"SSC" (space) message & send to 7575

تنہائی اور تخلیق

کہتے ہیں تنہائی‘ جس کا تعلق اکثر کرب اور اضطراب سے جوڑا جاتا ہے‘ بعض اوقات امکانات کے نئے دروا کرتی ہے جس میں ایک امکان تخلیق کی ثمر آوری کا ہے۔ آج کل کورونا کی وبانے زندگی کی ترتیب بدل دی ہے۔ دفتروں، بازاروں، محلوں اور گلیوں میں خوف کی عملداری نے سب کو اپنے گھروں میں مقید کر دیا ہے ۔گھر وں کے اندر بھی دروازے کا ہینڈل، اخبار، شاپر اور کتابیں چھوتے ہوئے ڈر لگتا ہے۔وہ مصافحے، وہ معانقے اور وہ محفلیں اب خواب و خیال ہو گئی ہیں۔ طویل عرصے تک معاشرتی دنیا سے کٹ کر رہنا ایک غیر معمولی تجربہ ہے جس کے منفی اثرات پر اکثر گفتگو کی جاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ جبری تنہائی سے ذہنی امراض بھی جنم لے سکتے ہیں۔یاسیت اور ڈپریشن میں اضافہ ہو سکتا ہے۔گھریلو تشدد کے واقعات ہو سکتے ہیں۔ دنیا سے کٹ کر رہنے سے anxietyاور illusionکے امراض کا اندیشہ رہتا ہے۔یہ تنہائی کا وہ رُخ ہے جو پریشان کن ہے‘ لیکن تصویر کا ایک دوسرا رُخ بھی ہے جو تنہائی کے مثبت پہلوؤں پر روشنی ڈالتا ہے ۔ انسانوں کے گھروں تک محدود ہونے سے ہماری ندیوں اور چشموں کے پانی صاف ہو گئے ہیں ،پرندوں کی چہکار میں اضافہ ہو گیا ہے۔ ہوا کی کثافت (Pollution) میں حیرت انگیز طور پر کمی آ گئی ہے اور Ozoneکی سطح‘ جو خطرناک حد تک پتلی ہو چکی تھی‘ اب نارمل ہو گئی ہے۔
کورونا وبا کا اثر تنہائی کی صورت میں معاشرے کے سارے پہلوؤں پر ہوا۔ اس میں ایک احساس ِآزادی کے سلب ہونے کا تھا ۔ ایک بے بسی کا احساس ۔اردو شاعری میں بہت سے شعرا نے اس بے بسی کی تصویر کھینچی ہے ۔ اب ان اشعار کو پڑھیں تو یوں لگتا ہے جیسے Social Distancingکے زمانے میں لکھے گئے ہیں۔ جہاں دیکھنے کی اجازت تو ہے مگر میل جول پر پا بندی ہے ۔ مجید امجد کا شعر ہے: 
کانچ کی اک دیوار زمانہ آمنے سامنے ہم
آنکھوں سے آنکھوں کا بندھن جسم سے جسم جدا
بے بسی کی یہی کیفیت باقی صدیقی کے اس خوب صورت شعر میں بھی دیکھی جا سکتی ہے:
ایک دیوار کی دوری ہے قفس 
توڑ سکتے تو چمن میں ہوتے
ناصر کاظمی کا یہ شعر دیکھیے:
میں اس جانب تو اس جانب 
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
اور پھر عدیم ہاشمی کے یہ اشعار: 
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو 
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
لیکن اردو شاعری ہی کی روایت ہم یہ بھی دیکھتے ہیںکہ شاعر تنہائی اور سکوت کی تلاش میں رہتے ہیں۔یہ بظاہر ایک تضاد ہے لیکن یہی انسانی فطرت ہے کہ ہم نا موجو د سے پیار کرتے ہیں اور اسے پانے کی خواہش کرتے ہیں۔ اقبال اس تنہائی کو ایک نعمت قرار دیتے ہیں۔اقبال کے ہاں اس تنہائی کی خواہش جا بجا ملتی ہے ۔
نہیں ضبطِ نوا ممکن تو اڑجا اس گلستاں سے
کہ اس محفل سے خوشتر ہے کسی صحرا کی تنہائی
بزمِ ہستی میں ہے سب کو محفل آرائی پسند
ہے دلِ شاعر کو لیکن کنجِ تنہائی پسند
تنہائی سے جڑی ہوئی کیفیت خاموشی اور سکوت کی ہے ‘جس کے لیے اقبال فرماتے ہیں:
اے بادِ بیابانی مجھ کو بھی عنایت ہو
خاموشی و دل سوزی سرمستی و رعنائی 
شورش سے بھاگتا ہوں دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر یہ آرزو ہے میری 
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
ادب کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالیں تو معلوم ہوتا ہے کہ تنہائی اور تخلیق کا آپس میں گہرا ربط ہے۔ انگریزی ادب کا طالبِ علم ہونے کے ناتے میرا سب سے پہلا واسطہ معروف رومانوی شاعر ورڈز ورتھ (Wordsworth) سے پڑا‘ جس کی شاعری کی تعریف آج بھی میرے حافظے میں محفوظ ہے ۔ ورڈز ورتھ نے شاعری کے حوالے سے کہا تھا کہ 
"Poetry is the spontaneous overflow of powerful feelings: it takes its origin from emotion recollected in tranquility."
تنہائی سکوت اور تخلیق کا آپس میں گہرا تعلق ہے ۔ انگریزی ادب کی دنیا کی سیاحت میں مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ بہت سے ادب پارے جیل کی سلاخوں کے پیچھے تخلیق کیے گئے‘جہاں لکھنے والوں کو وہ فرصت ،تنہائی اور یکسوئی میسر تھی جو تخلیق کے لیے ضروری ہے ۔ میری پسندیدہ کتابوں میں ایک انگریزی ادب کی کلاسیک Don Quixote ہے جس کا مرکزی کردار سپین کی سڑکوں پر سرگرداں نظر آتا ہے ۔ کسے معلوم تھا کہ Cervantesنے یہ ناول جس وقت لکھا ‘ اس وقت وہ جیل میں تھا۔ اسی طرح معروف شاعر ایذرا پاؤنڈ (Ezra Pound) کے Pisan Cantos بھی Pisa میں لکھے گئے جب اسے مسولینی کے حق میں بولنے کی پاداش میں کتابوں اور آزادی سے محروم کر دیا گیا تھا۔ انگریزی کہانی کاروں میں ایک بڑا نام اوہنری (O Henry) کاہے جسے بینک میں ملازمت کے دوران فیڈرل آڈٹ کی رپورٹ پر جیل جانا پڑا تھا۔ کہتے ہیں جیل کی اس تنہائی میں اس نے چودہ بہترین کہانیاںتخلیق کیں۔ مارکوپولو کے معروف سفرنامے ہم تک نہ پہنچتے اگر وہ جیل کی اس کوٹھڑی میں نہ رہتا جہاں وہ اپنے ساتھی قیدی کو اپنے سفرکے احوال سنایا کرتا تھا اور اس کا ساتھی قیدی ان احوال کو قلم بند کرتا رہتا تھا۔ بعد میں یہ کتاب The Travels of Marco Poloکے نام سے شائع ہوئی۔ 
آسکر وائلڈ (Oscar Wilde) شاعری ،ناول نگاری، کہانی نویسی اور ڈرامہ نگاری میں اپنا لوہا منوا چکا تھا اور جو ایک مقدمے کے نتیجے میں جیل میں تھا‘جہاں اس نے جیل کے دنوں کی فرصت کا فائدہ اٹھا یا اور ایک طویل ترین خط De Profundis کے نام سے لارڈ الفریڈڈگلس (Lord Alfred Douglas ) کے نام لکھا جو بعد میں De Profundis and Other Prison Writings کے نام سے شائع ہوا ۔ انگریزی ادب میں ایسی کتابوں کی ایک طویل فہرست ہے جو جیل کی تنہائی میں لکھی گئیں لیکن یہ مختصر کالم ان کے ذکر کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔صرف ایک مثال اور۔ اور یہ مثال برٹرینڈ رسل کی ہے۔ جو جنگ اور سامراج کے خلاف اپنی واضح پوزیشن کی وجہ سے ہمیشہ اہلِ اقتدار کو کھٹکتا رہا۔ اس کے لیے انہیں جیل بھی جانا پڑا جہاں انہوں نے اپنی معروف کتاب Introduction to Mathematical Philosophy لکھی ۔ یہ 1918ء کی بات ہے جب وہ اپنے باغی خیالات کی وجہ سے قید کاٹ رہا تھا۔ اس نے کہا تھا : 
"I found prison in many ways quite agreeable. I had no engagements, no difficult decisions to make, no fear of callers, no interruptions to my work."
انگریزی ادب سے ہٹ کر کئی سیاسی رہنماؤں کی تخلیقات جیل کے دنوں میں ہوئیں جب انہیں تنہائی ،فرصت اور سکون میسر تھا۔ 
اس میں سرِفہرست جنوبی افریقہ کے نیلسن مینڈیلا ہیں جنہوں نے 27 برس قید کاٹی اور بعد میں اپنے ملک کے صدر بھی بنے ۔ قید کے دوران انھوں نے اپنی کتاب Conversations With Myself لکھی۔ اسی طرح جواہر لال نہرو نے قید کے دوران اپنی بیٹی اندرا گاندھی کو اقوامِ عالم کی سیاست کے حوالے سے خطوط لکھے جو بعد میں Glimpses of World History کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہوئے۔ پاکستا ن میں ذوالفقار علی بھٹونے جیل میں If I am Assassinated کے نام سے کتاب لکھی اور اپنی بیٹی بے نظیر کے نام ایک طویل خط تحریر کیا جو My Beloved Daughter کے نام سے شائع ہوا۔
اردو میں کالا پانی میں قید کے حوالے سے جعفر تھانیسری کی کتاب کالا پانی شائع ہوئی۔ اسی طرح حسین احمد مدنی نے سفر نامہ اسیر مالٹا کے نام سے ان دنوں کا احوال لکھا جب مولانا محمود الحسن قید میں تھے۔ حسرت موہانی کی کتاب ''مشاہداتِ زنداں ‘‘ بھی جیل کی تنہائی میں لکھی گئی ۔چوہدری افضل حق کا ''میراافسانہ‘‘ جیل میں لکھا گیا۔ مولانا مودودی نے تفہیم القرآن کا ایک حصہ جیل میں مکمل کیا ۔ الطاف گوہر نے تفہیم کی کچھ جلدوں کا انگریزی ترجمہ بھی جیل میں ہی کیا۔ شورش کاشمیری کی کتاب ''پسِ دیوارِزنداں‘‘ جیل کی روداد ہے ۔ فیض احمد فیض کی ''زنداں نامہ‘‘ اور ''دستِ صبا‘‘ دورِ اسیری کی یادگار ہیں۔ ابراہیم جلیس کی ''جیل کے دن اور جیل کی راتیں ــ‘‘ اور حمید اختر کی ''کال کوٹھڑی‘‘ بھی جیل میں تحریر کی گئیں۔ نعیم صدیقی کی ''جیل کی ڈائری‘‘اور شاعری کی کتاب '' شعلۂ خیال‘‘ اسیری کے زمانے میں لکھی گئی۔ اسی طرح یوسف رضا گیلانی کی کتاب ''چاہِ یوسف‘‘ اور جاوید ہاشمی کی ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ جیل میں تحریر کی گئیں۔ کہتے ہیں تنہائی‘ جس کا تعلق اکثر کرب اور اضطراب سے جوڑا جاتا ہے بعض اوقات امکانات کے نئے دروا کرتی ہے جس میں ایک امکان تخلیق کی ثمر آوری کا ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں