"SSC" (space) message & send to 7575

یونیورسٹیوں کی رینکنگ: ایک جائزہ

معیاری یونیورسٹی کیا ہے؟ اس کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں؟ طلبا ایک معیاری یونیورسٹی کا انتخاب کیسے کریں؟ کیا معیار کو اعدادوشمار سے ماپا جا سکتا ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جو ہمیشہ سے طلبائ‘ اساتذہ‘ یونیورسٹیوں کے سربراہان اور ماہرینِ تعلیم کے لیے اہم رہے ہیں۔ انہی سوالات کے جوابات کی تلاش میں 2003ء میں شنگھائی جیاؤ تانگ کے تحت یونیورسٹیوں کی رینکنگ کا آغاز کیا گیا جسے ہم Academic Ranking of World Universities (ARWU)کے نام سے جانتے ہیں۔ARWUرینکنگ ایک ایسا تجربہ تھا جس کی خوب تشہیر کی گئی‘ خاص طور پر جو یونیورسٹیاں اس فہرست میں شامل تھیں‘ انہوں نے اس کو اپنے اداروں کی مارکیٹنگ کے لیے استعمال کیا۔
پھر دیکھتے ہی دیکھتے رینکنگ کی کئی ایجنسیاں اس دوڑ میں شریک ہو گئیں کیونکہ یہ کمائی کا ایک ذریعہ بھی تھا۔ یوں تو ان ایجنسیوں کی تعداد مختصر عرصے میں بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن یہاں ہم تین مقبول ترین رینکنگ سسٹمز کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ ہیں: ARWUQ اور Times Higher Education ۔ اس سے پیشتر کہ ہم ان ریکنگ ایجنسیوں کے طریق کار پر تنقیدی نظر ڈالیں‘ آئیے دیکھتے ہیں کہ ہر ایجنسی کا معیاری یونیورسٹی کا مفہوم کیا ہے؟ اور کون سے عوامل معیار کی بنیاد بنائے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے ARWU کا جائزہ لیتے ہیں۔ ARWUکے Clarivate Analytics کے مطابق یہ بات اہم ہے کہ یونیورسٹی کے کتنے ریسرچرز کی تحقیق کو Cite کیا گیا؟ ARWUکے یونیورسٹی کو جانچنے کے معیارات میں کوالٹی ایجوکیشن کا حصہ 10 فیصد ہے۔ اس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہاں کے فارغ التحصیل طلبا نے کتنے نوبیل پرائز یا فیلڈ میڈلز کے اعزازات حاصل کیے ہیں۔ کوالٹی آف فیکلٹی کا حصہ 20 فیصد ہے جس میں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ نے کتنے نوبل پرائز یا فیلڈ میڈلز جیتے ہیں؟ 20 فیصد نمبر ان ریسرچرز کے ہیں جن کو سب سے زیادہ Cite کیا گیا۔ اس کے ساتھ 20 فیصد نمبر ان تحقیقی مضامین کے ہیں جو تحقیقی جرائد Nature یا Science میں شائع ہوئے۔ 20 فیصد نمبر ان تحقیقی مضامین کے ہیں جو Science Citation Index Expanded اور سوشل سائنس سائٹیشن انڈیکس میں جگہ پاتے ہیں۔ 10 فیصد نمبر ادارے کی فی کس اکیڈیمک کارکردگی کے ہیں۔
یونیورسٹی رینکنگ کی دوسری معروف ایجنسیQuacquarelli Symonds (QS) Ranking System ہے جس کے معیاری یونیورسٹی کے جانچنے کی کسوٹی میں سب سے اہم اس یونیورسٹی کی علمی حلقوں میں شہرت ہے۔ سب سے زیادہ نمبر ( 40فیصد) یونیورسٹی کی شہرت کے ہیں۔ ایمپلائرز میں یونیورسٹی کی شہرت: 10 فیصد۔ فیکلٹی اور طلباء کا تناسب:20 فیصد‘ ہر فیکلٹی کی سائٹیشنز: 20فیصد۔ اس کے لیے Elsevier Scopus ڈیٹابیس سے پانچ سال کے اعدادوشمار حاصل کیے جاتے ہیں۔ انٹرنیشنل فیکلٹی کے تناسب کے5 فیصد‘ اور انٹرنیشنل طلباء کے تناسب کے 5 فیصد نمبر ہیں۔ رینکنگ کا تیسرا معروف نظام (THE) Time Higher Education Ranking Criteriaہے۔ اس رینکنگ سسٹم میں درس وتدریس کے ماحول کے 30 فیصد نمبر ہیں۔ ان نمبروں کی تقسیم کچھ اس طرح سے ہے: یونیورسٹی کی شہرت 15 فیصڈ‘ فیکلٹی اور طلباء کا تناسب 4.5 فیصد‘ ڈاکٹریٹ ٹو بیچلر تناسب 2.25 فیصد‘ فیکلٹی میں ڈاکٹریٹ کا تناسب 6 فیصد اور ادارے کی آمدنی 2.25 فیصد۔ اس رینکنگ سسٹم میں دوسرا اہم اشاریہ تحقیق کا ہے جس کے نمبر 30 فیصد ہیں جس میں ریپوٹیشن سروے 18 فیصد‘ تحقیق سے آمدنی 6 فیصد‘ ریسرچ پروڈکٹیویٹی 6 فیصد شامل ہیں۔ معیار کو جانچنے کا ایک اور اشاریہ تحقیق کے اثرات ہیں‘ جس کے نمبر 30فیصد ہیں۔ اس میں دیکھا جاتا ہے کہ یونیورسٹی میں ہونے والی تحقیق کو کتنا Cite کیا گیا ہے؟ معیار کا ایک اشاریہ کسی بھی یونیورسٹی کا ایک بین الاقوامی تاثر ہے جس کے 7.5 فیصد نمبر ہیں۔یہ تین مقبول ترین یونیوسٹی رینکنگ سسٹمز کا مختصر تعارف تھا۔ ان یونیورسٹی رینکنگ سسٹمز کا بغور جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر سسٹم کی کوالٹی کی تعریف مختلف اور نتیجتاً اس کے جانچنے کے پیمانے جدا ہیں‘ اور اگر ایک ہی یونیورسٹی کو اگر تین مختلف رینکنگ سسٹمز سے جانچا جائے تو نتائج مختلف آئیں گے جس سے ایک بات واضح ہوتی ہے کہ کوالٹی کی کوئی ایک تعریف نہیں اور اسے محض اعدادوشمار سے نہیں ناپا جا سکتا۔ ان رینکنگ سسٹمز پر دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان میں ایک حصہ یونیورسٹی کی شہرت کا ہے جسے سروے فارمز کے ذریعے جانا جاتا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بعض دفعہ اس سروے کے عمل میں یونیورسٹیاں اثر انداز ہوتی ہیں۔ان سارے سسٹمز میں سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اعدادوشمار کی Verification کا کوئی موثر نظام نہیں‘ یونیورسٹی کی طرف سے جو بھی Dataملتا ہے‘ بغیر کسی جانچ پڑتال کے اسے یونیورسٹی کی رینکنگ کے تعین میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ کسی یونیورسٹی نے غلط ڈیٹا استعمال کرکے معیاری یونیورسٹیوں کی فہرست میں اپنی جگہ بنائی۔ اس کی بنیاد پر طلبا کو گمراہ کیا اور کئی برس گزرنے کے بعد پتا چلا کہ وہ ڈیٹا ہی غلط تھا۔ اس طرح کسی یونیورسٹی کا سائز بڑا ہونے سے اس کی تحقیق کی سائٹیشنز میں اضافے کے امکان بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک اور ترقی پزیر ممالک کی جامعات میں وسائل کے فر ق سے بھی فہرست میں ان کی پوزیشن میں واضح فرق نظر آجاتا ہے۔
پاکستان میں پہلی مرتبہ 2006ء میں ہائر ایجوکیشن کمیشن نے یونیورسٹی رینکنگ کا سلسلہ شروع کیا۔ اس رینکنگ کے عمل پر تعلیمی حلقوں کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ HEC تو ایک ریگولیٹری اتھارٹی ہے اور یونیورسٹیوں کی رینکنگ کیلئے تھرڈ پارٹی کی Validationکو ہی قابلِ اعتبار مانا جا سکتا ہے۔ HECکے رینکنگ کے نظام میں بھی بنیادی خرابی وہی تھی کہ یونیورسٹیوں کے دیے گئے ڈیٹا کو حتمی سمجھ کر فہرستیں بنائی جاتیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معیاری یونیورسٹیاں پیچھے رہ گئیں اور وہ یونیورسٹیاں فہرست میں اوپر چلی گئیں جو اعدادوشمار کے کھیل کو بہتر کھیل سکتی تھیں۔ خدا خدا کرکے ایچ ای سی کے موجودہ چیئرمین طارق بنوری نے یونیورسٹی رینکنگ کے اس مضحکہ کھیل کو ختم کیا جس کے نتیجے میں یونیورسٹیاں کوالٹی کے اصل مفہوم کو بھلا کر اعدادوشمار کی بے ہنگم دوڑ میں شریک ہو گئی تھیں۔ یہ وہی دوڑ تھی جس کے نتیجے میں بے معنی پی ایچ ڈی ڈگریوں اور غیر معیاری ریسرچ پیپرز کے ڈھیر لگ گئے تھے۔اب تو عالمی رینکنگ ایجنسیوں‘ پبلشنگ اداروں اور آئی ٹی کمپنیوں کے گٹھ جوڑ نے رینکنگ کو ایک کامیاب کاروبار کی شکل دے دی ہے جس کے تحت رینکنگ کے اس عمل میں حصہ لینے کیلئے یونیورسٹی سے اچھی خاصی فیس وصول کی جاتی ہے۔ یوں رینکنگ معیار کی جانچ کے بجائے ایک نفع بخش کارپوریٹ سرگرمی بن گیا ہے جس میں بنیادی کردار اعدادوشمار کا ہے‘ جن کا قابلِ اعتبار ہونا ضروری نہیں۔ اس سارے عمل میں تشویش کا پہلو یہ ہے کہ یونیورسٹی رینکنگ کے عالمی اداروں کا طریقِ کار یونیورسٹیوں کو ڈیٹا Manipulate کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ اس طرح کی رینکنگ کا Negative Washback Effect یہ ہے کہ یونیورسٹیوں کی اپنی اکیڈیمک پالیسیاں‘ ان کے ریسرچ کے اہداف‘ ان کے اخراجات کا رُخ اب رینکنگ سسٹمز کے انڈیکیٹر متعین کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کینیڈا اور برطانیہ میں بہت سی یونیورسٹیوں نے اس کھیل کا حصہ بننے سے انکار کر دیا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں