"SSC" (space) message & send to 7575

نظریہ اور تعلیم

تعلیم کیا ہے؟ اس کے مقاصد کیا ہونے چاہئیں ؟ تعلیم اور نظریے کا آپس میں کیا ربط ہے؟ تعلیم اور معاشرے کا تعلق کیا ہے؟ ان سب سوالات کے جوابات مختلف ادوار میں مختلف نقطہ ہا ئے نظر سے دیے گئے ہیں۔ تعلیم کے حوالے سے عصری مباحث میں تعلیم کو سماجی حوالے سے دیکھنے کی اہمیت پر زور دیا جا رہا ہے۔ ماہرین ِ تعلیم کا خیال ہے کہ سماجی نقطہ نظر سے جائزہ لیں توتعلیم کے تصور کی ایک جامع اور مکمل (Holistic) شکل سامنے آتی ہے۔ یہاں اس بات کا ادراک ضروری ہے کہ تعلیم کا عمل علیحدگی (Isolation) میں نہیں ہو تا بلکہ تعلیم کے تصور کی تخلیق اور تفہیم پر مختلف نظریات اثر انداز ہوتے اور ان کی صورت گری کرتے ہیں۔ اس صورت میں اگر ہم قومی سطح پر تعلیم کے حوالے سے کوئی بھی معیاری تبدیلی (Qualitative Change) لانا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم اور نظریے کے باہمی تعلق کو سمجھنا ہو گا۔
اس سے پہلے کہ ہم یہ دیکھیں کہ نظریہ سماجی سرگرمیوں کی تشکیل کس طرح کرتا ہے‘ہمیں یہ جاننا ہو گا کہ نظریہ سے کیا مراد ہے۔ معروف ماہر عمرانیات Eysenckکے مطابق نظریات کو تین سطحوں پر دیکھا جاسکتا ہے‘پہلی سطح رائے کی ہے‘دوسری سطح عادت اور تیسری سطح رویے کی ہے۔ آئیڈیالوجی بہت سے Stereotype کی تشکیل کرتی ہے۔ جن کی سماجی ادارے (Social Institution ) نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ انہیں جائز قرار دینے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔یہ آئیڈیالوجی جسے معاشرے کے طاقتور سماجی اداروں کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ذہنوں کو اسیر کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔اس ذہنی بالادستی کی طرف مشہور اطالوی مفکر انتونیو گرامچی نے اپنی کتاب Prison Notebook میں بحث کی ہے۔دوسرے سماجی اداروں کے علاوہ تعلیمی ادارے بھیSocializationکے عمل میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں اور ان آئیڈیالوجیز کی تشکیل‘تفہیم‘ اور ترسیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جن کا تعلق حکمران طبقے یا معاشرے کے بالادست طبقے سے ہوتا ہے۔
جب ہم پاکستان میں تعلیم کی تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں پتا چلتا ہے کہ تعلیم کوکس طرح حکمرانوں کے من پسند نظریات کی تشکیل و ترویج کے لیے استعمال کیا جاتا رہا ہے مثلاً ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں اشتراکیت کے فلسفے پر عمل کرتے ہوئے قومیانے( Nationalization) کا نظریہ سامنے آیا‘ جس کے نتیجے میں نہ صرف مختلف صنعتیں بلکہ تعلیمی ادارے بھی قومیالیے گئے جس سے تعلیمی منظر نامے پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں پورا زور ''معاشی ترقی‘‘ کے نعرے پر تھا‘ جبکہ سماجی ترقی کے پہلو کو اتنی اہمیت نہیں دی گئی تھی اسی لیے اس دور میں شخصی آزادیوں پر پابندی تھی۔صدر ضیا الحق کے زمانے میں تعلیمی اداروں اور تعلیم کیIslamizationکا نظریہ سامنے آیا۔نواز شریف کی تعلیمی پالیسی بھی اسی آئیڈیالوجی کی توسیع تھی۔ پرویز مشرف کے دور میں Enlightened Moderation کا نظریہ سامنے آیا اور اس کا اظہار واضح طور پر تعلیم کے شعبے میں بھی نظر آیا۔اس میں اہم بات یہ تھی کہ کسی حکمران نے عوام سے کوئی رائے لینے اور مشورہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔چونکہ وہ طاقت سے تخت پر بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے عوام کی تقدیر کے فیصلے بیک جنبشِ قلم کئے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر حکمران نے اپنی آئیڈیالوجی کو جائزقرار دینے اور تشہیر کے لیے تعلیم اور تعلیمی اداروں کا استعمال کیا۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ تعلیم کس قدر اہم ہے اور تعلیم اورنظریے میں ایک مضبوط دو رویہ باہمی رشتہ (Two way Mutual Relationship) ہے۔
آئیڈیالوجی کی اصطلاح کو سمجھنے کے بعد آئیے اب ہم پاکستان کے حوالے سے آئیڈیالوجی اور تعلیم کے تعلق کو جاننے کی کوشش کریں ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم کے مختلف تصورات کے بارے میں مختلف نظریات کیسے ان کا مفہوم بدل دیتے ہیں مثلاً پاکستان کے اکثر مرکزی دھارے کے سکولوں میں علم (Knowledge) کا تصور جامد (Static) ہے۔ علم کا یہ نظریہ ایک ایسے طریقۂ تدریس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے جس کا اول و آخر مقصد پہلے سے موجود علم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا ہے۔ طریقۂ تدریس کا یہ نظریہ کسی قسم کی تخلیقی اور تنقیدی سوچ کو ابھرنے کا موقع نہیں دیتا۔ تعلیم اور تدریس کے اس نظریے میں طلبا کی مثال خالی برتنوں جیسی ہے جسے اساتذہ پہلے سے موجود ''علم‘‘ سے بھرتے رہتے ہیں۔تعلیم کے اس نظریے میں سیکھنے کا عمل ''رٹا‘‘ لگانے کا نام ہے۔ اس عمل کو برازیل کے ماہرِ تعلیم پالو فریرے نے بیکنگ کانسپٹ آف نالج (Banking Concept of Knowledge) قرار دیا ہے۔ یوں تعلیم کے اس نظریے کی روشنی میں سیکھنے کا عمل محض پہلے سے موجود معلومات کو یاد کرنا اور امتحان میں لکھ دینے کا نام ہے۔ اس سارے عمل میں تنقیدی سوچ کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا اور طلبا کو سوچ بچار (Reflection) کے مواقع نہیں ملتے۔ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں میں رائج تعلیم کے اس نظریے کو موجودہ امتحانی نظام سے بھی حوصلہ افزائی ملتی ہے جس میں وہ طالبِ علم کامیاب ہوتے ہیں جو اپنی یادداشت کا بہتر استعمال کرتے ہیں۔
یوں کلاس روم میں پڑھنے اور امتحان پاس کرنے اور اچھے نمبر لینے کے لیے طلبا کو تخلیقی اور تنقیدی سوچ کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی کیونکہ ہمارے نظامِ امتحان میں تخلیق یا تنقید کی کوئی گنجائش نہیں۔ یہ طلبا جو تعلیمی اداروں سے ڈگریاں لے کر نکلتے ہیں ان کے پاس علم کے بجائے محض انفارمیشن ہوتی ہے جس کے اطلاقی (Applied) پہلو سے وہ بے خبر ہوتے ہیں۔یوں بیشتر تعلیمی اداروں میں رجعت پسند تعلیمی عمل معاشرے میں تبدیلی لانے کے بجائے طاقت کے ڈھانچے (Power Structure) کو مزید تقویت دیتا ہے۔ اس طرح تعلیم جس کا مقصد معاشرے میں سماجی اور معاشی عدم مساوات کو ختم کرنا ہے اس عدم مساوات کو مزید بڑھانے میں مدد دے رہی ہے۔
موجودہ حکومت نے تعلیمی معیار میں بہتری لانے کا اعادہ کیا ہے لیکن تعلیم میں معیاری تبدیلی محض مصنوعی (Cosmetic) حربوں سے نہیں آسکتی‘کیونکہ ہمارے تعلیمی مسئلے کی جڑیں بہت گہری ہیں جس کے لیے ہمیں تعلیم سے جڑے ہوئے تصورات‘ طریقۂ تدریس‘سیکھنے کے عمل اور نظامِ امتحان کے نظریات کا ازسرِ نو جائزہ لے کر ان میں جوہری (Fundamental) تبدیلیاں کرنا ہوں گی اورتعلیم کو Transmissionکے نظریے سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ اس تبدیلی کے لیے ہمیں ''علم‘‘ کی جدید تعریف کرنا ہوگی اس صورت میں تدریس اور تعلیم کا عمل تبدیل ہوگا اور کلاس روم میں اساتذہ اور طلبا مل کر علم کی تلاش اور تشکیل کریں گے۔ اس کے لیے ہمیں نظامِ امتحان کے فرسودہ طریق کار کو بدلنا ہو گا۔ جس میں Higher Order Thinking Skillsکے بجائے محض یادداشت کا امتحان ہوتا ہے۔
تبدیلی کے اس سارے عمل کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری ہے کہ نظامِ امتحان کو ان بنیادوں پر استوار کیا جائے جہاں تنقیدی سوچ اورعلم کے عملی پہلوؤں ( Applied Aspects) پر زور دیا جائے۔ تعلیم سے جڑے تصورات میں تبدیلی اسی وقت مؤثر ہوگی جب ہم تعلیم کے حوالے سے ان کا ازسرِ نوجائزہ لیں گے۔ تعلیم کا رجعت پسندانہ نظریہ Transmission کو فروغ دیتا ہے‘ جبکہ اس کا عصری نظریہ Transformationکو اپنا اولین مقصد قرار دیتا ہے۔ تعلیم کے اس نظریے کا مرکزی نکتہ تبدیلی ہے۔ انفرادی سطح پر تبدیلی اور پھر معاشرے کی سطح پر بامعنی تبدیلی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں