"SSC" (space) message & send to 7575

تعلیمی منصوبہ بندی اور اعدادوشمار کے سراب

کسی بھی منصوبہ بندی کے لیے ڈیٹا کا ہونا ضروری ہے۔ یہ ڈیٹا ہی ہے جس سے ہم آنے والے وقتوں کے لیے Projectionsکر سکتے ہیں۔ کسی بھی پالیسی کی تشکیل کے تین اہم مراحل ہوتے ہیں۔ پہلے مرحلے میں یہ تعین کرنا ہوتا ہے کہ کس سطح پر کون کون سے ایسے شعبے ہیں جن میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ دوسرے مرحلے میں ہم اس شعبے میں ترجیحات کا تعین کرتے ہیں اور ان شعبوں میں بہتری کے لیے اہداف کا انتخاب کرتے ہیں۔ تیسرا مرحلہ ان اہداف کے حصول کے لیے لائحۂ عمل تشکیل دینے کا ہے۔ اس سارے عمل میں یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس مطلوبہ معلومات ہوں جن کی مدد سے مؤثر منصوبہ بندی کی جا سکے۔ ان اعدادوشمار کی مدد سے ہی ہم اپنے اہداف کا تعین کرتے ہیں اور ایک ایسا لائحہ عمل تیار کرتے ہیں جس کی مدد سے مطلوبہ اہداف کو خوش اسلوبی اور کامیابی سے حاصل کیا جا سکے۔ یوں اس بات کی اہمیت بڑھ جاتی ہے کہ ہمارے پاس ڈیٹا کا ایک منظم‘ مؤثر اور مستعد نظام ہو۔لیکن اس سلسلے میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ یہ ڈیٹا قابلِ اعتبار بھی ہو۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے والے افراد تربیت یافتہ ہوں اور سوالناموں کی Validity اور Reliability کے حوالے سے اچھے طریقے سے اطمینان کر لیا جائے۔ معروف ماہرِ سماجیاتHarari اپنی کتاب 21 Lessons for 21st Century میں لکھتا ہے کہ ڈیٹا کی اہمیت اکیسویں صدی میں بڑھ گئی ہے۔ دورِ حاضر میں وہی گروہ یا ملک طاقت ور ہو گا جس کے قبضے میں ڈیٹا ہو گا۔
اب آئیے ایک نظر تعلیم کے شعبے پر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ہمیں اس شعبے میں کس قدر اور کتنا قابلِ اعتبار ڈیٹا میسر ہے؟ وہ کس حد تک Recent ہے؟ اورکتناReliable ہے؟ تعلیمی اعداد و شمار پاکستان میں سربستہ راز بن جاتے ہیں۔ اس کا اندازہ مجھے اس وقت ہوا جب آج سے تقریباً دس سال پہلے میں نے پاکستان میں تعلیمی پالیسیوں کے حوالے سے ایک تجزیاتی کتاب لکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ کتاب لکھنے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوئی کہ اس موضوع پر 1947ء سے 2009ء تک کی تمام پالیسیوں کا احاطہ کرنے والی کوئی کتاب موجود نہ تھی۔اس سفر کا پہلا مرحلہ ان پالیسیوں کا حصول تھا۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ کمپیوٹر کے اس دور میں بھی تعلیمی پالیسیاں کسی ایک جگہ پر یکجا نہیں تھیں۔ کسی نے بتایا کہ اسلام آباد میں اکیڈمی آف ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ (AEPAM) سے یہ پالیسیاں مل جائیں گی۔ ان دنوں میں لاہور کی ایک یونیورسٹی میں پڑھا رہا تھا۔ فون کرنے پر مجھے کہا گیا کہ آپ اسلام آباد آ کر پالیسیوں کی فوٹو کاپی کرا سکتے ہیں۔ یہ بات میرے لیے باعثِ تعجب تھی۔ میں نے دل ہی دل میں سوچا‘ ان پالیسیوں کو ویب سائٹ پر رکھنے میں کتنی محنت اور وقت درکار ہے؟ بہرحال یہ مرحلہ طے ہوا اور کئی برس بعد میری کتاب Education Policies in Pakistan: Politics, Projections, and Practices شائع ہوئی۔ کتاب لکھنے کے دوران ڈیٹا کے حوالے سے مجھے دلچسپ صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ اکثر مجھے لگا‘اعدادوشمار کو بڑھا کر پیش کیا جاتا ہے‘ مثلاً شرح خواندگی۔ حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ اضافی شرح خواندگی سے حکومت کا امیج بہتر ہو‘ مثلاً 1992-93ء میں شرح خواندگی کے چار مختلف اعدادوشمار 41.3 فیصد‘ 34 فیصد‘ 31 فیصد‘ اور 35 فیصد سرکاری دستاویزات میں پائے جاتے تھے۔
ماضی کو چھوڑ کر ہم حال میں آ جاتے ہیں۔ اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ پاکستان میں شرحِ خواندگی کیا ہے اور آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس کا جواب آپ کو بہ آسانی مل جائے گا تو یہ آپ کی خوش فہمی ہے۔ منسٹری آف ایجوکیشن کی ویب سائٹ پر جائیں تو یہاں شرح خواندگی 62.3 فیصد نظر آتی ہے۔ اس میں یہ نہیں بتایا گیا کہ یہ اعدادوشمار کہاں سے لیے گئے؟ اور جس دستاویز سے یہ اعداد و شمار لیے گئے ہیں‘ کیا وہ حالیہ دستاویز ہے؟ خواندگی کی یہ شرح پہلی بار کس سروے میں استعمال ہوئی‘ ہم اس کا سراغ لگاتے ہیں۔ Labour Force Survey 2017-18کے مطابق شرح خواندگی کا تخمینہ 62.27 فیصد دیا گیا تھا۔ ایک سال بعد 2018-19ء میں Pakistan Social And Living Standards Measurement سروے کی رپورٹ آ گئی ‘ جس کے مطابق پاکستان میں خواندگی کی شرح 60فیصد بتائی گئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اکنامک سروے آف پاکستان کی رپورٹ جو 2018-19 ء میں شائع ہوئی اس میں تازہ ترین پی ایس ایل ایم سروے 2018-19ء کے بجائے خواندگی کی شرح اس سے ایک سال پرانے لیبر فورس سروے سے لی گئی تھی‘ جس کی بظاہر یہ وجہ نظر آتی ہے کہ ایک سال پُرانے سروے میں یہ شرح 62.3 فیصد ۔ اکنامک سروے 2019-20ء میں یہ شرح کم ہو کر 60 فیصد ہو گئی کیونکہ اس دفعہ یہ شرح پی ایس ایل ایم کے سروے سے لی گئی‘ لیکن منسٹری آف فیڈرل ایجوکیشن اینڈ پروفیشنل ٹریننگ کی ویب سائٹ پر شرح خواندگی ابھی تک پرانے لیبر فورس سروے کے مطابق دی گئی ہے کیونکہ اس کی شرح زیادہ ہے۔ یہ ایک مختصر ایکسرسائز تھی جو آپ نے میرے ساتھ ایک سادہ سے سوال کے جواب کی تلاش میں کی‘ جس کا مقصد محض یہ جاننا تھا کہ پاکستان کی شرح خواندگی کیا ہے؟ اس ساری ایکسرسائز کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ان اعدادوشمار کی پالیسی سازوں کی نظر میں کیا اہمیت ہے؟ یہ ڈیٹا کیسے جمع کیا جاتا ہے؟ کون لوگ یہ ڈیٹا جمع کرنے پر مامور ہیں؟ کیسے سرکاری کارندے حکومتِ وقت کی مرضی کے اعدادوشمار دینے پر مجبور ہوتے ہیں؟ یہ وہ سوالات ہیں جو اس ڈیٹا کی Reliability پر سوالات اُٹھاتے ہیں۔ اب آئیے دیکھتے ہیں کہ پی ایس ایل ایم کا سروے ایک سال گزرنے کے بعد ابھی تک کیوں نہیں آیا؟ لیبر فورس سروے کی رپورٹ آنے میں اتنی تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ پاکستان میں تعلیمی منصوبہ بندی کا سب سے بڑا ادارہ اے ای پی اے ایم ہے‘ جس کا بنیادی کام ہی تعلیمی منصوبہ بندی ہے۔ یہ ہر سال ایک رپورٹ: Pakistan Education Statistics کے نام سے شائع کرتا ہے جس میں تازہ ترین اعدادوشمار ہوتے ہیں۔ یہ رپورٹ‘ AEPAM کی ویب سائٹ کے مطابق 1992-93ء سے باقاعدگی سے ہر سال شائع کی جاتی رہی ہے لیکن اس سلسلے کی آخری رپورٹ 2016-17ء میں آئی۔
AEPAM کی حالتِ زار یہ ہے کہ اس کے ڈائریکٹر جنرل کی اسامی دس ماہ سے خالی ہے۔ ڈائریکٹرز کی تین اسامیاں ہیں جو سب کی سب خالی پڑی ہیں۔ جوائنٹ ڈائریکٹرز کی تین اسامیوں میں سے دو اسامیاں خالی ہیں۔ گریڈ انیس میں سینئر سسٹم اینالسٹ اور ڈاکومنٹیشن آفیسر کی اسامیاں عرصے سے خالی ہیں‘ یعنی سینئر مینجمنٹ کی 9اسامیوں میں سے 8 خالی ہیں۔ یوں یہ ادارہ بغیر کسی رہنمائی کے چل رہا ہے۔ اس صورتحال میں ادارے سے مؤثر تعلیمی منصوبہ بندی کیلئے قابلِ اعتبار اعداد کی بر وقت فراہمی ایک غیر حقیقت پسندانہ توقع ہے۔ ڈیٹا کی عدم موجودگی اور تاخیر سے کئی سوال جنم لے رہے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ تازہ ترین اور قابلِ اعتبار ڈیٹا کے بغیر تعلیمی منصوبہ بندی کیونکر ممکن ہے؟ یہ ہمارے لیے لمحۂ فکریہ ہے کہ آج جبکہ اکیسویں صدی میں ٹیکنالوجی نے معلومات کا حصول نہایت آسان بنا دیا ہے ہم ابھی تک اعدادوشمار کی بھول بلیّوں میں کھوئے ہوئے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں