"SSC" (space) message & send to 7575

الوداع ڈاکٹر ایزابیل ولیم!

اتوار کی رات میں حسب معمول کسی کتاب کی ورق گردانی کر رہا تھا کہ موبائل پر پیغام موصول ہوا ''ڈاکٹر ایزابیل ولیم (Isabel William) انتقال کر گئی ہیں‘‘۔ میں سناٹے میں آ گیا۔ ہمیشہ کی طرح پہلا خیال آیا: کیا یہ خبر درست ہے؟ لیکن چونکہ خبر کا ذریعہ ہماری لمز (LUMS) کی ساتھی اور انگریزی کی استاد حبیبہ رضوی تھیں اس لیے یقین کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ ایزابیل ولیم سے میرا تعارف تقریباً پچیس سال پیشتر ہوا تھا۔ اس وقت میں کراچی میں آغا خان یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا اور ایزابیل کنیئرڈ کالج لاہور میں انگریزی کی استاد تھیں۔ ہماری پہلی ملاقات ایک کانفرنس میں ہوئی تھی۔ جو لوگ ایزابیل سے ملے ہیں‘ وہ جانتے ہیں کہ ان سے پہلی ملاقات میں ہی یوں لگتا تھا کہ وہ انہیں طویل عرصے سے جانتے ہیں۔ ان کے چہرے پر بڑی بڑی روشن آنکھیں اور ان کی پاٹ دار آواز انہیں سب سے ممتاز بناتی تھی۔ کنیئرڈ کالج اور وہ ایک دوسرے کے لیے لازم وملزوم تھے‘ جہاں وہ ایم اے اور ایم فل کے تدریسِ انگریزی کے پروگرامز کی ڈائریکٹر تھیں۔ مجھے ذاتی طور پر اس بات کا علم ہے کہ انہیں کئی بار پرائیویٹ سیکٹر سے پرکشش تنخواہ پر ملازمت کی پیشکش ہوئی لیکن انہوں نے ہمیشہ شکریے کے ساتھ معذرت کر لی۔ پھر میں بھی کراچی سے لاہور آ گیا جہاں مجھے ایک نجی یونیورسٹی میں فیکلٹی آف سوشل سائنسز کے آغاز کا چیلنج ملا تھا۔ یہ ایک مشکل کام تھا خاص طور پر اچھے اساتذہ کا انتخاب۔ ایسے میں مجھے ایزابیل سے مدد لینے کا خیال آیا۔ کنیئرڈ کالج میں ایزابیل کا آفس پہلی منزل پر تھا۔ سیڑھیاں چڑھ کر مڑیں تو برآمدے میں آخری آفس۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا اور اس کے ساتھ دوسرا کمرہ جس میں سٹاف بیٹھتا تھا۔ ایزابیل نے مجھے دیکھ کر ہنستے ہوئے ویلکم ٹو لاہور کہا۔ میں نے کہا: مجھے آپ کی مدد کی ضرورت ہے‘ لاہور میرے لیے اجنبی شہر ہے اور اچھے اساتذہ کا انتخاب آسان نہیں‘ آپ اس سلسلے میں میری مدد کریں تو یہ مرحلہ آسان ہو جائے گا۔ ایزابیل نے اس پر ایک قہقہہ لگایا اور کہا: یہ بھی ہو جائے گا۔ پھر انہوں نے بلند آواز سے اپنی سیکرٹری سے کہا: چائے لے آؤ اور ریفریجریٹر سے کیک بھی لے آؤ۔ ایزابیل کے آفس کے سامنے برآمدہ اور برآمدے سے پرے قدِ آدم درختوں کی قطاریں ہیں۔ میں باہر کا منظر دیکھ رہا تھا تو ایزابیل بولیں: یہ درخت کنیئرڈ کالج کی پہچان ہیں اور میرا اور ان کا ساتھ بہت پرانا ہے اور یہ ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ میں ہر روز اس برآمدے میں کھڑے ہو کر ان درختوں کو دیکھتی ہوں اور یہ مجھے دیکھتے ہیں۔ میں نے خود بھی انٹر اور بی اے کنیئرڈ کالج سے کیا ہے اور پھر یہیں انگلش ڈیپارٹمنٹ میں جاب مل گئی۔ اس لیے ان درختوں کے ساتھ میری دوستی بہت پرانی ہے۔ ہم چائے پی رہے تھے کہ میری نظر کمرے میں رکھے شیلف میں کتابوں پر پڑی جہاں انگریزی زبان کی ادب اور خاص طور پر ڈرامے کے حوالے سے کتابیں تھیں۔ اس دن چائے کے بعد ایزابیل نے کہا: کل تک آپ کا مسئلہ حل ہو جائے گا اور واقعی اگلے روز ایزابیل نے وعدے کے مطابق اپنے تین بہترین گریجویشن کے سی وی مجھے بھیج دیے۔ ایزابیل ایسی ہی تھیں۔ سب سے محبت کرنے والی، سب کی مدد کرنے والی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے شاگردوں میں بہت مقبول تھیں۔ ڈسپلن کے معاملے میں وہ کسی کمپرومائز کی قائل نہ تھیں‘ لیکن جب بھی کسی کی مدد کا معاملہ ہوتا تو ان کا حساس دل فوراً پسیج جاتا۔ اپنی محنت اور قابلیت کی بنا پر وہ جلد ہی کنیئرڈ کالج میں ELT ایم اے اور ایم فل کی ڈائریکٹر بن گئی تھیں۔ میرے لاہور آنے کے بعد مہینے میں ایک آدھ بار ملاقات ضرور ہوتی۔ وہ ہر وقت اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی قائل تھیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے انگلش امتیازی حیثیت سے پاس کرنے کے بعد ازابیل نے برطانیہ کی یونیورسٹی Reading سے تدریسِ انگریزی میں ایم اے کیا اور پھر امریکہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ کالج میں ٹیچنگ اور پھر ایڈمنسٹریشن کے کام میں فرصت کہاں ملتی ہے لیکن ایزابیل کاموں کے لیے وقت نکال لیتی تھیں۔ اسی مصروف زندگی میں انہوں نے متعدد کانفرنسوں کا انعقاد کرایا۔ بہت سے تحقیقی مقالے لکھے۔ شاعری کا ایک انتخاب بھی شائع کیا اور پھر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے اس کی دو کتابیں شائع کیں۔ یہ اس کے کالج کے لیے بھی اعزاز کی بات تھی۔ انہیں کنیئرڈ کالج سے عشق تھا۔ کبھی کبھا ر میں یونہی تنگ کرنے کے لیے کہتا ''ایزابیل تم اس بوسیدہ سے آفس میں کب تک بیٹھی رہو گی‘‘ تو یوں لگتا کہ میں نے اس کی دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ہے۔ وہ کہتیں: پتا ہے کنیئرڈ کالج میری پہلی اور آخری محبت ہے اور پھر وہ بہت سنجیدہ ہو جاتی اور مجھے بتاتی کنیئرڈ کالج محض ایک عام ادارہ نہیں‘ اس کے پیچھے ایک طویل تاریخ ہے۔ اس سے پہلے کہ وہ تاریخ بتاتیں اگلے پیریڈ کی گھنٹی ہوئی اور میں نے رخصت کی اجازت لی۔
ایزابیل کلاس اپنے آفس میں لیتیں۔ میرا خیال ہے وہ واحد استاد تھیں جن کی کلاس ان کے دفتر میں ہوتی تھی۔ ان کی شخصیت میں رعب اور محبت گھل مل گئے تھے‘ لیکن لوگوں کے لیے ان کی شفقت اور اخلاص ان کی شخصیت کے سب سے نمایاں پہلو تھے۔ ایک دفعہ ایزابیل نے مجھے اپنی ریسرچ سٹوڈنٹس کے ساتھ ایک سیمینار کے لیے دعوت دی۔ سیمینار کے بعد ہم اس کے آفس میں بیٹھ گئے۔ میں نے ہمیشہ کی طرح اس کی کھڑکی سے باہر اونچے درختوں کو دیکھا اور اس سے پوچھا: یہ درخت کتنے پرانے ہوں گے؟ ایزابیل نے کھڑکی سے باہر دیکھا اور کہنے لگی: درختوں کی عمر کا تو مجھے اندازہ نہیں لیکن یہ پتہ ہے کہ کنیئرڈ کالج کی عمر بہت پرانی ہے۔ دراصل یہ ایک ہائی سکول تھا جو 1864ء میں قائم کیا گیا‘ جسے بعد میں 1919ء میں کالج کا درجہ دیا گیا۔ پہلی جنگِ عظیم (1914-1918) اور دوسری جنگِ عظیم (1935-1945)کی تباہ کاریوں، سرمائے کی کمی اور پھر 1947ء میں دونوں طرف سے ہجرت کے سبب سائنس کی کلاسیں 1952 سے پہلے نہ شروع ہو سکیں۔ ایزابیل کالج کی تاریخ بتا رہی تھیں اور میں ان کے چہرے پر اپنے کالج کے لیے عقیدت کا رنگ دیکھ رہا تھا۔ ایزابیل کو اپنی ذات کے بارے میں سوچنے کا کبھی وقت ہی نہیں ملا تھا۔ اس کا سارا وقت کالج میں گزر جاتا تھا۔ وہ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن تھی۔ بھائیوں کی شادیاں ہو گئی تھیں اور وہ اپنے ماں باپ کے ساتھ رہتی تھی۔ انہوں نے اپنی ساری زندگی اپنے ماں باپ کی خدمت کے لیے وقف کر دی تھی‘ شادی کے بارے میں کبھی نہیں سوچا۔ پھر پہلے ماں اور بعد ازاں والد اسے چھوڑ کر ایسی دنیا میں چلے گئے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔ اب ایزابیل اس بھری دنیا میں تنہا رہ گئی تھیں‘ لیکن انہوں نے زندگی سے سمجھوتہ کرلیا تھا۔ یوں بھی انہیں اسی سال اکتوبر میں ریٹائر ہونا تھا‘ بس چار مہینوں کی ہی تو بات تھی‘ لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ وہ اتوار کا دن تھا اور رات آٹھ بجے کا وقت جب اس کی میڈ ان کے ڈنر کیلئے ایک انڈا اور ٹوسٹ لے کر آئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ پانی کا گلاس لے کر کمرے میں آئی تو دیکھا کہ ایزابیل کا جسم بستر پر ساکت پڑا ہے۔ اس نے ایزابیل کے بھائی کو فون کیا جو ڈاکٹر ہیں۔ ایزابیل کو فوری ہسپتال لے جایا گیا لیکن وہ بہت پہلے ہی دم توڑ چکی تھیں۔ پاکستان میں اور پاکستان سے باہر ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد کے لیے یہ ایک اندوہناک خبر تھی۔ ان کی مہربان اور شفیق استاد انہیں ہمیشہ کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ ہم سب ان کے چاہنے والے ایک دوسرے کو فون کرکے تعزیت کر رہے ہیں۔ کنیئرڈ کالج اداس ہے اور کالج کے سربلند درخت گُم سُم سوچ رہے ہیں کہ وہ روشن آنکھیں کہاں چلی گئیں جو ہر روز انہیں محبت سے دیکھا کرتی تھیں۔ ایزابیل نے تو ان سے ہمیشہ ساتھ رہنے کا وعدہ کیا تھا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں