کورونا وائرس دنیا بھر میں ایک وبا کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ اس کے پھیلاؤ میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ کورونا وائرس کے معاشی، معاشرتی اور نفسیاتی اثرات تیزی سے افراد اور معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ یہ دیگر قدرتی آفات مثلاً سیلاب، زلزلے، قحط سے کئی اعتبار سے زیادہ سنجیدہ بحران ہے۔ ایک تو اس کی تیزی سے بڑھتی ہوئی رفتار ہے۔ دوسرے یہ کسی ایک ملک یا براعظم تک محدود نہیں بلکہ پوری دنیا اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ 24 مارچ کی شام تک کورونا وائرس کے عالمی سطح پر چار لاکھ مصدقہ کیسز سامنے آ چکے تھے۔ 17241 افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اس وقت کورونا وائرس کے مریضوں کے اعتبار سے پہلے نمبر پر چین، دوسرے نمبر پر اٹلی، تیسرے نمبر پر امریکہ، چوتھے نمبر پر سپین، پانچویں نمبر پر جرمنی، چھٹے نمبر پر ایران، ساتویں پر فرانس، آٹھویں پر کوریا، نویں پر سوئٹزرلینڈ اور دسویں نمبر پر برطانیہ ہے۔ لیکن اہم امر یہ ہے کہ کسی ملک میں یہ بیماری کس رفتار سے پھیل رہی ہے۔ پاکستان میں کچھ ہفتے پیشتر کورونا وائرس کا پہلا کیس سندھ میں اور دوسرا اسلام آباد میں سامنے آیا تھا لیکن پھر دیکھتے ہی دیکھتے چاروں صوبے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان بھی اس کی لپیٹ میں آ گئے اور 24 مارچ کے اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس کے مریضوں کی تعداد918 ہو چکی ہے اور اس میں روزانہ کی بنیاد پر اضافہ ہو رہا ہے۔
ایک لحاظ سے کورونا وائرس کی متوقع تباہ کاری پہلی اور دوسری جنگِ عظیم سے بھی بڑھ کر ہے۔ حکومت لاک ڈاؤن کے فیصلے تک پہنچنے میں تذبذب کا شکار رہی۔ اس کی ایک بڑی وجہ ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے وہ لوگ ہیں جو لاک ڈاؤن کی وجہ سے اپنے گھر تک محدود ہو جائیں گے اور یوں ان کے گھر کے چولہے سرد ہو جائیں گے۔ ایسے میں مجھے معروف نوبل انعام یافتہ ماہرِ معاشیات امرتیا سین کا واقعہ یاد آ گیا‘ جو انہوں نے اپنی معروف کتاب Development as Freedom میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ جب ہندوستان کی تقسیم ہو رہی تھی اس وقت اُن کی عمر بارہ تیرہ سال ہوگی۔ مختلف شہروں میں فسادات شروع ہو گئے تھے۔ امرتیا سین ہندو اکثریت کے علاقے میں رہتے تھے۔ ان کے علاقے میں ایک مسلمان محنت کش قادر میاں محنت مزدوری کے لیے آتا تھا۔ فسادات کی شدت کی وجہ سے اور لوگ ان علاقوں میں جانے سے گریز کرتے تھے‘ جہاں دوسرے مذہب کے لوگ بستے ہوں۔ امرتیا سین لکھتے ہیں کہ ایک روز وہ اپنے گھر آ رہے تھے کہ اُنہوں نے دیکھا‘ مسلمان محنت کش قادر میاں کو چُھرا گھونپ دیا گیا ہے۔ امرتیا سین نے دوڑ کر گھر اپنے والد کو بتایا اور پھر امرتیا اور اس کے والد گھائل قادر میاں کو ہسپتال لے گئے جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ امرتیا سین لکھتے ہیں‘ راستے میں انہوں نے قادر میاں سے پوچھا کہ تمہیں پتہ بھی تھا‘ فسادات شروع ہو چکے ہیں اور یہ ایک ہندو اکثریت کا محلہ ہے‘ جہاں ان حالات میں کسی مسلمان کا آنا خطرے سے خالی نہیں۔ یہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی تم یہاں کیوں آئے؟ قادر میاں‘ جس کا خون تیزی سے بہہ رہا تھا‘ نے نحیف آواز میں کہا‘ مجھے پتہ تھا اس علاقے میں آنا خطرے سے خالی نہیں اور میری بیوی نے بھی مجھے یہاں آنے سے منع کیا تھا‘ لیکن میں نے اُسے کہا تھا کہ اگر میں آج کام پر نہ گیا تو گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ امرتیا سین نے اس واقعے کی مدد سے اپنا نقطۂ نظر واضح کیا کہ ڈویلپمنٹ دراصل ان آزادیوں کا نام ہے جو کسی معاشرے میں ایک فرد کو حاصل ہوتی ہیں۔ اگر مسلمان محنت کش کو معاشی آزادی حاصل ہوتی تو وہ کبھی بھی یہ خطرہ مول نہ لیتا جس میں اس کی جان چلی گئی۔
کسی معاشرے میں ڈویلپمنٹ کا تصور بلندوبالا عمارات اور جدید شاہراہوں تک محدود نہیں ہوتا بلکہ ڈویلپمنٹ کا ایک اہم پیمانہ معاشرے میں شہریوں کیلئے تعلیم اور صحت کے مواقع ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اقوام عالم میں حکمرانوں کی اکثریت ایک دیرپا پالیسی، جس کا محور عوام کی فلاح و بہبود ہو، کے بجائے عارضی اور مصنوعی اقدامات کا سہارا لیتی ہے‘ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ کسی بھی بحران میں حکومتیں اپنے حصے کا کام پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کر دیتی ہیں۔ پرائیویٹ سیکٹر‘ جس کا محور و مرکز آزاد معیشت ہے‘ ہر بحران کو ایک منافع بخش Opportunity کے طور پر لیتا ہے‘ اور بے دریغ منافع کماتا ہے۔ منافع کا یہ کاروبار حکومتوں کے آشیرباد سے پرائیویٹ انڈسٹریز کر رہی ہوتی ہیں جبکہ عام لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر ان کے مسائل میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ کسی بھی بحران کو پرائیویٹ سیکٹر کیسے ایک منافع بخش پروجیکٹ کے طور پر استعمال کرتا ہے اس کیلئے معروف ماہرِ ماحولیات نومی کلین (Naomi Klein) کی کتاب The Shock Doctrine: The Rise of Disaster Capitalism کا مطالعہ ضروری ہے‘ جس کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کیسے پرائیویٹ انڈسٹریز کسی بھی بحران میں براہِ راست زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے سرگرمِ عمل ہو جاتی ہیں۔ نومی کلین کے مطابق کسی جنگ یا تباہی کے دوران منافع کمانا نئی بات نہیں لیکن 9/11 کے واقعے کے بعد اس روایت کو امریکہ میں سرکاری طور پر مستحکم کیا گیا ہے۔ حکومتی سطح پر ایک نہ ختم ہونے والے سکیورٹی بحران کا اعلان کیا گیا اور سکیورٹی کے انتظامات پرائیویٹ سیکٹر کو دے کر Outsource کیا گیا ہے۔ امریکہ میں انتظامیہ نے نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بین الاقوامی پر سکیورٹی کو پرائیویٹ طور پر Outsourceکیا ہے جس کی تازہ مثالیں افغانستان اور عراق کی جنگیں ہیں۔
کسی بھی بحران کو حکومتیں کیسے عوام کیلئے نامطلوب پالیسیاں منظور کرانے کیلئے استعمال کرتی ہیں؟ نومی کلین کے مطابق کسی بھی بحران میں حکومتیں شاک ڈاکٹرائن (Shock Doctrine) کے ذریعے ان پالیسیوں کا اعلان کرتی ہیں جو منظم طور پر معاشرے میں عدم مساوات میں اضافہ کرتی ہیں، اشرافیہ کو تقویت دیتی ہیں اور معاشرے کے باقی طبقات کو کمزور کرتی ہیں۔ بحران کے لمحوں میں لوگ اپنی حفاظت کیلئے روزانہ کی بنیاد پر ہنگامی صورتحال پر توجہ دیتے ہیں اور اس دوران پرائیویٹ انڈسٹریز حکومتوں کے آشیرباد سے منافع بخش کاروبار کو پروان چڑھاتی ہیں۔ نومی کلین کے مطابق کسی بھی بحران میں معاشرے کے عام افراد معاشی طور پر بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ کورونا وائرس کے بحران میں امریکی صدر ٹرمپ نے 700 بلین ڈالر کی پیشکش کی ہے جس میں پے رول میں ٹیکسوں کی کٹوتی شامل ہے‘ جس سے سوشل سکیورٹی کا نظام بُری طرح متاثر ہوگا۔ یوں کورونا وائرس سے پیدا ہونے والے اثرات تو فوری ظاہر ہوں گے لیکن بحران کے مزید منفی اثرات آنے والے دنوں میـں ظاہر ہوں گے۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے معاشی اثرات جلد ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔ کیا حکومت پرائیویٹ سیکٹر کو من مانے انداز میں اس بحران کو منافع بخش موقع کے طور پر فراہم کرے گی؟ ابھی کورونا کے بحران کا پہلا دور ہے اور پرائیویٹ سیکٹر میں من مانے داموں پر سینی ٹائزرز، ماسکس، وٹامن سی، ٹشو رولز، کورونا کے ٹیسٹ منہ مانگے داموں بیچے جا رہے ہیں۔ پرائیویٹ انڈسٹری اپنے طور پر ان اشیا کی تیاری کر رہی ہے۔ معاشرے کے عام افراد اپنے بچوں کی خاطریہ اشیا تین گُنا زیادہ قیمت دے کر خرید رہے ہیں۔ ابھی یہ اس بحران کا پہلا دور ہے۔ بحران میں جتنی شدت آئے گی پرائیویٹ سیکٹر انڈسٹریز کی بن آئے گی۔ کیا حکومت صرف اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے شاک ڈاکٹرائن پر عمل کرتے ہوئے اِن پالیسیوں کا اجرا کرے گی جن سے عام لوگوں کی محرومیوں اور اشرافیہ کی طاقت میں اضافہ ہو؟ یہ بحران ہمیں ایک اور سبق بھی دے رہا ہے کہ حکومتی پالیسیوں کا محور تعلیم اور صحت اور ماحولیات ہونا چاہیے۔ اس سلسلے میں دیرپا اور دور رس نتائج کی حامل پالیسیاں تشکیل دی جانی چاہئیں تاکہ کسی بھی بحران کی شکل میں اس سے نمٹنے کے لیے ادارے اور وسائل تیار ہوں اور ایسی صورت حال پیدا نہ ہو جس میں پرائیویٹ سیکٹر حکومتی بے عملی کے خلا کو پُر کرنے کے لیے بحران کو ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر استعمال کر سکے۔