"SSC" (space) message & send to 7575

اکیسویں صدی کے تعلیمی تقاضے: ہم کہاں کھڑے ہیں

اکیسویں صدی کا آغاز ہو چکا ہے۔ کہتے ہیں یہ صدی مقابلے کی صدی ہے جس میں وہی افراد کامیاب ہوں گے جن کے پاس اکیسویں صدی میں زندہ رہنے اور آگے بڑھنے کی مہارتیں (Skills) ہوں گی۔ اکیسویں صدی اس لحاظ سے بھی ایک اہم صدی ہے کہ اس میں معلومات (Information) کا ایک سیلاب ہے اور ہر روز علوم کے نئے دریچے کُھل رہے ہیں۔ یوں یہ صدی علم کی صدی ہے‘ جس میں تبدیلی کی رفتار کئی گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ وہی تبدیلی جو ماضی میں برسوں بعد آتی تھی اب وہ مہینوں اور دنوں میں آ رہی ہے۔ اس تیز رفتار تبدیلی کے اثرات معاشرے میں ہر شعبے پر پڑ رہے ہیں۔ تعلیمی ادارے بھی اس کی دستبرد سے محفوظ نہیں۔ نصاب، درسی کتب، طریقۂ تدریس، امتحانی نظام‘ سب کا نئے سرے سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی میں زندہ رہنے اور بہتر کارکردگی دکھانے کے لیے کون سی مہارتیں چاہئیں ان کی ایک جھلک ہراری (Harari)کی کتاب 21 Lessons for the 21st Century میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ورلڈ اکنامک فورم کی رپورٹ میں بھی 21ویں صدی میں کام آنے والی مہارتوں کا ذکر ہے۔ ان میں Communication، Creativity، Critical Thinking اور Artificial Intelligence جیسی مہارتیں شامل ہیں۔ یہ مہارتیں یوں تو ہر دور میں اہم رہی ہیں لیکن اکیسویں صدی میں ان کا کردار مزید اہم ہو گیا ہے۔ مثلاً کریٹیکل تھنکنگ کی اکیسویں صدی میں اہمیت اس لیے زیادہ ہو گئی ہے کہ خبروں کے سیلاب اور سوشل میڈیا کی یلغار میں اس بات کی اہمیت اور زیادہ ہو گئی ہے کہ ہر خبر کو سچ نہ سمجھ لیا جائے اور حقیقت اور افسانے میں تمیز کی جا سکے۔ کریٹیکل تھنکنگ کی مہارت اس لیے بھی اہم ہے کہ ہر لحظہ بدلتی ہوئی صورتحال میں نئے مسائل کے پرانے حل متروک ہو چکے ہیں اور اس بات کی ضرورت ہے کہ مسائل کا نئے زاویوں سے جائزہ لیا جائے اور تسلیم شدہ باتوں کو من و عن ماننے کے بجائے ان پر سوالات اٹھائے جائیں اور ان کے ممکنہ حل تجویز کیے جائیں۔
کریٹیکل تھنکنگ کے ساتھ ساتھ Creativity کی مہارت بھی اکیسویں صدی کی اہم مہارت ہے۔ اکیسویں صدی میں آج سے تیس سال بعد کا منظر کیا ہو گا یہ سب کچھ غیر یقینی کی دھند میں چھپا ہوا ہے۔ اس بے یقینی میں Creativity کی مہارت ہی کام آئے گی۔ اب آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ کیا ہم اکیسویں صدی‘ جسے ہم علم کی صدی کہتے ہیں‘ کے لیے تیار ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے پاکستان کے چند اہم چیلنجز ہیں۔ ان میں سب سے اہم چیلنج ناخواندگی کا ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک متعدد تعلیمی پالیسیوں کا اجرا ہو چکا ہے‘ جن میں خواندگی میں اضافے کیلئے بلند بانگ دعوے کیے گئے‘ لیکن کبھی طے شدہ اہداف پورے نہیں ہوئے۔ اس وقت بھی پاکستان خواندگی کے لحاظ سے جنوبی ایشیا کے ممالک میں آخری درجے پر ہے حتیٰ کہ بنگلہ دیش، بھوٹان اور نیپال جیسے ممالک بھی شرحِ خواندگی کے لحاظ سے ہم سے آگے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں تقریباً اڑھائی کروڑ بچے ایسے ہیں جو سکول کی دہلیز عبور نہیں کر سکے اور بنیادی تعلیم کی سہولت سے محروم ہیں۔ ناخواندگی کے چیلنج سے جڑا ہوا ایک اور چیلنج ڈراپ آئوٹ ریٹ ہے‘ جس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 35 فیصد بچے آٹھویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں اور بچوں کے اس ہجوم کا حصہ بن جاتے ہیں جو شہر کی سڑکوں پر مارا مارا پھرتا ہے۔ اتنی بڑی تعداد میں بچوں کے ڈراپ آئوٹ ہونے کے حوالے سے پاکستان کا دنیا میں دوسرا نمبر ہے۔ پاکستان کا تیسرا اہم چیلنج تعلیمی معیار کا ہے۔ قیامِ پاکستان سے اب تک تعلیمی اداروں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوا‘ جو ایک مثبت تبدیلی ہے‘ لیکن جہاں تک معیار کا تعلق ہے‘ بنیادی تعلیم سے اعلیٰ تعلیم تک معیار کے حوالے سے کئی سوالیہ نشانات ہیں۔ ASER کی رپورٹ کے مطابق سکولوں میں بچوں کی تعلیمی استعداد ان کے درجوں سے کہیں کم ہے۔ سکولوں کی اکثریت میں امتحانی نظام دراصل یادداشت کا امتحان ہے۔ اگر امتحانی پرچوں پر ایک نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ سوالات Higher-order thinking skills سے متعلق نہیں ہوتے۔ یہی وجہ ہے کہ امتحان میں اچھے گریڈ لینے کے باوجود طلبا میں تخلیقی سوچ اور تنقیدی زاویۂ نگاہ کا فقدان ہوتا ہے۔ تعلیمی اداروں کی اکثریت میں تدریس کا وہی فرسودہ نظام رائج ہے‘ جس میں تعلیم کا اول و آخر مقصد علم، مہارتوں اور رویوں کی ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقلی ہے۔ تدریس کے اس نظام کی تہہ میں تین اہم مفروضے ہیں: پہلا یہ کہ علم ایک جامد چیز ہے۔ دوسرا یہ کہ طلبا ایک خالی سلیٹ کی طرح ہوتے ہیں اور تیسرا یہ کہ استاد تمام علوم کا واحد ذریعہ ہے۔ ان تینوں مفروضوں کو نئی تحقیق نے رد کر دیا ہے۔ اب یہ بات واضح ہو جانی چاہیے کہ علم کوئی جامد چیز نہیں۔اس کی تشکیل روزانہ کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔ اسی طرح طلبا خالی سلیٹ کی طرح نہیں ہوتے۔ جدید تحقیق کے مطابق چھوٹی عمر کے بچوں کے ذہن بھی خالی سلیٹ نہیں ہوتے بلکہ مشاہدات اور امتیازات کی آماجگاہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح دورِ حاضر میں استاد یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ تمام علوم سے آشنا ہیں اور طلباء کے لیے حصولِ علم کا واحد ذریعہ ہیں۔ تینوں مفروضوں کے رد ہو جانے کے بعد ہمارے سکولوں میں رائج اس روایتی تدریسی نظام کا خاتمہ بھی ہو جانا چاہیے جس میں علم کو ایک جامد شے سمجھ کر اگلی نسل تک منتقل کیا جاتا ہے۔ اب تعلیم Transmission نہیں بلکہ Transformation کا نام ہے۔ تبدیلی‘ جو طلبا کی انفرادی زندگیوں کے ساتھ اجتماعی طور پر معاشرے میں بھی نظر آئے۔ موجودہ نظامِ تعلیم طلبا کے اندر تبدیلی لانے کے بجائے منجمد تصورات کو طلبا میں منتقل کرتا ہے اور طلبا میں تخلیقی سوچ کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔ یہ طلبا اکیسویں صدی کے چیلنجز کا سامنا کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ماضی میں حکومتوں کی تمام تر توجہ تعلیم میں مقداری اضافے پر رہی یہی وجہ ہے کہ تعلیم میں معیار دن بدن رو بہ زوال رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تقسیمِ پاکستان سے لے کر اب تک تعلیم کے شعبے پر وہ توجہ نہیں دی گئی جس کا وہ مستحق تھا۔ تعلیم کیلئے مختص بجٹ کے حوالے سے پاکستان کا نمبر جنوبی ایشیا کے ممالک میں سب سے آخر میں آتا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ تعلیمی بجٹ‘ جس میں ہر سال ضروریات میں پھیلائو کے حوالے سے اضافہ ہونا چاہیے تھا‘ زیادہ ہونے کے بجائے کم ہو رہا ہے۔ ماضی میں سیاستدان بلند بانگ دعوے کرتے رہے لیکن ان پر عملدرآمد کیلئے کوئی منصوبہ بندی نہ ہوئی۔ سابق وزیر اعظم شوکت عزیز نے اعلان کیا تھا کہ تعلیم کیلئے GDP کا 4 فیصد مختص کیا جائے گا۔ اس اعلان کو دو عشرے ہونے کو ہیں لیکن آج بھی تعلیم کیلئے ہمارا مختص فنڈ جی ڈی پی کے 2 فیصد کے قریب ہے۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں کہا گیا تھا کہ حکومت 2015ء تک جی ڈی پی کا 7 فیصد تعلیم کے لیے مختص کرے گی اور اس کے نفاذ کے لیے ضروری اقدامات کرے گی‘ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ 2014-2013ء میں تعلیم کے لیے مختص رقم جی ڈی پی کا 2.1 فیصد تھی‘ 2015-2014ء میں 2.2 فیصد‘ 2016-2015ء میں 2.3 فیصد، 2018-2017ء میں یہ کم ہو کر 2.2 فیصد رہ گئی‘ اور اس سال کے بجٹ میں یہ شرح مزید کم ہو گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ پر نگاہ ڈالیں تو تعلیم کبھی حکومتوں کی ترجیح نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کیلئے مختص فنڈز ہمیشہ ناکافی رہے ہیں۔ اکسیویں صدی کے مقابلے کیلئے جہاں دوسرے ممالک بھرپور تیاری میں مصروف ہیں ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ ہمارے پالیسی سازوں کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ اکیسویں صدی سخت مقابلے کی صدی ہے جس کا مقابلہ اوسط درجے کے طلبا نہیں کر سکتے۔ اس کے لیے جدید مہارتوں سے لیس ہونا ضروری ہے۔ اکیسویں صدی کے مقابلے کی دوڑ شروع ہو چکی ہے پاکستان کو اس دوڑ میں شامل رہنے کے لیے تعلیمی میدان میں جلد اور مشکل فیصلے کرنا ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں