کچھ لوگ ایک نیم آفریدہ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں، ایک نامکمل منظر کی نامکمل شناخت کرنے کے لیے، اور ان کی ساری زندگی اسرار کے سمندر میں تیرتے، اوجھل ہوتے اور ابھرتے ہوئے جزیروں کی تلاش میں گزر جاتی ہے۔ آفتاب اقبال شمیم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔ ستر کی دہائی کا آخر آخر تھا جب میں گورڈن کالج کی حیرت افزا دنیا میں داخل ہوا۔ وہ کالج میں میرا پہلا دن تھا اور میں کالج کی سُرخ اینٹوں سے بنی پُرشکوہ عمارت کو بار بار حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ وہی wonder اور amazement کی کیفیت جس کے بارے میں بعد کے دنوں میں پروفیسر سجاد شیخ کی ڈرامہ کی کلاس میں خوب بحث ہوئی تھی۔ اس زمانے میں گورڈن کالج میں پروفیسرز کی ایک کہکشاں تھی جس کی مہربان چاندنی نے ہماری شخصیتوں پر غیر محسوس طریقے سے اثر ڈالا۔ کیسے کیسے لوگ تھے۔ خواجہ مسعود صاحب کالج کے پرنسپل تھے جن کی سیماب صفت شخصیت کالج کے ماحول کو ہر وقت متحرک رکھتی تھی۔ پھر سجاد شیخ، نصراللہ ملک، سجاد حیدر ملک۔ غرض جگمگاتے ناموں کا طویل سلسلہ تھا۔ یہ سب لوگ اپنی ذات میں انجمن تھے۔ اسی کہکشاں کا ایک روشن ستارہ آفتاب اقبال شمیم نام کا تھا۔ میری ایک عرصے سے خواہش تھی کہ آفتاب صاحب کے بارے میں اپنی یادوں کے حوالے سے کچھ لکھوں لیکن آفتاب صاحب کی شخصیت تو ایک اتھاہ سمندر کی طرح ہے‘ جس کا نہ کوئی انت ہے نہ کنارہ۔ آفتاب صاحب سے میرا تعارف گورڈن کالج میں جوبلی ہال سے متصل بالائی منزل پر واقع ایم اے انگلش کے کمرے میں ہوا۔ اونچا لمبا قد، بڑی بڑی سوچتی ہوئی آنکھیں، سلیقے سے تہہ کیے ہوئے سر کے بال اور انتہائی خلیق لہجہ۔ کلاس کی ڈسکشنز میں غیرمحسوس طریقے سے ہم ادب، فلسفے اور نظریے کے چمن زاروں میں گھوم آتے۔ اِن چمن زاروں کی خوشبو ابھی تک میرے ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ کبھی کبھار تنہائی میں جب دنیا کے شوروغوغا سے دور ہوتا ہوں تو ان چمن زاروں کی سیر کو نکل جاتا ہوں جن کی سیر میں نے آفتاب صاحب کی انگلی پکڑ کرکی تھی۔
آفتاب صاحب سے ہم بے تکلف تھے اور وہ حجاب نہیں تھا جو دوسرے اساتذہ سے تھا۔ آفتاب صاحب اپنا مضمون تو پڑھاتے ہی تھے لیکن اس کے علاوہ ہماری کلاس میں مختلف موضوعات پر بھی بات ہوتی۔ کبھی بیروت اور کبھی ویت نام کے حوالے سے کبھی ایملی زولا (Emile Zola) کے ناول Nana کے حوالے سے کبھی دیومالائی کہانیوں کے حوالے سے۔ تب ہمیں احساس ہوتا تھاکہ آفتاب صاحب کا مطالعہ کتنا وسیع ہے اور کتنی مختلف جہتوں میں ہے۔ اس زمانے میں وہ راولپنڈی کے ایک محلے میں رہتے تھے۔ ایک روز وہ کالج نہ آئے تو ہماری ساری کلاس (کلاس میں طلبا کی تعداد صرف نو تھی) اُن کے گھر چلی گئی‘ اور ہم نے ان کے گھر ان کے ہمراہ بیٹھ کر چائے بھی پی اور اُن کی بیمار پُرسی بھی کی۔ آفتاب صاحب ہمارے دوست تھے جن سے ہم بے تکلف گفتگو کر سکتے تھے پُرانے گیتوں کی باتیں، پُرانی فلموں کی باتیں، پُرانے اداکاروں کی باتیں۔
آفتاب صاحب نے ہمیں Beckett کا ڈرامہ Waiting for Godot پڑھایا تھا۔ Absurd تھیٹر تو ان کے نقطۂ نظر سے بہت قریب تھا۔ زندگی کی بے معنویت اور بے چہرگی اس ڈرامے کا مرکزی خیال تھا۔ آفتاب صاحب اپنی گفتگو میں دیومالائی کہانیوں کے حوالے دیتے۔ ان کی پسندیدہ دیومالائی کہانی سسی فس (Sisyphus) کی تھی‘ جس سے یونانی خدا ناراض ہو گئے تھے‘ اور اس کے لیے عمر بھر کے لیے یہ سزا تجویز کی کہ وہ ایک بھاری پتھر کو دھکیلتا ہوا ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے کر جائے۔ یہ ایک انتہائی مشقت والا کام تھا۔ یہ بھاری پتھر دن بھر کی مشقت سے پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ جاتا‘ لیکن اگلی صبح وہ بھاری پتھر پھر زمین پر آ جاتا۔ اگلے روز سسی فس کی مشقت پھر سے شروع ہو جاتی۔ ابھی ہم آفتاب صاحب کی شخصیت کے کچھ پہلوؤں سے متعارف ہوئے تھے کہ ان کی شخصیت کی ایک اور جہت سامنے آگئی اور وہ تھی ان کی شاعری۔ انگریزی زبان و ادب کا طلب علم ہونے کے ساتھ ساتھ مجھے اردو ادب سے بھی دلچسپی رہی ہے۔ اس حوالے سے آفتاب صاحب کی شاعری سے تعارف میری زندگی کا خوشگوار تجربہ تھا۔ یہ بالکل مختلف شاعری تھی۔ آفتاب صاحب جب شاعری کے کوچے میں آئے تو فضا میں ن م راشد اور میراجی کی گونج تھی۔ایک طرف افتخار جالب اور ساتھیوں کا شور تھاجنہوں نے لسانی حوالوں سے نظم میں ایسے تجربات کیے تھے جو پڑھنے والوں کے لیے حیران کن تھے۔ پھر جدید نظم کا چرچا تھا لیکن آفتاب اقبال شمیم ان میں سے کسی بھی قافلے کی گردِراہ نہ بنے بلکہ نظم کی سرزمین میں ایک نیاراستہ تراشا۔ اس میں روایت سے گریز بھی تھا اور روایت کا شعور بھی۔ آفتاب صاحب کی شاعری میں ایک نظریے کی رو چلتی نظر آتی ہے‘ لیکن نظریہ کہیں بھی فن پر حاوی نہیں ہوتا۔ نیا معنی نیا پیراہن بھی مانگتا ہے۔ آفتاب صاحب کی نظم پڑھیں تو ان کی داخلی ساخت، ان کے امیجز، ان کی ڈکشن سب سے منفرد ہے۔ یہی وجہ تھی جب ان کی نظم ''دسمبر کا شہر‘‘ معروف جریدے ادبی دنیا میں چھپی تو وزیر آغا کا کہنا تھا ''بہت سے اہم شاعر جہاں اپنے ادبی سفر کا اختتام کرتے ہیں آفتاب اقبال نے وہاں سے آغاز کیا ہے‘‘۔ آفتاب اقبال شمیم کی شاعری ایک نا آفریدہ دنیا کی تلاش ہے۔ جس میں ان کا ہم سفر زید ہے۔ بقول آفتاب صاحب کے زید نہ تو ان کا آسیب ہے، نہ ہم زاد یا ضمیر بلکہ یہ ان کی اصل ہے۔ ناوقت اور نالفظ میں چھپی ہوئی اصل۔ کئی نظموں میں وہ زید سے مکالمہ کرتے نظر آتے ہیں۔ لیکن یہ ایک یک طرفہ مکالمہ ہے جس میں زید کا کردار ایک سامع کا ہے۔
آفتاب اقبال شمیم کا بچپن جہلم میں گزرا۔ ان کے والد بھی شاعر تھے لیکن محفلوں سے دور رہتے تھے۔ آفتاب صاحب نے گوشہ گیری کا وصف اپنے والد سے سیکھا۔ ان کی شاعری میں دریائے جہلم کا ذکر ایک توانا استعارے کے طور پر آتا ہے۔ آفتاب اقبال کی کچھ نظموں میں ناسٹیلجیا اپنا جادو دکھاتا ہے خاص طور پر جب وہ اپنے بچپن، لڑکپن اور جوانی کے بیتے دنوں کو یاد کرتے ہیں جو بچپن سے اب تک ایک نامولود دنیا کی تلاش میں سرگرداں ہے۔
ہم گورڈن کالج میں آفتاب صاحب کی کلاسوں سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ ایک دن اچانک خبر ملی کہ وہ چین جا رہے ہیں۔چین وہ ایک بار پہلے بھی گئے تھے‘ جہاں بیجنگ یونیورسٹی میں انہوں نے اردو کی کلاسز کا اجرا کیا تھا۔ یہ سن کر ہمارا دل بُجھ سا گیا۔ ہم نے دامنِ کوہ میں ان کوالوداعی پارٹی دی۔ پھر وہ چین چلے گئے۔ وقت آگے بڑھتا رہا‘ اب میں روزگار کی بھول بھلیوں میں کھو گیا تھا۔ ایک روز پتہ چلا آفتاب صاحب چین میں اپنے قیام کا عرصہ پورا کرکے واپس آگئے ہیں۔ اب وہ راولپنڈی کے محلے سے اُٹھ کر اسلام آباد کے آئی نائن سیکٹر میں آگئے تھے۔ آفتاب صاحب سے تعلق ایسا تھا کہ جب بھی موقع ملتا ہم ان سے ملنے آئی نائن میں واقع ان کے گھر چلے جاتے۔ ایک ملاقات میں آفتاب صاحب نے بتایاکہ انہوں نے چین میں قیام کے دوران کچھ غزلیں بھی لکھیں۔ ہماری فرمائش پر اُنہوں نے کچھ غزلیں سنائیں تو ان کا ذائقہ عام غزل سے مختلف تھا۔ چند اشعار؎
پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شپ کی چٹان پر
ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
زمیں کی کشت میں بو، آندھیوں میں پال مجھے
غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے
میں اپنی ذات میں تھا سرحدوں کا باشندہ
منافقت نے سکھایا ہے اعتدال مجھے
آفتاب صاحب کی شاعری میں فن اور نظریہ گھل مل کر اس کے آمیزے کو دو آتشہ کرتے ہیں۔ معاشرے میں زورآوروں اور بے زور آوروں کی تفریق میں اپنی وفاداری کے حوالے سے آفتاب اقبال شمیم کی پوزیشن بڑی واضح ہے۔ وہ دکھ کے زرد قبیلے سے خون کے رشتے جڑے ہوئے ہیں جو نہ جانے کب سے صبحِ فردا کی تلاش میں ہے۔ شاید کچھ لوگ ایک نیم آفریدہ دنیا میں پیدا ہوتے ہیں،ایک نامکمل منظر کی نامکمل شناخت کرنے کے لیے، اور ان کی ساری زندگی اسرار کے سمندر میں تیرتے ،اوجھل ہوتے اور ابھرتے ہوئے جزیروں کی تلاش میں گزر جاتی ہے۔آفتاب اقبال شمیم کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے۔