کہتے ہیں کتابوں کی محبت بھی عجیب محبت ہے‘ ایک بار آپ اس کے حصار میں آ جائیں تو آخری سانس تک اس کے سحر میں رہتے ہیں۔ آج4 اپریل ہے۔ یہ ذوالفقار علی بھٹو کی برسی کا دن ہے۔ بھٹو پاکستانی سیاست کا ایسا نام ہے جس کے چاہنے والے بھی بہت ہیں اور اس سے اختلاف کرنے والے بھی بے شمار‘ لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ بھٹو کی صورت میں پاکستانی سیاست میں ایک ایسی آواز ابھری جس نے روایتی سیاست کی بساط کو الٹ دیا اور 1970ء کے عام انتخابات میں بڑی بڑی قدآور سیاسی شخصیتوں کو عام لوگوں کے ہاتھوں شکست ہوئی۔ سیماب صفت بھٹو کی شخصیت کے کئی رُخ ہیں اور ہررُخ سحرانگیز ہے۔ بھٹو کی شخصیت کی تعمیر میں اورچیزوں کے علاوہ کتابوں سے محبت کا بھی دخل تھا۔ کتابوں کا شوق انہیں اپنے والد شاہنواز سے ملا تھا۔ بھٹوکے والد کو سیاست میں دلچسپی تھی اور ان کی اپنی لائبریری میں انگریزی کتابوں کی بہتات تھی۔ بے نظیر بھٹو اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ کس طرح وہ اپنے داداکی لائبریری سے ارل سٹیلے گارڈنر کے ناول لے کرپڑھا کرتی تھیں۔ بھٹو کی کتابوں سے دلچسپی اوربڑھ گئی جب انہیں بیرونِ ملک یونیورسٹیوں میں پڑھنے کا موقع ملا۔ نوجوان بھٹو کی سالگرہ کے موقع پر ان کے والد نے بیٹے کونپولین کی سوانح عمری بھجوائی تھی۔ کہتے ہیں نپولین کی سوانح عمری ان چند کتابوں میں شامل تھی جو بھٹوکی سائیڈ ٹیبل پر رہتی تھیں۔ بھٹو کے قریبی دوست پیلُو مودی نے اپنی کتاب Zulfi My Friend میں لکھاکہ کیسے وہ دونوں کتابوں کی تلاش میں رہتے تھے۔ پیلُو مودی لکھتے ہیں: بھٹو نے ناصرف Laski کے بیشتر لیکچر سن رکھے تھے بلکہ اس کی کتابیں بھی پڑھی ہوئی تھیں۔ انہی کتابوں میں لاسکی کی معروف کتاب Grammer of Politics بھی تھی‘ بھٹو اکثر کہا کرتے تھے‘ میں لاسکی کے مطالعے کے بعد سوشلسٹ نہیں بنا‘ ہاں اس کے مطالعے کے بعد میرے خیالات میں پختگی آئی ہے۔ بھٹو خاندان کی کتابوں سے محبت بچوں میں بھی آئی خصوصاً بے نظیر بھٹو نے اپنے والد سے یہ عادت ورثے میں پائی۔70 کلفٹن اورالمرتضیٰ میں بھٹو کی اپنی لائبریریاں تھیں‘ جن میں مختلف موضوعات پر کتب تھیں۔ نوڈیرو میں بے نظیر کی بھی ایک لائبریری تھی۔ بھٹو کو مطالعے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ قدرت اﷲ شہاب اپنی سرگزشت ''شہاب نامہ‘‘ میں بھٹو سے اپنی پہلی ملاقات کا احوال لکھتے ہیں۔ یاد رہے‘ شہاب اس زمانے میں پریزیڈنٹ ہاؤس میں سکندر مرزا کے سیکرٹری ہوا کرتے تھے۔ یہ واقعہ بھٹو کی کتابوں سے محبت کو آشکار کرتا ہے۔ قدرت اللہ شہاب لکھتے ہیں: ''ایک روز اچانک (سکندر مرزا) میرے کمرے میں آئے اور بولے‘ تم زلفی کو جانتے ہو؟... ذوالفقار علی بھٹو ایک نوجوان بیرسٹر ہے، پڑھا لکھا آدمی ہے‘ سندھ کے امیر کبیر گھرانے سے تعلق رکھتا ہے، کتابیں جمع کرنے کا شوقین ہے‘ وہ ایوانِ صدر میں سندھ کے متعلق جو بہت سی کتابیں ہیں انہیں دیکھنا چاہتا ہے۔ سکندر مرزا نے مجھے ہدایت کی کہ میں ٹیلی فون کرکے اس نوجوان کو اپنے پاس بُلاؤں اور پریزیڈنٹ ہاؤس کی لائبریری استعمال کرنے میں ان کی مدد کروں۔ میرے بلاوے پر چھریرے بدن کا ایک نہایت خوش لباس، خوبصورت، تیز طرّار، شوخ اور سیماب صفت نوجوان میرے کمرے میں وارد ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو میں بلا کی ذہانت اور فطانت تھی اور انہیں بہت سے جدید علوم اور ان کے اظہار پر حیرت انگیز عبور حاصل تھا۔ چند ہی روز میں انہوں نے پریزیڈنٹ ہاؤس کی چھوٹی سی لائبریری کو کھنگال کر رکھ دیا‘‘۔ بھٹو رات گئے تک مطالعہ کرتے تھے۔ ان کی نیند بہت مختصر تھی۔ یہ عادت بے نظیر میں بھی منتقل ہوئی۔ مجھے نوڈیرو میں ان کے گھر کے ایک مہتمم سے ملنے کا اتفاق ہوا‘ جس نے بتایا کہ بی بی بہت کم سوتی تھیں اور رات گئے تک مطالعہ کرتی تھیں۔
بھٹو کی دلچسپی کے موضوعات تاریخ، فلسفہ، سیاست اور حالاتِ حاضرہ تھے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب وہ ساہیوال جیل میں تھے۔ وہیں سے انہوں نے اپنی بیٹی کو ایک طویل خط لکھا‘ جو بعد میں کتابی شکل میں شائع ہوا‘ جس کا عنوان ہے My Beloved Daughter ‘ اس خط میں وہ بے نظیر کو تعلیم پر توجہ دینے کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کتابیں پڑھنے کی تلقین بھی کرتے ہیں۔ خط کے آغاز میں بھٹو اپنی بیٹی بے نظیر کو لکھتے ہیں ''میں O-Level میں تمہاری کامیابی کیلئے دعاگو ہوں۔ مجھے اپنی بیٹی پر فخر ہے کہ وہ 15سال کی عمر میں O-Level کر رہی ہے۔ تم مجھ سے بھی تین سال پہلے O-Level کر رہی ہو۔ اس رفتار سے تو تم ملک کی صدر بن سکتی ہو‘‘۔ اسی خط میں وہ جواہر لال نہرو کا ذکر بھی کرتے ہیں کہ کیسے اسیری کے زمانے میں نہرو اپنی بیٹی اندرا کو باقاعدگی سے خط لکھا کرتے تھے۔ ان خطوط میں تاریخِ عالم کا ذکر ہوتا۔ بعد میں یہ خطوط کتابی شکل میں Glimpses of World History کے نام سے شائع ہوئے۔ بھٹو اپنے خط میں بے نظیر کو لکھتے ہیں کہ کیسے 23 سال کی عمر تک وہ اس کتاب کا چار بار مطالعہ کر چکے تھے۔
28 نومبر کے اسی خط میں‘ جو ساہیوال جیل سے لکھا گیا‘ بھٹو اپنی بیٹی بے نظیر کو آنے والے وقتوں کیلئے تیار کر رہے تھے۔ وہ خط میں لکھتے ہیں ''مجھے معلوم ہے تمہیں پڑھنے کا بہت شوق ہے، لیکن تمہیں ادب اور تاریخ کا مطالعہ زیادہ کرنا چاہیے، تمہارے پاس یہ ساری کتابیں موجود ہیں۔ تم نپولین بوناپارٹ کے بارے میں پڑھو جو جدید تاریخ کا کامل ترین انسان تھا۔ امریکہ کے انقلاب اور ابراہم لنکن کے بارے میں پڑھو، جان ریڈ (John Reed) کی کتاب Ten Days that Shook the World پڑھو، بسمارک (Bismarck ) اور لینن کے بارے میں پڑھو۔ ہندوستان کی تاریخ قدیم زمانوں سے پڑھو اور ان سب سے اہم یہ ہے کہ اسلام کی تاریخ پڑھو‘‘۔ بھٹو صاحب تحفے میں بھی کتابیں دینا پسند کرتے تھے‘ اپنے دونوں بیٹوں مرتضیٰ اور شاہنواز کے بیرونِ ملک جاتے وقت اُنہیں قرانِ حکیم کا تحفہ دیا تھا۔
بینظیر کے کتابوں سے لگاؤ میں بھٹو صاحب کا اہم کردار تھا۔ بینظیر بھی بچپن ہی سے کتابوں کے عشق میں گرفتار ہوگئیں۔ وہ جہاں بھی جاتیں کتابوں کی موبائل لائبریری ہمراہ ہوتی۔ وہ اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں کہ جب ان کے والد وزیراعظم ہاؤس میں ہوتے تھے تو انہوں نے سختی سے سب کو یہ نصیحت کی تھی کہ یہاں اتنا سامان رکھنا جسے صرف ایک دن میں پیک کر سکیں۔ بینظیر کہتی ہیں: میں نے اس حکم کی خلاف ورزی کی کیونکہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی سے سیدھی راولپنڈی آئی تھی اور میرے ہمراہ کتابیں بھی تھیں۔ ایڈورڈ سعید اپنی تصنیف Orientalism میں لکھتے ہیں‘نپولین مصر فتح کرنے کیلئے آیا تو اس کے ہمراہ ایک موبائل لائبریری بھی تھی۔
بینظیر اپنی اسیری کے دنوں کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ انگریزی کااخبار آتا تو میں اسے لفظ لفظ پڑھتی تھی حتیٰ کے جمعہ کے دن بچوں کیلئے جو پہیلیاں ہوتیں ان کو حل کرتی اور ساری Recipes پڑھتی‘ پھر بھی اخبار ایک گھنٹے میں ختم ہوجاتا۔ ایک روز میں نے جیلر سے پوچھا: ٹائم یا نیوزویک کے رسالے مل سکتے ہیں تو جیلر کہنے لگا: یہ کمیونسٹ میگزین ہیں‘ یہاں نہیں ملتے۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے ہاں لائبریری میں کون کون سی کتابیں ہیں تو وہ بولا: یہاں کوئی لائبریری نہیں۔
کتابوں کی محبت نسل در نسل چلتی ہے۔ بینظیر اپنی سوانح عمری میں لکھتی ہیں‘ وہ اپنی بھتیجی فاطمہ کیلئے پلاسٹک کے کٹ آؤٹس اور کتابیں تحفے کے طور پر لے کر گئیں‘ اور فاطمہ کو کتابیں پڑھ کر سنائیں۔ شاہنواز کی وفات کے بعد اسکے کمرے میں اسلام آباد سکول کی Year Book اور مہم جوئی پر مبنی ناولز تھے۔ یوں کتاب سے محبت بھٹو خاندان کی شخصیت کا حصہ بن گئی۔ بھٹو صاحب نے ناصرف بے شمار کتابوں کا مطالعہ کیا بلکہ بہت سی کتابیں تحریر بھی کیں۔ ان میں The Myth of Independence, Third World: New Directions, The Great Tragedy, If I am Assassinated, Witness to Splendour شامل ہیں۔ پھانسی سے ایک روز پہلے بینظیر سے آخری ملاقات میں بھٹو صاحب نے جیل کی کال کوٹھڑی سے سمیٹ کر ساری کتابیں بینظیر کو دے دیں۔ اپنے خوابوں کا سب سے قیمتی خزانہ اپنی بیٹی کے حوالے کر دیا۔ کہتے ہیں کتابوں کی محبت بھی عجیب محبت ہے ایک بار آپ اس کے حصار میں آجائیں تو آخری سانس تک اس کے سحر میں رہتے ہیں۔