"SSC" (space) message & send to 7575

شکیل عادل زادہ اور سب رنگ کا دوسر ا جنم…(2)

یادوں کو گرفت میں لینا آسان نہیں ‘ وقت کی گرد اکثر گئے دنوں کے منظر دھندلا دیتی ہے۔اب یہی دیکھ لیں میں پچھلی قسط میں بھول گیا کہ جاوید چوہدری صاحب کے گھر شکیل عادل زادہ کے اعزاز میں دیے گئے لنچ میں معروف صحافی حامد میر صاحب بھی مدعو تھے۔ وہ بھی ہماری طرح شکیل بھائی سے محبت کے رشتے میں بندھے ہیں ۔میں تو صرف تین سال پہلے کی بات بھول گیا تھا‘ شکیل بھائی نے تو مری کے لکڑی والے گھر کے ایک کمرے میں بیٹھ کر آٹھ برس پہلے کی کہانی کو یاد کرنا تھا ‘ وقت کی طنابوں کو کھینچنا تھااور یہ کام اتنا آسان نہ تھا۔میں نے جا وید چوہدری سے پوچھا: شکیل بھائی کو کمرے میں محصور ہوئے کتنا وقت ہو گیا ہے؟ پتہ چلا وہ کافی دیر سے کمرے میں بند ہیں۔میں نے آہستہ سے دروازہ کھولا اور شکیل بھائی کو دیکھ کر کہا: اب تو آپ سے لکھوانے کا یہی حربہ باقی رہ گیا تھا ۔مجھے دیکھ کر وہ ہنسے اور کرسی سے اٹھ کر گلے لگا لیا ۔مجھے یہ دیکھ کو خوش گوار حیرت ہوئی کہ ان کے سامنے لکھے ایک صفحے پر ان کی تحریر تھی۔یہ ''بازی گر‘‘کہا نی کے آٹھ سال کے رکے ہوئے پانیوں میں پہلا پتھر تھا۔ مجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آیا۔میں نے اپنے موبائل سے اس صفحے کی تصویر بنا لی کہ یہ سب رنگ کے عشاق کے خوابوں کی تعبیر تھی۔ شکیل بھائی کہنے لگے: آج کا کام تمام ہوا ‘شام پڑ رہی ہے کیوں نہ مری کی مال روڈ پر کچھ دیر چہل قدمی کی جائے۔میں نے کہا ‘ضرور ‘آپ جلدی سے تیار ہو جائیں میں بھی اپنے کمرے میں سامان رکھ کر آتا ہوں۔ اتنے بڑے گھر میں ہم تین افراد تھے۔شکیل بھائی‘ میں اور ہمارے میزبان جاوید چوہدری۔ ہمارے علاوہ ایک چوکیدار اور ایک مدد گار لڑکا تھا جو کچن کا تھوڑا بہت کام جانتا تھا۔ جاوید چوہدری نے پہلے سے اعلان کر دیا تھا کہ بار بی کیو میں خود تیا ر کروں گا اور آپ دیکھیں گے کہ میں ایک بہت اچھا Cheff بھی ہوں۔ شکیل بھائی تیار ہو کر اپنے کمرے سے نکل آئے تو ہم تینوں مال روڈ کیلئے روانہ ہوئے۔
ہم مری کے تاریخی جی پی او کے قریب گاڑی پارک کر کے آہستہ آہستہ پیدل نشیب کی طرف جاتی مال روڈ پر چلنے لگے‘ مال روڈ پر چلتے ہوئے بیتے دنوں کی خوش رنگ یادیں لہلہا اُٹھیں۔ارد گرد نوجوانوں کی ٹولیاں اٹھکیلیوں میں مصروف تھیں۔ ہم چلتے چلتے مری کے معروف اور تاریخی ریستوران Lintotsکے سامنے رک گئے ۔میں نے کہیں پڑھا تھا کہ بھٹو صاحب جب مری آتے تو یہاں کافی پینا پسند کرتے ۔ہم ریستوران میں داخل ہو کر کھڑکی والی میز پر بیٹھ گئے ۔کھڑکی سے باہرنیچے جھکے ہوئے بادلوں کو چھوا جا سکتا تھا ۔اب باہر برف کے گالے اُترنا شروع ہو گئے تھے۔شکیل بھائی کو وہ دن یاد آ گئے جب وہ تواتر سے یہاں آتے تھے ‘یوں لگتا تھا ایک لمبے وقفے کے بعد آج یہاں آکر اُنہیں خاص طرح کی طمانیت محسوس ہو رہی ہے ۔اس ریستوران کے بالکل سامنے سڑک کے پار مری کا پرانا چرچ ہے ۔شکیل عادل زادہ نے باہر برف کے گرتے ہوئے گالوں کو دیکھا اور پھر جاوید چوہدری سے کہنے لگے :ارے بھائی آپ نے یہ لکڑی کا مکان خوب بنایا ہے ۔کم از کم میری نظر سے اس نوع کی طرزِ تعمیر ابھی تک نہیں گزری ۔جاوید چوہدری مسکرائے اور کہنے لگے :میرے لیے یہ مکان سب رنگ کی طرح تھا۔ جس طرح آپ سب رنگ کے معیار پر سمجھوتا نہیں کرتے تھے میں نے بھی اس مکان کی تعمیر کے لیے بڑے کشٹ اُٹھائے ہیں ۔سب رنگ کے ذکر سے شکیل بھائی کی آنکھوں میں ایک روشنی سی لہرائی۔ شکیل بھائی ہر بڑے لکھنے والے کی طرح ہر دم مطالعے‘ مشاہدے ‘ اور سیکھنے کے عمل میں رہنا چاہتے ہیں۔یہی مشاہدہ کی طاقت‘ نئی چیزوں کی کھوج اور تفصیلات پر گرفت ان کی کہانی'' بازی گر‘‘ میں بھی نظر آتی ہے ۔آج لکڑی کے گھر کا مشاہدہ انہیں اس کے بارے میں مزید جاننے پر اُکسا رہا تھا۔جاوید چوہدری شکیل بھائی کا اضطراب دیکھ کر بولے : شکیل بھائی میں نے بہت پہلے کہیں لکڑی کے گھروں کی تصاویر دیکھیں تو دل اس خواہش کا اسیر ہو گیاکہ لکڑی کا ایک گھر بنایا جائے لیکن پاکستان میں اس کی مہارت نہیں تھی ۔دو ممالک جو لکڑی کی تعمیر کے حوالے سے جانے جاتے ہیں وہ لیتھوینیا اور پولینڈ ہیں۔میں نے ان ممالک میں جانا شروع کیا۔ تقریباً ایک سال میں ہر مہینے تین چار دن کے لیے وہاں جاتا رہااور لکڑی کے گھر کی تعمیر کیلئے باقاعدہ ٹیوشن لی ۔پھر پاکستان آکر باہر سے لکڑی منگوائی اور ناران سے کچھ کاریگر اور ان سے مل کر اس گھر کی تعمیر کی ‘جس میں دو سال لگ گئے۔ شکیل بھائی کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آئی اور چلی گئی شاید انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ دشتِ جنوں میں ان کے علاوہ کچھ اور دیوانے بھی بستے ہیں۔کافی کا ایک دور مکمل ہو چکا تھا اب ہم اُٹھ کھڑے ہوئے اور دوبارہ مال روڈ کے نشیب کی طرف چلنے لگے حتیٰ کہ ہمارے بائیں ہاتھ کتابوں کی قدیم دکان آگئی‘ وہی دکان جہاں کسی زمانے میں سب رنگ آتا تھا۔برسوں پہلے اسی دکان پر شکیل بھائی کو سب رنگ پڑھنے والی ایک لڑکی ملی تھی جس نے انہیں سب رنگ میں چھپنے والی ایک کہانی کی طرف متوجہ کرایا اور اپنے تحفظات کا اظہار کیا تھا اور شکیل بھائی نے آئندہ کہانیوں کا انتخاب کرتے ہوئے اس کی رائے پر سنجیدگی سے عمل کیا تھا۔شکیل بھائی بک شاپ کے سامنے کھڑے ہو کر کسی اور دنیا میں کھو گئے ‘ایک ایسی دنیا جو کبھی اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ موجود تھی‘ لیکن پھر وقت کا ریلا اسے بہا کر لے گیا ۔اس وقت ہمیں کیا خبر تھی کہ منڈی بہاؤ الدین کا حسن رضا گوندل اور جہلم بک کارنر والے سب رنگ کی گُم گشتہ جنت کوبازیافت کر لیں گے۔ ہم پھر مال روڈ پر چلنے لگے ۔ یہ وقت اور یہ لمحے ہمارے لیے بہت قیمتی تھے ۔مال روڈ پر زمین کو چھوتے ہوئے بادل‘ برف کے سفید روئی جیسے گالے اور داستان گو شکیل عادل زادہ کی ہم سفری۔مال روڈ پر گھومتے ہوئے اب خاصا وقت ہو گیا تھا اور ہمیں اندھیرا ہونے سے پہلے جنگلوں میں گھِرے لکڑی کے گھر پہنچنا تھا ۔سو ہم نے مال روڈ کو خدا حافظ کہا اورلوئر ٹوپہ کا رُخ کیا ۔وہ مکمل چاند کی سحر انگیز رات تھی۔ لمبے درختوں کی ٹہنیوں کے اوپر چودہویں کے چاند کے گرد ایک طلسماتی ہالہ تھا ۔ہم لکڑی کے بنے ہوئے خوب صورت بنچوں پر بیٹھ گئے درمیان میں دھڑ دھڑ جلتی لکڑیوں کا روشن الا ؤ تھا اور جاوید چوہدری ایک ماہر شیف کی طرح باربی کیو تیار کر رہے تھے ۔ شکیل بھائی نے بار بی کیو کی تعریف کی تو جاوید چوہدری نے ہنستے ہوئے کہا شکیل بھائی میں اس کی Recipeآپ کو نہیں بتاؤں گا اس لیے کہ ہم صرف آپ سے باتیں سننا چاہتے ہیں۔شکیل بھائی ہنس دیے اور کہنے لگے: ارے بھائی ہمارے پاس تو بس لے دے کے پرانے دنوں کی یادیں ہیں۔میں اور جاوید چوہدری تو در اصل ان کی انہیں روپہلی یادوں کی رونمائی کے منتظر تھے‘ کھانے کے بعد ہم مکان کے کھلے ٹیرس پر جا بیٹھے جہاں خوبصورت میز‘ کرسیاں اور بینچ رکھے تھے اور ہمارے سامنے دور تک سر بلند درختوں کا جنگل تھا۔ایسے میں شکیل عادل زادہ کی باتوں کے گلاب مہکنے لگے ۔امروہہ کی کہانیاں ‘کمال امروہی اورمینا کماری کے قصے‘ جون ایلیا اور رئیس امروہی کے تذکرے‘ جوش ملیح آبادی کے معرکے ‘سب رنگ کے سفر کے اچھوتے مناظر کا احوال ۔اس رات آسمان پر چودہویں کے چاندکا طلسم تھا ۔مری کے سر بلند درختوں کا افسوں ہمارے چاروں طرف پھیلا ہوا تھا اور شکیل عادل زادہ وقت کے سمندر سے یادوں کے نیلم اور مرجان نکال رہے تھے۔ رات کا دامن بھیگتا جا رہا تھا لیکن میں اور جاوید چوہدری قصہ گو شکیل عادل زادہ کے سامنے ہمہ تن گوش بیٹھے تھے ۔(جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں