کسی بھی ملک کی ترقی میں ہائر ایجوکیشن کا مرکزی کردار ہوتا ہے کیونکہ یہاں سے فارغ التحصیل طلبا قومی ترقی کے عمل کا حصہ بنتے ہیں۔ 2002ء میں قائم ہونے والی ایک ٹاسک فورس کی رپورٹ کے نتیجے میں یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کی جگہ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ایچ ای سی کی حیثیت ایک خود مختار ادارے کی تھی جس میں ڈاکٹر عطاالرحمن بطور چیئرمین ایچ ای سی وفاقی وزیر کا درجہ رکھتے تھے اور ان کی رسائی براہِ راست اس وقت کے حکمران پرویز مشرف تک تھی۔ یوں ایچ ای سی کے قیام سے پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کا ایک نیا سفر شروع ہوا جس میں طلبا، اساتذہ اور وائس چانسلرز ایک نئے جذبے سے شریک ہوئے۔ پیچھے مڑ کر دیکھیں تو قیامِ پاکستان کے وقت صرف تین جامعات تھیں‘ لیکن وہ اس لحاظ سے ایک سنہری دور تھا کہ جامعات خود مختار تھیں۔ ان جامعات کے وائس چانسلرز کی اکثریت ایسے لوگوں پر مشتمل تھی جن کا وژن بہت واضح تھا اور جو محض ایک منیجر یا ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ معاشرے میں شعور بانٹنے والے رہنما تھے۔ مجھے چند نام یاد آرہے ہیں۔ پروفیسر اشتیاق حسین قریشی، پروفیسر حمید احمد خان، پروفیسر کرار حسین، ڈاکٹر جمیل جالبی، علامہ آئی آئی قاضی، ڈاکٹر سلیم الرحمن صدیقی، پروفیسر منظور احمد اور شیخ ایاز جیسے نام تھے جنہوں نے اس عہدے کو وقار بخشا۔ اب سوچتا ہوں کہ اگر یہ لوگ دورِحاضر میں ہوتے تو ریسرچ کمیٹی کے بنائے ہوئے فارمولے میں شاید ان میں سے کوئی کامیاب نہ ہوتا کیونکہ اب پورا زور شماریات کے گورکھ دھندوں پر ہے جہاں اعداد سب سے اہم ہیں۔
ایچ ای سی کو ابتدائی دور میں مکمل خود مختاری حاصل تھی اور سیاسی مداخلت کا امکان کم تھا لیکن جوں جوں یہ سفر آگے بڑھا طاقت کی کشمکش کا آغاز ہو گیا۔ ایک طرف ادارے کی خود مختاری کچھ لوگوں کے دلوں کا کانٹا بن گئی اور اس کے پر کاٹنے کے منصوبے بننے لگے‘ دوسری طرف ایچ ای سی نے جامعات کے معاملات میں مداخلت شروع کر دی۔ ایچ ای سی اور جامعات کی خود مختاری ختم کرنے کا سفر متوازی راستوں پر شروع ہوا۔
گزشتہ حکومتوں میں سیاسی بنیادوں پر جامعات کا چارٹر دینے کا آغاز ہوا اور ایک ہی یونیورسٹی کے متعدد کیمپس کی بھی اجازت دی گئی‘ یوں یونیورسٹیاں گھروں میں کھلنے لگیں۔ مقدار معیار پر حاوی ہونے لگی۔ سیاسی مصلحتیں تعلیمی فیصلوں کی بنیاد بننے لگیں۔ جامعات کبھی اپنے علمی، انتظامی اور مالی معاملات میں خود مختار تھیں‘ اب انہیں ان امور میں مداخلت کا سامنا کرنا پڑا۔ جامعات کے اپنے انتظامی ڈھانچے میں ایسے فورم اور کمیٹیاں ہیں‘ جن میں بیرونی اراکین بھی ہوتے ہیں اور جہاں فیصلہ سازی باہمی بحث و تمحیص سے کی جاتی ہے۔ 2000ء سے پہلے قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں یونیورسٹی کا وائس چانسلر سنڈیکیٹ کی صدارت کرتا تھا؛ تاہم 2000ء سے 2006ء کے دوران قائم ہونے والی یونیورسٹیوں میں سنڈیکیٹ کی صدارت تو وائس چانسلر ہی کرتا ہے لیکن اس میں تین اراکین صوبائی اسمبلی کے ممبر ہوتے ہیں‘ یوں اس اقدام سے براہِ راست سیاسی مداخلت کا آغاز ہوا۔ 2008ء کے بعد بننے والی یونیورسٹیوں میں خودمختاری پر ایک اور ضرب لگائی گئی جب وائس چانسلرز کو سنڈیکیٹ کی صدارت سے ہٹا دیا گیا۔ سنڈیکیٹ میں وائس چانسلرکی جگہ وزیر تعلیم صدارت کے منصب پر فائز ہو گئے۔ تصور کریں اس سنڈیکیٹ کی‘ جس کی صدارت وزیرِ تعلیم کر رہا ہو اور جہاں گورنمنٹ کے تین محکموں لا، فنانس اور تعلیم کے سیکرٹری بیٹھے ہوں اور جہاں تین اراکینِ اسمبلی بیٹھے ہوں۔ اس میں اہم فیصلوں پر میرٹ کے بجائے سیاسی مصلحتوں کا سایہ ہوگا۔ اہم بات یہ ہے کہ اس میں وائس چانسلر ایک رکن کی حیثیت سے بیٹھا ہوگا۔
اب دیکھتے ہیں کہ جامعات کے وائس چانسلرز کی کارکردگی پرکھنے کے لیے کون کون سے فورمز موجود ہیں۔ اس میں سب سے اہم فورم یونیورسٹی میں سنڈیکیٹ اور سینیٹ کے ہیں‘ جہاں وائس چانسلرز کو اپنے اقدامات کا دفاع کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کی سٹینڈنگ کمیٹی آن ایجوکیشن اور سینیٹ کی سٹینڈنگ کمیٹی آن ایجوکیشن بھی ہے۔ یہ دونوں کمیٹیاں جامعات کا دورہ بھی کرتی ہیں اور وائس چانسلرز کو سیٹوں کے اجلاسوں میں بلا بھی سکتی ہیں۔ پھر سالانہ بنیادوں پر آڈٹ ہوتا ہے جس میں وائس چانسلرز کو پہلے ایچ ای سی اور پھر پبلک کمیٹی کے اجلاسوں میں سوالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ایچ ای سی کا ادارہ انتظامی، علمی اور مالی معاملات میں جامعات کی نگرانی کرتا ہے۔ ان سب فورمز کے علاوہ یونیورسٹی میں کم از کم تین یونینز ہوتی ہیں جو وائس چانسلرکے اقدامات پر کڑی نظر رکھتی ہیں۔ یہیں پر اکتفا نہیں ہوتا ماضی قریب میں بہت سے وائس چانسلرز کو احتساب کے کیسز کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
یہ وہ پسِ منظر جس میں ہمیں پنجاب حکومت کے اس نئے مسودے کا جائزہ لینا ہو گا جسے Public Sector Amendment Act (2020)کا نام دیا گیا ہے اور جس میں یونیورسٹیوں کے ایکٹ میں ترامیم تجویز کی گئی ہیں۔
1: ترمیم کے مطابق سرچ کمیٹی وائس چانسلر کے انتخابات کے وقت کسی بھی ایسے شخص کو انٹرویو کیلئے بُلا سکتی ہے جس نے اس پوزیشن کیلئے Apply ہی نہ کیا ہو۔
2 : مسودے میں وائس چانسلرز کو Civil Servant قرار دیا گیا ہے جس کے نتیجے میں اسے کسی وقت بھی The Punjab Employees' Efficiency Accountability and Discipline Act (2006)‘ جسے معرفِ عام میں PEEDA کہتے ہیں‘ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
3: یہ ترمیم تجویز کی گئی ہے کہ ایک سال میں دو مرتبہ وائس چانسلرز کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا اور رپورٹ وزیرِ اعلیٰ کو پیش کی جائے گی۔
4: وائس چانسلرکو سنڈیکیٹ کی صدارت سے ہٹانے کی تجویز دی گئی ہے۔ اب وزیرِاعلیٰ کی سفارش پر چانسلر کسی بھی ریٹائرڈ جج یا سول سرونٹ یا ریٹائرڈ وائس چانسلر کو سنڈیکیٹ کی صدارت کیلئے کہہ سکتا ہے۔ ایک ایم پی اے اور دو سینیٹ اراکین بھی سنڈیکیٹ کے ممبر ہوں گے۔ اس کے علاوہ سیکرٹری فنانس، سیکرٹری ایجوکیشن اس کے ممبر ہوں گے۔ تین Persons of Eminence بھی اس کے ممبر ہوں گے‘ جن کا چناؤ چانسلر کرے گا۔ مسودے کی دلچسپ بات یہ ہے کہ اس میں سنڈیکیٹ کی ممبرشپ کیلئے ایک ممبر یوجی سی سے لینا تجویز کیا گیاہے۔ شاید مسودہ تیارکرنے والوں کو علم نہیں کہ UGC ختم ہوئے اٹھارہ سال ہو گئے ہیں۔ اسی طرح ایک تجویز یہ ہے کہ سنڈیکیٹ میں سٹوڈنٹس یونین کا صدر بھی ممبر ہوگا‘ حالانکہ سٹوڈنٹس یونینز تو جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں ہی ختم ہو گئی تھیں۔
اکیسویں صدی میں Critical Thinking اور Creativity اہم مہارتیں ہوں گی‘ جن کی نمو اور فروغ کیلئے جامعات کا اہم کردار ہو گا‘ لیکن بدقسمتی سے پنجاب کا مجوزہ مسودہ جامعات کی آزادیٔ فکر کو محدود کرنے کا سامان ہے جس میں وائس چانسلرز کو مجبورِ محض بنایا جا رہا ہے۔ انہیں کام کرنے کی آزادی تو نہیں ہوگی لیکن ان سے توقعات کی فہرست طویل ہو گی۔ ایسے میں مجھے فارسی کے شاعر حافظ شیرازی کا شعر یاد آرہا ہے جو جامعات کے وائس چانسلرز کی حالت کی عکاسی کرتا ہے ۔
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گویی کہ دامن تر مکن ہشیار باش
)ترجمہ: تو نے مجھے ایک تختے کے ساتھ باندھ کر سمندر کی گہرائی میں پھینک دیا اور پھر یہ کہا کہ خبردار دامن بھیگنے نہ پائے(