یہ ان کے مرشد، حاجی امداد اللہ کے مشورے پر ہی تھا کہ وہ اصلاحات کے مشن کے ساتھ اپنے علاقے میں لوٹ آئے۔ واپسی پر حاجی تورنگزئی صاحب نے ہدا ملا کے ہاتھ پر ایک اور بیعت کی۔ ہدا ملا کی شہرت ان کی روحانیت اور برطانوی راج کے خلاف ان کا سخت گیر موقف تھا۔ یہ بیعت دراصل حاجی صاحب کا اپنے مرشد سے یہ وعدہ تھا کہ وہ ہدا ملا کی مزاحمتی تحریک کو جوش و جذبہ سے جاری رکھیں گے۔
1902 ء میں ہدا ملاخالق حقیقی سے جا ملے۔ ان کے بعد مولوی عالم گل تحریک کے امیر مقرر ہوئے‘ جنہوں نے حاجی صاحب تورنگزئی کو اپنا خلیفہ قرار دے کر انہیں امیرالمجاہدین کا لقب دیا۔ حاجی صاحب عوام کو متحرک کرنے میں کامیاب رہے اور انگریزوں کے خلاف مزاحمتی تحریک تیز کر دی۔ برطانوی حکومت نے ان کا نام مطلوب افراد کی فہرست میں ڈال دیا‘ اور 1915ء میں اس کی گرفتاری کا حکم دے دیا۔ حاجی صاحب تورنگزئی، اپنے پیروکاروں کے ساتھ، مہمند کے قبائلی علاقے میں چلے گئے، جو بعد میں شب قدر قلعے پر حملے سمیت اپنی مزاحمت کے حوالے سے ان کے لیے ایک بہترین ٹھکانہ ثابت ہوا۔ ان کا برطانوی افواج کے ساتھ آخری اہم مقابلہ 1935ء میں ہوا تھا جہاں برطانوی افواج کو بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا اور یوں فرنگی حکمران مذاکرات کی میز پر آنے پر مجبور ہو گئے تھے۔ دو دہائیوں کی طویل مزاحمت کے بعد، حاجی صاحب کا انتقال 1937ء میں ہوا۔ ان کی موت مزاحمت کے ایک باب کا اختتام تھا‘ لیکن مزاحمت کا ایک اور باب جلد ہی کھلنے والا تھا۔ یہ فقیر ایپی تھا۔ فقیر ایپی، جس کا اصل نام مرزا علی خان تھا‘ 1897ء میں شمالی وزیرستان میں پیدا ہوا تھا۔ وہ چہار باغ کے نقیب، جو ایک مشہور افغانی سکالر تھے، کا پیروکار تھا۔ 1923ء میں حج کرنے کے بعد فقیر ایپی نے شمالی وزیرستان میں اپنی زندگی کا آغاز کیا؛ تاہم، اس کے فوراً بعد ہی، اس نے برطانوی حکمرانی کے خلاف گوریلا جنگ کا سہارا لیا۔ اپنے معمولی وسائل کی مدد سے فقیر ایپی نے تقریباً دس سال تک برطانوی افواج کو کامیابی کے ساتھ مصروف رکھا‘ حتیٰ کہ 1947ء میں انگریزوں کو بر صغیر چھوڑنا پڑا۔ یوں سرحدی علاقوں میں تاجِ برطانیہ کے خلاف مزاحمتی تحریکیں اپنے انجام کو پہنچیں۔ دیکھا جائے تو تمام مزاحمتی تحریکوں میں قوم پرستی کے جذبات کو مذہبی جذبے نے محرک قوت میں تبدیل کر دیا تھا اور اس میں مذہبی رہنمائوں کا بنیادی کردار تھا۔