"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیم کا شعبہ: ڈھلوان کا سفر جاری ہے!

ڈھلوان پر لڑھکنے کا سفر ایک عجیب سفر ہوتا ہے۔ نہ قدموں پر قابو ہوتا ہے نہ رفتار پر اختیار۔ ہم اپنے آپ کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر نظر ڈالیں تو ایسی ہی صورتحال نظر آتی ہے۔ تنزلی کا سفر تیزی سے جاری ہے اور ہم کسی معجزے کے منتظر ہیں۔ پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ کو دیکھیں تو سب سے نظرانداز کیا جانے والا شعبہ تعلیم کا ہے جس کے بارے میں قائداعظم محمد علی جناح نے پہلی قومی تعلیمی کانفرنس میں اپنے پیغام میں متنبہ کیا تھا کہ تعلیم پاکستان کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ قائدِ اعظم کی وفات کے بعد مختلف حکومتیں آتی رہیں۔ متعدد تعلیمی پالیسیوں کا اجرا ہوا۔ بلند بانگ دعوے کیے گئے۔ خوش نما اہداف مقرر کئے گئے‘ لیکن یہ سب جمع خرچ تھا۔ عملی میدان میں تعلیم کا شعبہ ترقی کے بجائے ڈھلوان کے سفرپر گامزن رہا۔ وجہ یہ کہ تعلیم کبھی کسی حکومت کی ترجیح نہیں رہی۔ نتیجہ یہ نکلاکہ جنوبی ایشیا میں وہ ممالک جو تعلیمی میدان میں ہم سے کہیں پیچھے تھے اب ہم سے آگے نکل چکے ہیں۔ اکیسویں صدی میں قوموں کی ترقی کا سب سے بڑاراز تعلیم یافتہ افراد ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دورِ حاضر میں سب سے توانا معیشت کا نام نالج اکانومی (Knowledge Economy) ہے۔ دوسرے الفاظ میں اکیسویں صدی میں معیشت اور طاقت کا روایتی تصور بدل گیا ہے۔ اب معیشت کا براہِ راست تعلق علم سے ہے۔ دورِ حاضر میں وہی ملک باثروت ہیں جن کے پاس تعلیم یافتہ اور ہنرمند افراد موجود ہیں۔ یہی وہ انسانی سرمایہ (Human Capital) ہے جو روایتی سرمایوں مثلاً تیل،گیس اور قیمتی معدنیات سے زیادہ قیمتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ترقی کی شاہراہ پرآگے بڑھنے کے خواہشمند ممالک تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری کررہے ہیں۔ یوں اکیسویں صدی میں ترقی کے سفرکی ضروری شرط تعلیم کے شعبے میں سرمایہ کاری قرار پائی ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے جائزہ لیتے ہیں کہ ہم ہیومن ڈویلپمنٹ کے انڈیکس میں کہاں کھڑ ے ہیں۔ یادرہے کہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس کا براہِ راست تعلق ہیومن کیپیٹل سے ہے جوکسی بھی ملک میں طاقتور اور باثروت ہونے کی دلیل ہے۔
2019ء میں جاری ہونے والی یواین ڈی پی کی رپورٹ میں دنیا کے 189 ممالک کا ترتیب وار ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس (HDI) سکور دیا گیا۔ اس سکور کی تشکیل میں انسانی ترقی کے مختلف پہلوؤں کو شامل کیاگیا۔ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں زیادہ سے زیادہ سکور 1 ہو سکتا ہے۔ 189 ممالک کی اس فہرست میں ہیومن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے پاکستان 152ویں نمبر پر ہے اور اس کا HDI سکور 0.562 ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں اس حوالے سے جنوبی ایشیا کے دوسرے ممالک کی کارکردگی کیسی ہے۔ فہرست میں ان ممالک کا مرتبہ کچھ یوں ہے: سری لنکا (71)، مالدیپ (104)، انڈیا (129)، بھوٹان (134)، بنگلہ دیش (135) اور نیپال (147)۔ یوں یہ سارے ممالک ہیومن ڈویلپمنٹ کے حوالے سے پاکستان سے آگے ہیں۔ ان میں بھوٹان، مالدیپ اور نیپال جیسے کم ذرائع والے ملک بھی شامل ہیں۔ پورے خطے میں صرف افغانستان کا سکور پاکستان سے کم ہے۔ یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے لیکن ہم اس نشیب میں یکلخت نہیں پہنچے۔ یہ تعلیم کے شعبے کو طویل عرصے تک نظرانداز کرنے کا نتیجہ ہے۔
اب پاکستان کی شرح خواندگی کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ملک ہے کہ اس کی آبادی میں نوجوانوں کی کثیر تعداد ہے۔ یہ نوجوان اگر جدید تعلیم اور مہارتوں سے لیس ہوں تو قومی ترقی کا ہراول دستہ بن سکتے ہیں‘ لیکن یہ فائدہ اس وقت نقصان میں بدل سکتا ہے اگر ان نوجوانوں کو تعلیمی اداروں تک رسائی نہیں ملتی۔ ما ضی کی حکومتوں کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ پاکستان میں اڑھائی کروڑ بچے سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے۔ یہ کسی بھی حوالے سے ایک بڑی تعداد ہے جس کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آؤٹ آف سکول بچوں کے اس سمندر میں کمی کے بجائے ہر سال اضافہ ہو رہا ہے جس کی دو بڑی وجوہ ہیں۔ ان میں سے ایک وجہ تو آبادی میں تیزی سے اضافہ ہے اور دوسری وجہ ان بچوں کی ایک کثیر تعداد ہے جو پانچویں جماعت تک پہنچتے پہنچتے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ ڈراپ آؤٹ بچوں کی تعداد کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے چند بڑے ملکوں میں شمار ہوتا ہے۔
یوں حکومتوں کی پے درپے ناقص پالیسیوں کی وجہ سے آبادی میں نوجوانوں کی کثیر تعداد کا فائدہ (advantage) اب ایک غیر ضروری بوجھ (liability) میں بدل گیا ہے۔ جنوبی ایشیا کے ممالک میں شرح خواندگی پر نظر ڈالیں تو پاکستان کا نمبر آخر میں آتا ہے حتیٰ کہ نیپال، بھوٹان، بنگلہ دیش اور مالدیپ بھی ہم سے آگے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صرف افغانستان شرحِ خواندگی کے حوالے سے پاکستان سے پیچھے ہے۔ پاکستان کی تعلیمی پالیسیوں میں مختلف حکومتوں نے خواندگی کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے لیکن عملی طور پر ٹھوس اقدامات نہ کیے گئے۔ پاکستان کی 2009ء کی قومی تعلیمی پالیسی میں یہ دعویٰ کیا گیا تھاکہ 2015ء تک شرح خواندگی 86 فیصد ہوجائے گی لیکن یہ وعدہ آج تک پورا نہیں ہوا۔ اکنامک سروے آف پاکستان (2018-19) کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 62.3 فیصد ہے‘ جو 2009ء کی پالیسی میں مقرر کردہ ہدف سے کہیں کم ہے۔
اب جائزہ لیتے ہیں کہ جو بچے سکول تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے ان کی تعلیم کا معیار کیا ہے۔ ASER کی 2019ء میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق طلبا کی ایک کثیر تعداد تعلیمی کارکردگی کے حوالے سے اپنے درجے سے کم سطح پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پرائیویٹ سکولوں کے طلبا کی تعلیمی کارکردگی سرکاری سکولوں کے طلبا سے نسبتاً بہتر ہے۔ معاشرے میں یہ عدم مساوات مختلف علاقوں کے درمیان بھی ہے‘ مثلاً پرائمری سکول میں 5 سے 9 سال کے بچوں کے داخلے کی شرح پاکستان میں اوسطاً 57 فیصد ہے۔ اس کے برعکس بہاولپور (پنجاب) میں یہ شرح 40 فیصد، ٹنڈوآدم خان (سندھ) میں 26 فیصد، ہرنائی (بلوچستان) میں 26 فیصد، اور کوہستان (خیبر پختونخوا) میں 30 فیصد ہے۔ یہ فرق تعلیمی معیار میں بھی نظر آتا ہے۔
پاکستان تعلیمی میدان میں باقی ملکوں سے کیوں پیچھے رہ گیا ہے؟ اس کی بنیادی وجہ حکومتوں کی عدم دلچسپی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کے شعبے میں مناسب سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔ 2009ء کی تعلیمی پالیسی میں یہ کہا گیا تھاکہ تعلیم کیلئے مختص فنڈز میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا اور 2015 تک تعلیم کیلئے جی ڈی پی کا 7 فیصد مختص کیا جائے گا۔ اس کے بعد کیا ہوا‘ یہ حکومتوں کی بے اعتنائیوں کی عبرت انگیز داستان ہے۔ 2017-18 ء تک ہم جی ڈی پی کا صرف 2.4 فیصد مختص کر رہے تھے‘ جو بین الاقوامی معیار سے کہیں کم تھا لیکن اس کے بعد بھی ڈھلوان کا سفر جاری رہا۔ ایس ڈی پی سے وابستہ معرف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر وقار احمد کی تحقیق کے مطابق 2019-20 کے بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم کم ہو کر جی ڈی پی کا 2.04 فیصد رہ گئی اور 2020-21کے بجٹ میں یہ مزید کم ہو کر جی ڈی پی کا 1.92 فیصد ہو گئی ہے۔ تعلیم کیلئے یہ کم ترین فنڈز ہیں جو ہمیں اس سوال کا جواب تلاش کرنے میں مدد دے سکتے ہیںکہ ہیومن ڈویلپمنٹ انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 152 کیوں ہے اور کیسے بنگلہ دیش‘ نیپال، بھوٹان اور مالدیپ جیسے ممالک پاکستان سے آگے نکل گئے ہیں۔ ڈھلوان پر لڑھکنے کا سفر ایک عجیب سفر ہوتا ہے‘ نہ قدموں پر قابو ہوتا ہے نہ رفتار پر اختیار۔ تعلیم کے شعبے میں تنزلی کا سفر تیزی سے جاری ہے اور ہم کسی معجزے کے منتظر ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں