"SSC" (space) message & send to 7575

جب راولپنڈی ڈوب رہا تھا

آج مدت کے بعد راولپنڈی گیا تو یوں ہی اس شہر سے لپٹی ہوئی ایک کہانی یاد آ گئی ۔یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی ۔برطانیہ اور ہندوستان کے درمیان سفر کا مؤثر ذریعہ بحری جہاز ہوا کرتے تھے۔پہلی جنگِ عظیم کا اختتام ہو چکا تھا‘راولپنڈی شہر رائل برٹش افواج کا ہیڈ کوارٹر تھا۔اس شہر کو برطانوی اس لیے بھی پسند کرتے تھے کہ اس سے کچھ فاصلے پر مری کی پہاڑیاں تھیں جن کا درجہ حرارت برطانیہ کے درجہ حرارت کے قریب تھا۔راولپنڈی ان دنوں ایک خاموش سا شہر تھا جہاں ریلوے سٹیشن تھا‘ ایک مال روڈ تھی ‘اور پھر صدر ‘ لال کرتی اور آراے بازار کے علاقے جہاں زیادہ تر برطانوی فوجی نظر آتے‘ لیکن اس خاموش شہر کی فضاؤں میں ایک بے نام سا حسن تھا ‘ ایک نادیدہ طلسم ‘جو دیکھنے والوں کادامنِ دل کھینچ لیتا تھا ۔
یہ 1923ء کی بات ہے جب لندن سے بمبئی تک کے سفر کیلئے ایک مسافر بردار بحری جہاز بنانے کا فیصلہ کیا گیا ۔اس کے بنانے کی ذمہ داری Harald & Wolfکمپنی کو دی گئی۔تین سال کی محنت کے بعد جہاز تیار ہو گیا تو اس جہاز کا نام ''راولپنڈی‘‘ رکھا گیا ۔ یہ راولپنڈی شہر سے وابستگی کا منفرد اظہار تھا۔یہ جہاز دیکھنے میں بہت خوبصورت تھا اور اس کی اندرونی ڈیزائننگ انتہائی دیدہ زیب تھی۔26 مارچ 1925ء کو لیڈی برکن بیڈ نے اس کا افتتاح کیا ۔راولپنڈی میں فرسٹ کلاس کی 307اور سیکنڈ کلاس کی 288نشستیں تھیں۔اسی سال ستمبر میں اسے Peninsular and Oriental Steam Navigation Company (P&O) کے فلیٹ میں شامل کر لیا گیا ۔
راولپنڈی نے لندن سے بمبئی اور بمبئی سے لندن تک نجانے کتنے ہی سفر کیے ہوں گے ۔صبح‘دوپہر ‘شام اور رات کے بدلتے ہوئی رنگ دیکھے ہوں گے۔اس پر سفر کرنے والوں میں بہت سوں نے راولپنڈی شہر کو دیکھا بھی نہیں ہوگا اوربہت سے لوگ جہاز کے نام راولپنڈی کا پس منظر جاننے کی خواہش رکھتے ہوں گے ۔ان پانیوں پر سفر کرتے ہوئے اب راولپنڈی کو چودہ برس ہو گئے تھے۔ان چودہ برسوں میں اس نے اس سمندر کے کتنے ہی اتار چڑھاؤ دیکھے تھے۔سمندر کی بھی اپنی ایک دنیا ہوتی ہے ‘کبھی اتنی پُر سکون کہ سناٹے کا گمان ہو اور کبھی اتنی تلاطم خیز جیسے قیامت کا منظر ہو۔ لیکن سمندر کا سفر کرنے والے جانتے ہیں کہ سمندر کے گہرے پانیوں میں ایک طلسم ہو تا ہے اور جو ایک بار اس کا اسیر ہو جائے اسے کہیں اور سکون نہیں ملتا۔ سمندر کے مدوجزر کی طرح دنیاکے سیاسی حالات بھی پلٹا کھا رہے تھے۔پہلی جنگِ عظیم کے بعد دو دہائیوں کا امن کا وقفہ آیاتھا‘ لیکن اب پھر جنگ کے بادل سر پر منڈلا رہے تھے۔جنگ بھی کیسی زور آور چیز ہے محبت اور موت کی طرح ہر چیز کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔1939ء میں دوسری جنگِ عظیم کا آغاز ہو گیا ‘جرمنی کی بحری ‘بری اور فضائی برتری حکومتِ برطانیہ کیلئے تشویش کا باعث تھی ۔ جنگ کی صورتحال پُر سکون پانیوں اور ان پر چلنے والے مسافر بردار جہازوں پر بھی اثر انداز ہوئی‘انہی میں راولپنڈی بھی شامل تھا ۔چودہ سال کا خواب جیسا سفر اب نئے موڑ میں داخل ہونے والا تھا ۔
وہ 26اگست 1939ء کا دن تھا جب برطانیہ کے سرکاری محکمے Admiralty Board کی طرف سے ''راولپنڈی‘‘ کو طلب کر کے بتایا گیا کہ جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اوراس لیے کچھ مسافر بردار جہازوں کو ہمیں آرمرڈ مرچنٹ کروز میں بدلنا ہو گا۔یہ مشورہ نہیں حکم تھا۔ راولپنڈی جس کا آغاز ایک مسافر بردار بحری جہاز سے ہوا تھا اور جو چودہ برس سے لندن اور بمبئی کے درمیان ہنسی خوشی سمندر کی لہروں پر سفر کر رہا تھا‘ کو یک لخت جنگی جہاز میں بدل دیا گیا ۔لیکن کیا کچھ بوسیدہ گنز لگا دینے سے جنگی جہاز بن جاتا ہے؟ مگر یہ جنگ کا زمانہ تھا ۔اب'' راولپنڈی‘‘ کے کیپٹن کیلئے ایڈورڈ کینیڈی کا انتخاب کیا گیا ۔ایڈورڈ کی عمر اس وقت ساٹھ برس تھی اور وہ نیوی سے ریٹائرڈ ہو چکا تھا لیکن جنگ کی صورتحال میں ریزرو فوجیوں کو گھروں سے نوکریوں پر بُلا لیا گیا تھا اور اب وہ ایک بار پھر کیپٹن کے فرائض سر انجام دے رہا تھا ۔اس بار اسے جس جہاز کی قیادت کرنی تھی اس کا نام راولپنڈی تھا ۔ایڈورڈ کینیڈی نے جب راولپنڈی کو دیکھا تو اسے ایک نظر میں پتہ چل گیا کہ کیسے ایک عام مسافر بردار جہاز کو جنگی جہاز میں بدلنے کی کوشش کی گئی ہے ۔یہ خوب صورت جہاز کے ساتھ زیادتی تھی لیکن اسے انہی محدود ذرائع کے ساتھ کام کرنا تھا ۔اکتوبر 1939ء کو راولپنڈی اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کیلئے تیار تھا ۔اسے آئس لینڈکے علاقے میں پیٹرولنگ کی ذمہ داری سونپی گئی تھی۔
یہ 19اکتوبر 1939ء کی بات ہے جب کھلے پانیوں میں راولپنڈی نے ایک جرمن ٹینکر Gonzenheinکو Interceptکیا ۔یہ ٹینکر بیونس آئرس سے 14ستمبر کو چلا تھا ۔جرمن ٹینکر کے اپنے ہی عملے نے ٹینکر کو سمندر میں ڈبو دیا تاکہ یہ برطانیہ کے ہاتھ نہ لگے ۔یہ جنگ میں'' راولپنڈی‘‘ کی اہم کامیابی تھی ۔اب ہر گزرتے دن کے ساتھ جنگ کے بادل اور گہرے ہو رہے تھے۔''راولپنڈی‘‘ کا کام سمندری پانیوں میں نگرانی کا تھا۔اب ہر دن ایک نیا چیلنج لے کر آتا۔پھر 23 نومبر 1939ء کا دن آگیا‘راولپنڈی کو حکم ملا کہ Faroe Isand کے قریب جائے اور وہاں دشمن کی موجودگی کے بارے میں بتائے۔یہ راولپنڈی کیلئے ایک پُر خطر ٹاسک تھا لیکن ''راولپنڈی‘‘ کے کیپٹن ایڈورڈ کینیڈی کی ساری عمر خطروں سے کھیلتے گزری تھی‘وہ آئس لینڈ اور Faroeکے درمیان گشت کر رہے تھے کہ اچانک ان کا سامنا جرمنی کے انتہائی طاقت ور جنگی جہازوں Scharnhorst & Gneisenauسے ہو گیا۔ جرمن جہاز تیزی سے اس کی طرف بڑھ رہے تھے لیکن راولپنڈی کے عملے نے اپنے اعصاب بحال رکھے اور جرمن جہازوں کی موجودگی کی اطلاع اپنی بیس تک پہنچانے میں کامیاب ہو گئے۔اب تیز رفتار جرمن جہازوں نے انہیں آلیا تھا۔انہیں جرمن جہاز سے پیغام دیا گیا کہ وہ ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو جرمنوں کے حوالے کردیں تو ان کی جان محفوظ رہے گی‘اس وقت ''راولپنڈی‘‘ میں اڑھائی سو کے لگ بھگ لوگ موجود تھے۔یہ ایک بہت مشکل فیصلہ تھا‘ ایڈورڈکینیڈی نے راولپنڈی کے سارے عملے کو جمع کیا اور ایک مختصر تقریر کی جس کا یہ جملہ تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کیلئے محفوظ ہو گیا: We'll fight them both, they'll sink us, and that will be that. Good bye (ہم ان دونوں( جہازوں) کے ساتھ لڑیں گے وہ ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈبو دیں گے اوربس قصہ تمام ہو جائے گا۔الوداع۔ 
اسی دوران راولپنڈی کے ایک گولے سے جرمن جہاز کو معمولی نقصان پہنچا ۔اب گھمسان کی لڑائی شروع ہو گئی۔چھوٹا سا جہاز راولپنڈی جرمنی کے دو جنگی جہازوں کا چالیس منٹ تک مقابلہ کرتا رہا۔آخر پے در پے گولوں نے راولپنڈی کو گھائل کر دیا۔اس وقت چار بجے کا وقت تھا ‘راولپنڈی کے اندر پانی تیزی سے آرہا تھا لیکن جہاز کے کپتان اور اس کے ساتھی آخر وقت تک ڈٹے رہے۔اب راولپنڈی آہستہ آہستہ سمندر کے پانی میں ڈوب رہا تھا ۔ڈوبتے سورج کی کرنیں اسے آخری بار دیکھ رہی تھیں۔اس وقت رات کے آٹھ بجے ہوں گے جب راولپنڈی مکمل طور پر ڈوب گیا ۔اس کے ساتھ ہی اس پر سوار عملے کے 238 لوگ بھی جان کی بازی ہار گئے‘ ان کے ہمراہ ان کا کیپٹن ایڈورڈ کینیڈی بھی تھا‘جس نے دشمن کے سامنے ہتھیار ڈالنے کے بجائے عزت کی موت کو ترجیح دی تھی اور ''راولپنڈی‘‘ کو جرمنوں کے قبضے میں نہیں جانے دیا تھا۔آج مدت کے بعد راولپنڈی گیا تو یوں ہی اس شہر سے لپٹی ہوئی ایک کہانی یاد آ گئی ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں