آج اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہو ئے جب مجھے مختلف ٹریفک سگنلز پر رکنا پڑ ا تو کم سن بچوں اور بچیوں کا ایک ہجوم نظر آیا‘ کچھ پھول بیچنے کے لیے بے تاب تھے اور کوئی گاڑی کی ونڈ سکرین صاف کرنے کے لیے۔ میں ان کے دریدہ لباس اور پھول جیسے چہروں کو دیکھ کر سوچتا رہاکہ یہ تو ان کے کھیلنے اور لاڈ اٹھانے کے دن تھے۔زندگی نے کیوں اتنی جلدی انہیں مشقت کے بے رحم موسم کے حوالے کر دیا ہے؟
یہ وہ بچے ہیں جو کسی سکول کی دہلیز تک نہیں پہنچ سکے یا سکول سے ڈراپ آؤ ٹ ہو گئے تھے ۔پاکستان جن مسائل سے دوچار ہے ان میں سے ایک کم شرح خواندگی ہے ۔ اب جبکہ ہم اکیسویں صدی میں داخل ہو چکے ہیں ‘جو علم اور معلومات کی صدی ہے‘ ہمیں تین بڑے تعلیمی چیلنجز کا سامنا ہے۔ پہلا چیلنج بچوں کی ایک کثیر تعداد کی سکولوں تک عدم رسائی ہے۔ دوسرا چیلنج معیار کی کمی کا ہے اور تیسرا چیلنج سکولوں سے بچوں کے ڈراپ آؤٹ کا ہے۔تازہ ترین اعدا د و شمار کے مطابق ان بچوں کی تعداد اڑھائی کروڑ ہے جو سکولوں سے باہر ہیں۔ اس تعداد میں روز بروز ان بچوں کا اضافہ ہو رہا ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے سکول چھوڑ دیتے ہیں۔ پاکستان میں بچوں کے سکول چھوڑنے کی بڑی وجہ مالی وسائل کی کمی ہے ۔ بہت سے والدین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ سکولوں کا دور دراز مقامات پر واقع ہونا بھی ڈراپ آؤٹ کی ایک اور وجہ ہے خاص طور پر بچیوں کے لیے سکولوں کا دوردراز واقع ہونا‘ گھر سے سکول تک کا لمباسفر اور پھر سکولوں کی چار دیواری کا نہ ہونا بچیوں کے لیے خطرات میں اضافے کا باعث بن جا تاہے۔
ہمارے کلاس رومز میں دلچسپی اور تحریک کی کمی ہے ۔ عام طور پر استاد ایک خوفناک کردار کے طور پر سامنے آتا ہے اور سیکھنے کا عمل بہت سست ‘ غیر دلچسپ اور تعلیمی سرگرمیوں سے عاری ہوتاہے ۔ عام طور پر کمرہ جماعت میں طلبا کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہ سوال نہ کر سکیں‘ استاد سے اختلاف نہ کر سکیں یا کسی سوال پر اپنا نقطۂ نظر پیش نہ کر سکیں ۔ہمارے ہاں اکثر دیہی سکولوں اور کہیں کہیں شہری سکولوں میں جسمانی سزا کو ایک ناگزیر ضرورت سمجھا جاتا ہے ۔ ڈراپ آؤٹ کی ایک بڑی وجہ شدید نو عیت کی جسمانی سزائیں ہیں۔ اسی طرح غیر جسمانی ذہنی سزاؤں میں سخت ڈانٹ ڈپٹ ‘ دشنام طرازی اور طلبہ کی انا کو مجروح کرنا شامل ہے۔
بعض حالات میں یہ بچے خاندان کے واحد کفیل ہوتے ہیں ۔ گھر کی بقا کی خاطر وہ گلیوں اور بازاروں میں آجاتے ہیں ۔ ان کی اکثریت بھکاری بن جاتی ہے ۔ اگر ہم کبھی مصروف جگہوں ‘ بازاروں یا پھر ٹریفک کے اشارے پر رکیں تو یہ بچے بڑے بڑے گروہوں میں نظر آئیں گے ۔ یہ بچے زیادہ تر ننگے پائوں اور میلے اور پھٹے پرانے کپڑوں میں نظر آتے ہیں ۔ ایسے محسوس ہو تاہے جیسے وہ زندگی کی مسرتوں سے لاتعلق ہو چکے ہیں۔ بعض اوقات یہ بچے ورکشاپس اور دیگر ایسی جگہوں پر ملازم ہو جاتے ہیں جہاں مالک کاچھو ٹی چھو ٹی غلطیوں پر کو سنا اور سزا دینا معمول کی بات ہوتی ہے۔ اس عمل سے ان کی عزتِ نفس اور ذاتی تشخص ماند پڑ جاتا ہے ۔ ان کی بے بسی بعض اوقات ان میں انتقام لینے کے رجحانات پیدا کر دیتی ہے ۔ بھیک مانگنے اور غیر پسندیدہ کام کرنے کے علاوہ پیسے کمانے کے لیے یہ بچے بعض اوقات مجرمانہ سرگرمیوں میں بھی ملو ث ہو جاتے ہیں‘ جس کے نتیجے میں انہیں بعض اوقات گرفتار ہو کر جیل بھی جانا پڑتا ہے۔ جیل میں گزرا ہوا یہ وقت بچوں میں معاشرے سے بدلہ لینے کے رجحانات کی تقویت کا باعث بن جا تاہے ۔ بچوں کو مسلسل جسمانی اور نفسیاتی ایذائیں بسا اوقات ان میں منشیات کے استعمال کا باعث بھی بن جاتی ہیں ۔ سگریٹ نو شی سے شروع ہونے والی یہ عادت بعض اوقات مہلک اور جان لیوا نشہ آور اشیا کے استعمال تک پہنچ جاتی ہے ۔ نشہ آور اشیا کا استعمال ان میں خطرناک بیماریوں جیسے ایچ آئی وی کا ذریعہ ثابت ہو تاہے ۔ منشیات کا استعمال نہ صرف ان کی سماجی شناخت بلکہ خاندان اور معاشرے کو بھی تہہ و بالا کر دیتاہے ۔
ڈراپ آؤٹ کے چیلنج سے نپٹنے کے لیے والدین کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے ۔ معاشرے کو آگہی اور اختیارات کی منتقلی کے ساتھ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ لو گوں پر معاشی دبائو کو کم کرے تاکہ تعلیم کا حصول آسان بنا یا جا سکے ۔نہ صرف پرائمری سطح تک تعلیم مفت ہو بلکہ کتابوں ‘ کاپیوں ‘ یونیفارم ‘ سکول بیگ وغیرہ کی فراہمی بھی ریاست کی ذمہ داری ہو ۔ صوبائی حکومتوں نے اس سلسلے میں اقدامات کئے ہیں‘مگر ابھی کتب کی ترسیل میں تاخیر کے حوالے سے کچھ بنیادی مسائل موجودہیں۔ ہمیں اپنے سکولوں میں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ریاست کی سطح پر فنڈز درکار ہیں ۔ سکول میں ایک دوستانہ ماحول پیدا کرنے کے لیے اساتذہ کے رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسی طرح اساتذہ اور صدر معلمین کے باہمی تعلقات ‘ اساتذہ کے آپس کے تعلقات بچے کی شخصیت پر اثرا نداز ہوتے ہیں۔ ناخواندگی کا چیلنج جس شدت سے ہمارے سامنے آیا ہے اسے مد نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی شرح خواندگی کو بڑھانے کے لیے سخت محنت اور کو شش کی ضرورت ہے ۔ اس غرض سے ہمیں بچوں کو سکولوں تک رسائی دینے ‘ والدین کو شعور و آگاہی فراہم کرنے اور تعلیمی اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سکول کے ماحول کو پرکشش بنانا ہو گا اورصدر معلم ‘ اساتذہ‘ والدین اور طلبہ کو باہم مل کر کام کرنا ہو گا۔
ڈراپ آؤٹ کے چیلنج سے نپٹنے کے لیے چار سطح پر اقدامات کی ضرورت ہے ۔ پہلی سطح پر یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔تعلیم کے لیے فنڈز میں ا ضافہ کرے معاشی لحاظ سے کمزور بچوں کی مالی معاونت کی جائے اس کے لیے حکومتی سطح پر رہنمائی اور مشاورت کی ایسی ووکیشنل اکیڈمیاں قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں بچوں کو ہنر سکھا کر بہتر زندگی گزارنے کے قابل بنایا جائے ۔ سکول میں سزا کے حوالے سے محض قانون سازی پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ قوانین کو درست اور صحیح انداز میں نافذ بھی کیا جائے۔ دوسری سطح پر سکول میں اساتذہ کے رویوں میں بنیادی تبدیلی کی ضرورت ہے۔ انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ بچے جو اساتذہ کے خوف کی وجہ سے ایک دفعہ سکول چھو ڑ دیتے ہیں وہ کبھی دوبارہ سکول داخل نہیں ہوتے‘ اساتذہ کا مہربان رویہ طلبا کی زندگیوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتا ہے۔ تیسری سطح پر والدین کا اہم کردار ہے‘ والدین کو چاہیے کہ وہ تعلیم کی اہمیت کو سمجھیں اوراپنے بچوں کو تعلیم اور سکول کی اہمیت کے حوالے سے مسلسل یاد دہانی کراتے رہیں۔ چوتھی سطح پر یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے کو وہ ان معصوم بچوں کی داد رسی کریں جو زندگی کی دوڑ میں ہم سے پیچھے رہ گئے ہیں۔
آج اسلام آباد کی سڑکوں پر گاڑی چلاتے ہو ئے جب مجھے مختلف ٹریفک سگنلز پر رکنا پڑ ا تو کم سن بچوں اور بچیوں کا ایک ہجوم نظر آیا‘ کچھ پھول بیچنے کے لیے بے تاب تھے اور کوئی گاڑی کی ونڈ سکرین صاف کرنے کے لیے۔ میں ان کے دریدہ لباس اور پھول جیسے چہروں کو دیکھ کر سوچتا رہاکہ یہ تو ان کے کھیلنے اور لاڈ اٹھانے کے دن تھے۔زندگی نے کیوں اتنی جلدی انہیں مشقت کے بے رحم موسم کے حوالے کر دیا ہے؟